ممتاز شخصیت: ممتاز صدیقی

0
672

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


ڈاکٹر عنبر عابد

مجھ میں ہے تھوڑی بہت جو بھی یہ فن کی خوشبو
در حقیقت ہے مری ماں کے سخن کی خوشبو
آج کی تاریخ 5 اگست 2018 ء ہے… خبر تو یوں تھی کہ مانسون کی آمد ہوچکی ہے لیکن ایک خوشگوار جھلک اس نے دکھائی بھی پھر نہ جانے کہاں راستہ بھول گیا۔ آسمان پر سرمئی گھٹائوں کا پہرہ ہے… حبس اور امس سے حال بُرا ہے…یہ گھٹائیں چھائی تو ہیں لیکن ٹھیک میرے ان خیالات کے اس ابر کی طرح جو ایک مدّت سے ذہن پر چھایا ہوا ہے اور کسی پل بھی دل کی زمین پر برسنے کے لیے بہانہ ڈھونڈ رہا ہے۔ ذہن سے دل تک کا یہ سفر ایک مشکل گزار سفر ہے!
میرے سامنے ایک کتاب رکھی ہوئی ہے… ایک دستاویز… کتاب نما دستاویز کے ہر ورق کی چشم دید گواہ ہوں۔ اس کتاب کا ایک ایک لفظ میں نے عمر و شعور کی سیڑھیاں چڑھتے سنا پڑھا اور محسوس کیا ہے۔ یہ کتاب میری متاعِ حیات ہے جس کا عنوان ہے ’’آئینہ پسِ آئینہ‘‘ محترمہ ممتاز صدیقی صاحبہ جو کہ خوش قسمتی سے میری والدہ تھیں یہ ان کا پانچواں شعری مجموعہ ہے۔
مسلسل پھڑپھڑاتے ان صفحات پر یکلخت میں اپنا ہاتھ رکھ دیتی ہوں… الفاظ میری ہتھیلی میں گویا جذب سے ہونے لگے ہیں … اور میری شریانوں میں میرے لہو کے ساتھ سرایت کرنے لگتے ہیں …… اور میں قلم اٹھاکر لکھنے بیٹھ جاتی ہوں!
کبھی شہرِ دل سے گزرو تو سنبھل کر پائوں رکھنا
یہاں فرش ہے گلوں کا کئی آئینے رکھے ہیں
(ممتاز صدیقی)
میری امّی محترمہ ممتاز صدیقی صاحبہ کی پیدائش ۱۰؍ جون ۱۹۴۷ء؁ کو اچھاور میں ہوئی تھی۔ ان کے والد جناب حاجی اعجاز احمد صاحب تھے۔ ان کا گھرانہ انتہائی مذہبی اور اخلاقی اقدار کا پابندتھا۔ امّی اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ ان کی والدہ ماجدہ سکینہ بی بی انتہائی مخلص نیک سیرت اور گھریلو خاتون تھیں۔ حاجی اعجاز احمد صاحب انتہائی بردبار اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ نفاست اور سلیقہ ان کے اطوار کا خاصہ تھا۔ اعجاز صاحب بے حد باذوق اور سخن فہم شخص تھے۔ ہزاروں اشعار انہیں زبانی یاد تھے۔ تعلیم سے انہیں والہانہ لگائو تھا۔تعلیم کو وہ کچّے ذہنوں کی نشوو نما مانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے بچّوں کی بہتر تعلیم و تربیت کی۔ گھر پر ہی بہترین اساتذہ کا انتظام کیا اور اردو و عربی، فارسی، انگریزی زبانوں کی تدریس کا سلسلہ چلتا رہا۔ نماز، روزہ، پردہ اور اخلاقیات اس گھر کی پاکیزہ فضا تھی۔ ایسے ماحول میں (امّی) ممتاز صدیقی صاحبہ کی پرورش ہوئی اور ابھی عمر کوئی پندرہ سولہ سال رہی ہوگی کہ حاجی ریاض احمد صاحب جو کہ امّی کے اکلوتے بھائی تھے انہوں نے پاکستان شفٹ ہونے کا ارادہ کر لیا اور امّی کی شادی بھوپال میں آباد ایک سادات خاندان میں کر دی گئی اور ناناجان اپنے بیٹے کے ہمراہ پاکستان جا بسے۔ امّی اور باقی کی چار بہنیں یہیں ہندوستان میں رہ گئیں۔شادی کے بعد ہم بہن بھائیوں کی پرورش کے ساتھ والدہ محترمہ نے اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور اردو میں ایم۔اے۔ تک تعلیم حاصل کی۔ ساتھ ہی شعرو سخن کا سفر بھی جاری رہا۔اور یہاں سے شروع ہوتے ہیں امّی کے وہ حالات جن سے میں ذاتی طور سے واقف ہوں۔ میں نے امّی کو ہمیشہ اپنے والدین کو بیحد یاد کرتے دیکھا… ان دنوں خط ہی خیریت کا ذریعہ تھے…… جب نانا جان کا خط آتا تو امّی کا چہرہ کسی گلاب کی مانند کِھل اٹھتا۔ وہ نانا جان کے خط کو بار بار پڑھتیں، بوسہ دیتیں اور آنکھوں سے لگاتیں۔ میری عمر اس وقت کوئی آٹھ دس برس کی رہی ہوگی۔ گھر کے ماحول میں اردو رچی بسی تھی۔چونکہ میں اردو پڑھ لیا کرتی تھی اس لئے نانا جان کا کوئی خط آتا تو میں وہ خط پڑھنے کی کوشش کرتی۔ اس خط میں ایک باپ کی شفقت کا خزانہ پنہاں ہوتاتھا۔ لفظ موتیوں کی مانند… صاف شفّاف تحریر کئی اشعار سے مرصعّ خط۔ یہ اشعار زیادہ تر اقبال کے ہوتے۔اس تحریر میں ایک باپ کی شفقتوں کا دریا موجزن رہتا اور ان کے ہر خط میں عزم و ہمت کا ایک پیغام مضمر ہوتا کسی بھی لفظ میں یاس و حسرت یا مایوسی کا اظہار نہیں ہوتاتھا۔ وہی حوصلہ اور ہمت نانا جان کی شخصیت کا اہم جز تھی۔ ان کی ہر تحریر اسی عمل کی غمّازہوا کرتی تھی۔گھر کے ادبی ماحول … اور پڑھنے لکھنے کے شوق نے بہت پہلے ہی والدہ صاحبہ کو شعر گوئی کی طرف مائل کردیا تھا۔ وہ بتاتی تھیں کہ میری ہر کاپی پر منتخب اشعار ہوتے تھے اور پھر وہ خود بھی ۱۱؍ سال کی عمر میں شعر کہنے لگی تھیں۔
ہم پانچ بہن بھائیوں کی پرورش اور تعلیم تربیت میں وہ مصروف رہیں۔ اسکولی تعلیم علیحدہ لیکن ہمارے گھر کا ماحول خاص ادبی تھا۔ اردو ہم سب پڑھتے لکھتے رہے اور اردو سے واقفیت رہی۔اپنے پانچ بھائی بہنوں میں، عنبر عابد سب سے بڑی، پھر حنا عابدجو کہ امریکہ نیویارک میں مقیم ہیں، پھر عادل حسین اور زرقاء یہ دونوں عابد ریاض (سعودی عرب) میں مقیم ہیں، سب سے چھوٹی صدف اور میں بھوپال میں ہی ہیں۔ ہمارے والد محترم جناب سیّدعابد حسین صاحب ایک بیحد مخلص و باوقار شخصیت کے مالک تھے۔
وقت اور حالات کے ساتھ امّی کے ذوق و شعور میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے اردو اکیڈمی میں چلنے والے اردو کیلی گرافی کورس میں داخلہ لیا۔ اس وقت مرحوم فضل تابش صاحب اردو اکیڈمی کے سکریٹری تھے۔ اس ادبی ماحول نے محترمہ کے ذوق کو جلا بخشی اور کچھ ادبی نشستوں میںمحترمہ نے شرکت کی… اور بھوپال کی ادبی فضا میں ایک تازہ جھونکے کی طرح محترمہ کے فن کی خوشبو پھیلتی چلی گئی… مقامی مشاعروں سے نکل کر ہندوستان کے دیگر شہروں تک اور پھر بین الاقوامی مشاعروں میں ممتاز صدیقی صاحبہ کی شرکت ہونے لگی۔
ایک باوقار طرح دار، خوش گفتار، خوش لباس خاتون ممتاز صدیقی صاحبہ کی شخصیت کو اگر سحر انگیز شخصیت کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ زیر لب مسکراہٹ، آنکھوں میں حیا، چہرے پر وقار، متانت و سنجیدگی لیے جب وہ کلام پڑھتیں تو لوگ مسحور ہوجاتے۔ یہاں میں ضروری سمجھتی ہوں کہ اپنی رائے بعد میں دوں اس سے پہلے محترمہ کے بارے میں جو ان کے ہم عصروں کی رائے تھی اسے آپ کے سامنے پیش کروں جنہوں نے ان کی شخصیات اور فن پر اظہار خیال کیا ہے۔
بہت کم شخصیات اتنی خوش قسمت ہونگی جن کے فن کو ان کی زندگی میں سراہا جائے …… اور انہیں ادب کی دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل ہو۔ محترمہ ممتاز صدیقی اپنے نام کی طرح اپنے دور میں ممتاز رہیں۔ کئی مشاہیرِ ادب نے ان کے فن اور شخصیت پر مفصل اظہار خیال کیا ہے جو مکمل تو نہیں مختصر طور پر میں نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ ہو۔
بقول پدم شری ڈاکٹر بشیر ؔبدر :
’’ممتاز صدیقی غزل کی ایک سچّی عبادت گزارہیں اور قابل قدر بات یہ ہے کہ ممتاز صدیقی صاحبہ ہندوستان کی ان چند شاعرات میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں جنہوں نے اپنی غزل گوئی میں ایسی کامیابی حاصل کی ہے جو انہیں ہندو پاک کی قابلِ ذکر شاعرات کے قافلے میں شریک کرتی ہے۔‘‘
دسمبر ۲۰۰۵ء؁ میں امّی کا نیویارک اپنی بیٹی حنا کے پاس جانا ہوا۔ یہاں ان کے اعزاز میں کولمبیا یونیورسٹی کے جارج برنارڈ شاہ ہال میں اعزازی مشاعرہ کے علاوہ کوئنس جیکسن ہائٹ اور مین ہٹن میں بھی کئی مشاعرے اور دعوتیں منعقد کی گئیں اور کئی نثر نگاروں نے امّی کے فن اور شخصیت پر اظہار خیال کیا اور مختلف مقامی اخبارات میں یہ آرٹیکل شائع ہوئے۔
پروفیسر خالدہ ظہور، نیویارک :
’’ممتاز جذبوں کی صداقت کی ترجمان ہیں ۔ وہ چادر و چہار دیواری کی حدود میں رہتے ہوئے بھی متوسط طبقے کی نمائندہ شاعرہ ہونے کا حق بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرتی ہیں۔ ممتاز کی آواز پردوں اور چلمنوں کے پیچھے چھپی ہوئی خواتین کی آواز ہے۔ اس آواز میں بڑا خلوص و صداقت ہے کیونکہ یہ وقت و حالات کے تھپیڑے کھانے کے بعد آزمائشوں کی پھٹّی میں گزرکر کندن بن گئی ہے۔‘‘
جب وہ پاکستان گئیں تو ان کے اعزاز میں ادبی تقریبات کا انعقاد ہوا۔ ایسی ہی ایک تقریب میں محمد احمد سبزواری مرحوم نے والدہ مرحومہ کی ادبی و شعری کاوشوں کو ان الفاظ سے نوازا تھا۔
’’ممتازصدیقی صاحبہ بھوپال شہر سے ہندوستان کی ایسی ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں جن کی غزلوں کے دو شعری مجموعے ’’صدائے دل‘‘ اور ’’بساطِ دل‘‘ اردو اور ہندی میں شائع ہوچکے ہیں اور ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’جگنوئوں کے میلے‘‘ میرے سامنے ہے۔ ویسے ممتاز غزل کی شاعرہ ہیں لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ انہیں نظموں خصوصاً آزاد نظموں پر پوری قدرت حاصل ہے۔ ان کی یہ ساری نظمیں ان کے احساسات و جذبات کی ترجمان ہیں۔ ان کے یہاں ماں کی ممتا، اولاد کی محبت ، داستانِ رنج و الم اور نارسائی کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ممتاز نئی تراکیب اور استعارات کو استعمال کرنے کے فن میں ماہر ہیں۔
بستا ہی نہیں کوئی سب جانے کو بیٹھے ہیں
اس گھر ہی کی قسمت میں ویرانہ مزاجی ہے‘‘
اس ویرانہ مزاجی کا جواب نہیں۔ ‘‘
اختر سعید خاں مرحوم بھی والدہ کی شعری حیثیت سے واقف تھے۔ انھوں نے کہا تھا :
’’ممتاز صدیقی نے تقریباً ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے چار مجموعے طبع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں جو انتہائی دل پذیر اور خوبصورت غزلوں، نظموں، قطعات اور گیتوں سے آراستہ ہیں۔ ممتاز صدیقی اپنے وراثتی مشرقی تہذیب کے وقار اور قدروں کی پاسداری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک شاعرہ کی حیثیت سے اپنی شخصیت کو تسلیم کرانے میں کامیاب رہی ہیں۔ مجموعی طور پر ممتاز ایک فطری شاعرہ ہیں۔‘‘
ماہرِ نظم رہبرؔ جونپوری کے الفاظ میں :
’’یوں تو ممتاز صدیقی صاحبہ غزل کی شاعرہ ہیں لیکن ان کی آزاد نظمیں جو کہ جذبات و احساسات کے پیکر میں ڈھلی ہوئی ہیں انہیں پڑھ کر شاعرہ کی فکر کی بلند پروازی کی داد دینی پڑتی ہے۔‘‘
فاروق جائسی ایک معتبر نقّاد و شاعر ہیں۔ ایک شعری محفل میں انھوں نے والدہ صاحبہ کا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا :
’’محترمہ ممتاز صدیقی صاحبہ نے ہندو پاک میں مشاعروں اور اپنی گراں قدر مطبوعات کے حوالہ سے اپنی ایک مستحکم شناخت بنائی ہے۔ وہ ہندوستان ہی نہیں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب عمارات میں بہت مشہور و معروف شخصیت کی مالک ہیں۔ ہندوستان میںمشاعروں میں شامل شاعرات کی ادبی حیثیت مشکوک مانی جاتی ہے لیکن جن شاعرات نے مشاعروں میں اپنا آپ محفوظ رکھتے ہوئے اپنی اہمیت منوائی اور اپنی شناخت بنائی ہے ان میں محترمہ ممتاز صدیقی صاحبہ کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ کم از کم ہندوستان میں ایسی شاعرات انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں جن کی شناخت نظم کے حوالے سے معتبر تسلیم کی جاتی ہے۔ ان شاعرات میں ممتاز صدیقی صاحبہ کا شمار ہوتا ہے۔ ان کی نظموں میں نسوانی جذبات کی عکّاسی اور صداقت کا عنصر بہت نمایاں ہے جو قابلِ صد ستائش ہے۔‘‘
رشید انجمـ بھوپال کے معروف ادیب ہیں۔ ’’آئینہ پسِ آئینہ‘‘ کے بیک کور پر انھوں نے لکھا ہے :
’’ممتاز صدیقی بھوپال کی ان شاعرات کی صف اوّل کی تخلیق کار ہیں جن کے اشعار بادِ نسیم کے لطیف اور خوشگوار جھونکوں سے ذہن کو راحت بخشتے ہیں۔ ان کے اشعار میں رومان کا جمالیاتی تصور بھی ہے اور حالات و معاملات کا دشوار آہنگ بھی۔ ممتاز صدیقی ہمارے عہد کی واقعی ممتاز شاعرہ ہیں جن کی شاعری میں مہکے ہوئے گلزار کی مانند کلاسکی رنگ و آہنگ کا جمال نمایاں ہے۔‘‘
اسی طرح بھوپال کے ممتاز اور صفِ اوّل کے ادیبوں اور شاعروں نے بھی ان کے کلام کو سراہا ہے۔
’’ممتاز صدیقی صاحبہ بھوپال کی وہ نامور شاعرہ ہیں جنہوں نے اپنے مجموعہ کلام ’’جگنوئوں کے میلے‘‘ میں جو نظمیں شامل کی ہیں ان میں انہوں نے اپنے عہد کی دہشت گردی، نفسیاتی بدنظمی، اخلاقی بے اعتدالی اور ثقافتی فتنہ طرازیوں کا سلیقہ سے احاطہ کیا ہے جو متوسط مسلم طبقے کی اجتماعی سائیکی کا حصّہ ہیں۔‘‘ (اقبال مسعود)
’’ممتاز صدیقی صاحبہ نے اپنے تجربات و مشاہدات کو غزل کے توسط سے سات رنگوں کی دھنک میں ڈھالنے کے فن میں ماہر ہیں۔‘‘ (ڈاکٹر مہتاب عالم)
’’محترمہ ممتاز صدیقی صاحبہ کے طرز کلام میں ایک خاص صفت یہ نظر آتی ہے کہ وہ اشارے کنائے میں بہت محتاط ہیں اور تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں۔ تحریم و تکریم بھی ملحوظ رکھتی ہیں۔ان کا طرزِ سخن شرم و حیا کا پابند ہے۔
میں برسوں سے مشاعروں میں اُن کا کلام سنتا آرہاہوں اور عوام سے داد وصول کرتے ہوئے بھی دیکھ رہا ہوں۔ اب ان کی شہرت ملک کی حدوں سے نکل کر سمندر پار پہنچ گئی ہے۔ان کی بڑی صاف شستہ زبان اور لہجے کی نسائیت بڑی سادگی کے ساتھ صنفِ نازک کی ترجمانی کرتی ہیں۔‘‘ (ظفر نسیمی)
’’ممتاز صدیقی رونقِ محفل ہوا کرتیںتھیں…… زیر لب ہلکی مسکراہٹ لیے جب وہ محفل میں جلوہ افروز ہوتیں تو ہر ایک کی نگاہ اُن پر ٹھہر سی جاتی۔ وہ سبھی سے محبت سے ملتیں، خیرو عافیت طلب کرتیں۔ حسن سلوک، بہترین لباس اور نفاست ان کی شخصیت کی خاص پہچان تھی۔شعر کہنے کے ساتھ ساتھ انہیں شعر پڑھنے کے ہنر میں بھی مہارت حاصل تھی۔‘‘ (خالدہ صدیقی)
قارئین اکرام یہاں آکر میرا قلم ٹھہر جاتا ہے …… نہیں ٹھہر نہیں جاتا بلکہ کچھ دیر سانس لینے کو رک جاتا ہے …… ان مشاہیر ادب کی رائے سے آپ کی واقفیت بھی ضروری تھی لیکن یہ فہرست کافی طویل ہے۔ ان شخصیات کے علاوہ بھی کئی ماہرانِ فن نے محترمہ کی شخصیت اور فن کے بارے میں بہت تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ جن میں مشہور شاعر رفعت سروش، ڈاکٹر انجم بارہ بنکوی، عبدالوحید واحدی، علی عباس امید، انعام اللہ خاں لودھی، محترمہ شگفتہ فرحت، اعجاز عفی عنہ، محمد صادق اختر حسین شیخ محترمہ سیما بدایونی صاحبہ، طیبہ بلگرامی، ڈاکٹر اعظم ، رمیش شرما (سہارا نیوز)، رمیش نند وغیرہ شامل ہیں۔
ان تمام حضرات کی رائے کے بعد میںمیں ڈاکٹر عنبر عابد جسے خوش قسمتی سے محترمہ ممتاز صدیقی صاحبہ کی سب سے بڑی بیٹی ہونے کا شرف حاصل ہے، ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیسے کہاں سے اور کس طرح کروں ؟؟؟
ایک ایسی شخصیت جو بیک وقت میری والدہ ہونے کے ساتھ میری راہبر، میری دوست و ہم نفس ہی نہیں بلکہ زندگی کی تمام تاریک راہوں کی واحد مشعلِ راہ تھیں مجھے کبھی کبھی بڑی حیرت ہوتی ہے جب میں امّی کی شخصیت کا تجزیہ کرتی ہوں ایک طرف زندگی کے ناموافق حالات اور دوسری طرف ان کا بیحد حساس درد مند دل لیکن اسی حسّاس دل کی زمین پر عزم و ہمت اور حوصلے کی ایک داستان رقم تھی۔محترمہ نے کبھی حالات سے گھبراکر مایوسی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا بلکہ ہمت اور حوصلے سے … تدبیر سے تقدیر کا رخ پلٹنے کی کوشش کی۔ ان کی زندگی ایک جہد مسلسل تھی اور ہم اولادیں ہی ان کا کل سرمایۂ حیات تھیں۔ اپنے بچّوں کے بہترین مستقبل کے لیے، بہتر تعلیم و تربیت کے لیے وہ تا زندگی کوشاں رہیں۔ اور یہی سبق انہوں نے ہم پانچوں بہن بھائیوں کو دیا کہ حالات گھبرانے سے نہیں سامنا کرنے سے بدلتے ہیں۔
والدہ محترمہ کی زندگی میرے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے جس کے ہر صفحہ پر ان کے تجربوں کی داستان رقم ہے۔ خونِ جگر کی روشنائی سے انہوں نے صفحۂ قرطاس پر احساس و جذبات کی ایسی عکّاسی کی ہے کہ جو بڑی واضح و دلکش…… اور زندگی کے قریب تر ہے…… لیکن تخلیق کار اپنے فن میں اس قدر ماہر ہے کہ اس نے اپنی اس تخلیق کے پس منظر میں شیشہ استعمال کیا ہے …… اور اس شیشے سے جھانکتا ہوا قاری جہاں ایک طرف اس تخلیق کی ستائش تو کرتا ہے لیکن اسے اس فن پارے میں اپنا عکس بھی صاف نظر آتا ہے اور یہی شاعری کی معراج ہے جب شاعر کے کلام میں آفاقیت کا عنصر شامل ہوجائے اور قاری کو اس میں اپنا آپ نظر آنے لگے۔
یہ میرے خون سے لکھی ہوئی تحریریں ہیں
میرے احساس کی منہ بولتی تصویریں ہیں
(ممتاز صدیقی)
والدہ محترمہ ممتاز صدیقی صاحبہ کی زندگی کسی دریا کی مانند میری آنکھوں کے سامنے موجزن ہے…… جس میں احساسات کی اٹھتی مچلتی لہریں اور جذبات کے بنتے بگڑتے بھنور ہیں ……خیالات کی گہرائی اور فکر کی بلند پروازی بھی موجود ہے۔ اس دریائے سخن کی تہہ میں شوخی، لطافت، محبت ، درد، محرومی جیسے گوہر نایاب پنہاں ہیں۔
اخلاقی حدود و پابندیوں کی پاسداری کرتے ہوئے محترمہ نے جس طرح اپنا شعری سفر طے کیا وہ قابل ستائش ہے۔ بھوپال کے ادبی حلقوں میں محترمہ کی بے پناہ مقبولیت تھی اور ہے۔ ہر خاص و عام میں ادب و احترام سے ان کا نام لیا جاتا رہا ہے۔ حسن سلوک ان کی خاص پہچان رہی۔ خلوص، محبت، اخلاق، مسکراہٹ اور گفتگو کے فن میں ماہر گویہ منہ سے پھول جھڑتے تھے۔
ابھی ابھی تو سب کچھ ٹھیک تھا…… حالات سازگار تھے۔ میں بچّوں کی شادی کی تیاری میں مصروف تھی۔ محترمہ امریکہ نیویارک سے گرین کارڈ کے لیے سفر کرکے واپس لوٹی تھیں…… ہم سب بھائی بہن ایک عرصہ طویل کے بعد جمع ہوئے تھے۔ امّی خوش تھیں لیکن امریکہ کا سفر پھر لاحق تھا۔ چھہ ماہ میں انہیں دوبارہ وہاں جانا تھا۔ شاید اس بار وہ جانا نہیں چاہتی تھیں۔ کیوں ؟ یہ بعد میں سمجھ آیا۔
وہ ۲۰؍ فروری ۲۰۱۸ء؁ کی شام تھی۔ امّی امریکہ جارہی تھیں۔ ان کی طبیعت کچھ مضمحل سی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اُن کو بھیجنا تھا کیونکہ سب بھائی بہنوں کی شادی کے بعد اب مجبوری یہ تھی کہ گھر میں کوئی نہیں تھا۔ امّی اکیلی تھیں۔ ان کے اچّھے علاج اور بہتر نگہہ داشت کے لیے ہی انہیں امریکہ بھیجنا طے ہوا تھا۔ لگیج گاڑی میں رکھا جا چکا تھا۔ امّی بیٹھ رہی تھیں۔ انہوں بڑھ کر میرا ماتھا چوم لیا تھا اور بہت دیر سینے سے لگائے رکھا۔ میں ضبط کرتے ہوئے مسکرادئے اور انہیں بہلاتے ہوئے کہا ہم جلد ہی ملیں گے انشاء اللہ۔ امّی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے مجھے پلٹ کر دیکھا تھا۔
وقت رخصت جو پلٹ کر ہمیں دیکھا اس نے
اک قیامت سی تھی گزری جو ہمارے دل پر
(ڈاکٹر عنبر عابد)
’’ارے اب کیا ملیں گے‘‘…
کہتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھ گئیں اور گاڑی روانہ ہوگئی…… اور اس لمحے میری زندگی کی سب سے قیمتی شئے مجھ سے جدا ہوگئی۔
وہاں امریکہ میں وہ خوش تھیں۔ سب کچھ ٹھیک تھا کہ ۲۳؍ مارچ کی دوپہر امّی گھر میں ہی ایک ناگہانی حادثہ کا شکار ہوگئیں۔ وہ مسہری سے گر پڑی تھیں، سر میں اندرونی چوٹ تھی…… اس کے بعد سرجری ! نتیجہ …… ایک ہفتہ لائف سپورٹ پر رہیں لیکن کوئی امپروومینٹ نہ ہوا۔ بالاآخر ۵؍ اپریل کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔
میری راہوں کے تمام روشن چراغ بجھ گئے۔ سبھی بھائی بہن اس اچانک حادثہ سے دہل کے رہ گئے۔ آج امّی کو گئے تین مہینے ہو چکے ہیں لیکن صبر ہے کہ نہیں آتا……!
آج بھی ان کا شفیق سراپا میری آنکھوں میں بسا ہوا ہے۔ وہ اکثر مجھ سے کہتی تھیں ’’میں نے جتنی دعائیں تمہارے لیے کی ہیں اتنی کسی کے لیے نہیں کیں۔‘‘ اور آج میں جو کچھ بھی ہوں انہیں کی دعائوں کا ثمر ہے۔ امّی کے زیر سایہ ہم بھائی بہن بچّے تھے لیکن ان کے چلے جانے سے اب ہم والدین ہوگئے ہیں۔
بھوپال کے ادبی حلقوں میں آج بھی ان کے تذکرے ہوتے ہیں۔ ان کی اچانک رحلت سے بھوپال کے ادب کو ایک بہت بڑا نقصان ہوا۔ آج بھی جب میں کسی ادبی محفل میں شرکت کرتی ہوں تو لوگ مجھ میں امّی کو تلاش کرتے ہیں اور میری مضطرب نگاہیں امّی کو ڈھونڈتی رہتی ہیں کیونکہ ہر محفل میں وہ میرے ہمراہ ہوتی تھیں۔
اب تک محترمہ کے پانچ شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ بساطِ دل، صدائے دل (شعری مجموعے)، جگنوئوں کے میلے (منظومات)، بس ایک نظر (ہندی)، آئینہ پسِ آئینہ (شعری مجموعہ)۔ مجھے ان کے شعر کہنے کے فن سے والہانہ لگائو ہے۔ خوبصورت الفاظ اور بہترین تراکیب ان کے کلام کی اہم خصوصیات تھیں۔ محترمہ کی شاعری وقت کا آئینہ ہے جس میں نسائی جذبات واردات قلب و جگر، محرومی، نارسائی جیسے موضوع اٹھائے گئے۔ لیکن اظہار خیال میں ایک خالص مشرقی حیا اور جھجک بھی وہ ملحوظ رکھتی ہیں۔ وہ کہیں بھی احتیاط اور اخلاقی قدروں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں۔ کبھی ماں بن کر کبھی بیٹی بن کر کبھی محبوبہ بن کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے فن میں ماہر تھیں۔
بھوپال کے ادبی حلقوں سے محترمہ کی شہرت کا آغاز ہوا اور گزشتہ دہائی میں انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔ رسالوں، اخباروں میں اکثر ان کا کلام پڑھا جاتا رہا۔ ٹی وی، ریڈیو کے پروگرامز میں بھی شرکت رہی۔ سنجیدہ اور ادبی مشاعروں میں انہیں نمایاں شہرت اور کامیابی ملی۔ شعر و ادب میں محترمہ کا نسائی لہجہ اپنی الگ پہچان رکھتا تھا۔ ناموافق حالات کو الفاظ کا پیکر عطا کرکے شعری رنگ میں ڈھالنے کا ہنر انہیں خوب آتا تھا۔ ان کا کلام صداقت کا بیان … جذبات کا ترجمان اور ناکام محبت کی داستان ہے۔
اپنے بچّوں کے لیے کہی گئی محترمہ کی نظمیں اور غزلوں میں وہ ایک قابل شاعرہ ہی نہیں بلکہ ممتا کی دیوی بھی نظر آتی ہیں۔
میرے بچّوں کی جوانی ہے جوانی میری
پھر نئی ہوگئی تصویر پرانی میری
تیرے لہجے میں ہے اندازِ تکلم میرا
تیری گفتار میں رنگین بیانی میری
تیری صورت میں کئی عکس عیاں ہیں میرے
بنا عنوان بدلتی ہے کہانی میری
بعد میرے بھی نظر آئے گا پیکر میرا
ڈھونڈ ہی لیں گے کوئی لوگ نشانی میری
اس نظم میں ایک شفیق اور مہربان ماں کا پیکر نمایاں ہے جو اپنے بعد بھی اپنے جذبات تشنہ چھوڑ جاتی ہے…… ان کی کئی نظمیں قابلِ ذکر ہیں جیسے چیختی تنہائیاں، بے فکری کے روشن دان، ماں، ممتا کا سایہ (گجرات کے زلزلے کا تذکرہ)، بیٹی، نیند، تنہائیوں کی محفل، عشق، عمر کا سوکھا ساون، جگنو جیسی امیدیں وغیرہ وغیرہ۔
گہوارہ ادب بھوپال کی سرزمین سے ابھرنے والی محترمہ کی شہرتوں اور مقبولیت نے نہ صرف اپنے شہر یا صوبے کا ہی نام بلندیوں تک پہنچایا بلکہ عالمی پیمانے پر شمار کی جانے والی شاعرات میں وہ اپنا ایک ممتاز مقام پانے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔
ان کی اچانک اور بے وقت رحلت سے بھوپال کے اردو حلقوں میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ ہر شخص کی زبان پر ان کے انداز گفتگو، اخلاص و محبت کی داستانیں ہیں۔ میں جس سے ملتی ہوں تو لگتا ہے وہ انہیں کے زیادہ قریب تھیں۔
’’ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانہ ترا‘‘
نماز ، روزہ عبادات، بچّوں کی پرورش، حسن سلوک، محنت، ہمت و حوصلہ اور سلیقہ ایسی کون سی صفات تھی جو ان میں نہیں تھیں۔ اپنے آپ میں خود اپنی مثال آپ تھیں وہ۔بروقت وہ ایک ممتاز شاعرہ اور اپنے عہد کی ممتاز شخصیت رہیں لیکن ان سب سے زیادہ وہ ایک نیک دل اور بیحد مخلص خاتون اور دنیا کی سب سے اچّھی ماں تھیں۔
امّی کے لیے دعائے مغفرت کے ساتھ میں ان پر کہے اس شعر کے ساتھ اپنی بات کا اختتام کرتی ہوں کہ یہ تو وہ موضوع ہے کہ میں کتنا بھی لکھ دوں’’ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔‘‘
اے مری ماں مری جنت مری تسکینِ حیات
تھی دعائوں میں تری سارے مسائل سے نجات
٭٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here