ملک فرقہ پرستی کے وائرس کا مقابلہ نہیں کرسکتا

0
151

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

محمد اویس سنبھلی

مشکل کی اس گھڑی میں میں آج کی اپنی تحریر کا آغاز ایک مثبت نوٹ پرکرنا چاہوں گا۔ اترپردیش کے ضلع بریلی کی تمنا علی حاملہ تھیں۔ بچے کی پیدائش کا وقت عنقریب تھا لیکن ان کے شوہرمکمل لاک ڈائون کی وجہ سے نوئیڈا میں پھنسے ہوئے تھے۔چاہ کر بھی اپنی اہلیہ کے پاس پہنچنے کا کوئی راستہ انھیں نظر نہیں آرہا تھا۔اور بریلی میں ان کے گھر پر کوئی ایسا نہیں تھا جو تمنا علی کو اسپتال لے جاسکے۔ایک ہندی اخبار کے نمائندہ اویناش کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو اس نے بریلی کے ایس ایس پی سے اس کے بارے میں بات کی۔بریلی ایس ایس پی نے نوئیڈا پولیس کمشنر سے بات کی اور اس جوڑے کی مدد کرنے کو کہا ۔ ایڈیشنل پولیس کمشنر رنویجے سنگھ نے تمناعلی کے شوہر کے لیے ایک گاڑی کا بندوبست کیا۔ نوئیڈا پولیس نے بھی یقینی بنایا کہ بریلی جاتے ہوئے گاڑی کو راستے میں کہیں بھی روکا نہیں جائے گا۔انیس خاں اپنی اہلیہ کے پاس پہنچ گیا اور کچھ دیر بعد ہی اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔اس جوڑے نے پولیس افسران کا شکریہ ادا کیا۔
دنیا بھر میں لوگ کورونا وائرس سے لڑرہے ہیں۔ ڈاکٹرز،نرسیں، پولیس والے سبھی اس عالمی وباسے دفاع کے لیے فرنٹ لائن پر کھڑے ہیں۔ٹیچرس ، سماجی کارکن لوگوں میں آگاہی بڑھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں گجرات کے شہر سورت میں ایک مسلمان شخص بہت سے ہندو خاندانوں کے لیے سہارا بن رہا ہے۔ اب تک گجرات میں کورونا سے چار افراد کی موت ہوچکی ہے اور ان سب کے آخری رسومات کی ادائیگی عبدال بھائی مالاباری نے کی ہے۔وہ یہ کام بلاتفریق مذہب کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے ہر شخص کے لیے کرتے ہیں اور وہ یہ کام ایک ایسے وقت میں کررہے ہیںجب ہلاک ہونے والوں کے اپنے رشتے داربھی اس وائرس کے خوف سے لاش کے قریب نہیں جاسکتے۔گذشتہ ۳۰؍ برس سے عبدال بھائی سڑک پر ملنے والی لاوارث لاشیں مانگنے والوں یا خودکشی کرنے والوں کی لاشوں کے آخری رسومات کی ادائیگی کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ تقریباً ۳۵؍رضا کار بھی کام کرتے ہیں۔حال ہی میں انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’جب کورونا وائرس کے متاثرین بڑھنے لگے تو سورت میونسپل کارپوریشن نے ہمارے ماضی کے تجربے کے پیش نظر ہم سے رابطہ کیا ۔ انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں لاکھوں اموات ہورہی ہیں اور ایسا امکان ہے کہ سورت میں بھی ہلاکتیں ہوں تاہم ایسے مریضوں کی لاشیں ان کے رشتے داروں کو نہیں دی جاسکتی ۔ کارپوریش کے ذمہ داران نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم ایسے لوگوں کی آخری رسومات کرنے کو تیار ہیں تو میں نے فوراً حامی بھرلی۔ہم نے اپنی ٹیم کے ۲۰؍ رضاکاروں کے نام فراہم کیے جو کہ یہ سروس دن کے مختلف اوقات میں کرسکتے ہیں۔ ہمیںسکاری حکام یا اسپتال کسی وقت بھی بلا سکتے ہیں۔ جیسے ہی ہمیں کال آتی ہے ، ہم کٹ اُٹھاتے ہیں اور چل پڑتے ہیں۔‘‘رنویجے سنگھ اور عبدال بھائی جیسے لوگوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور فرض شناسی کے ساتھ ہندوستانی روایت کو آگے بڑھایاہے لیکن افسوس! یہ دونوں خبریں کسی بھی نیوز چینل پر نشر نہیں کی گئیں۔
قوموں پر جب کوئی مشکل وقت آتا ہے تو پیش آمدہ حالات کی سنگینی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر طبقے ، ہر مکتبہ فکر کے لوگ اپنے ذاتی و گروہی اختلافات اور رنجشیں بھلا کر اکٹھے ہوجاتے ہیں اور اجتماعی سوچ کے ذریعہ جامع حکمتِ عملی اختیار کرکے مل جل کر بحران سے نکلنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ہمارا ملک اس وقت دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح کورونا وائرس کی ہلاکت خیز وبا کا سامنا کررہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے اتحاد و یک جہتی کی اشد ضرورت ہے مگر اس نازک موقع پر بھی عوام کی سیاسی قیادت کرنے والی پارٹیوں میں فکر و عمل کی یکسانیت نظر نہیں آتی۔ جس کا اثر انتظامیہ پر سب سے زیادہ پڑھتا ہے۔اور اسی کے نتیجے میںیہ ہوا کہ ضلع مرادآباد کے محلہ پیرزادہ میں کنٹرول پر راشن لینے گئے ایک شخص کو پولیس نے بے رحمی سے پیٹا، پولیس کی اس بربریت کا شکار محمد سبحان اور اس کی نوعمر بیٹی بھی ہوئی۔ دونوں پولیس کی مار سے بری طرح زخمی ہوگئے۔یہ دونوں کنڑول ریٹ کی دکان پر راشن لینے کے لیے لائن میں لگے تھے، محکمہ سپلائی کے افسر نے صرف پچاس لوگوں کو ٹوکن دے کر راشن باٹنے کے لئے کہا تھا شاید اس میں ایک وجہ سماجی دوری بھی ہو۔ محمد سبحان کو ٹوکن نہیں ملا جس پر اس نے اپنا احتجاج درج کرایا۔ بس اتنا کہنا تھا کہ پولیس نے اپنا آپا کھو دیا۔اس وقت پورے ملک میں زیادہ تر پولیس کے جوان عوام کی خدمت میں دن رات لگے ہوئے ہیںمگر ان میں چند ایسے پولیس اہلکار بھی ہیں جو انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر غریبوں پر تشدد کرہے ہیں۔ان کی وجہ سے سبھی پولیس والوں کی محنت رائگاںہورہی ہے۔انتظامیہ کو اس ذہنیت سے بھی لڑنے کی ضرورت ہے۔مرادآباد کے اس واقعہ کوبھی میڈیا نے دبا دیا اور ایک دوسرا واقعہ جس میں ان کی ذہنیت کے موافق مواد تھا اسے زور شور سے نشر کیاگیا۔
حال ہی میں ممبئی میں مزدور مراٹھی ٹیلی ویژن پر ۱۴؍اپریل کو ٹرین چلائے جانے کی خبر دیکھ کر اسٹیشن کے لیے دوڑ پڑے اور اس کے بعد جھونٹی خبریں نشر کرنے والے ادارے اور بعض دیگر فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی خبریں چلانے کے عادی میڈیا ہائوس کی جانب سے جو سرخیاں دوڑائی گئیں ان میں کہا گیا کہ ممبئی باندرہ مسجد کے باہر ہجوم جمع ہوچکا ہے ۔آپ ذرا غور کیجئے کہ ایک چینل نے ٹرین نے چلنے کی خبر چلائی تو دوسرے نے اسے مسجد کے سامنے جمع ہجوم سے جوڑ دیا۔ اس بھیڑ میں سے اکثریت کا تعلق مسجد سے نہیں تھا بلکہ وہ اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے اسٹیشن کے سامنے جمع تھے۔اس طرح کی خبروںکے ذریعہ الیکڑانک میڈیا شہریوں میں منافرت کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیںاور اس کے لیے افواہوں کا سہارا لیا جارہا ہے۔یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جارہا ہے اور اس کا اثر بھی آپ کو خوب دیکھنے کو مل رہا ہوگا۔ سبزی فروش اگر کسی ہندو علاقے میں جاتا ہے تو اس سے آدھار کارڈ مانگا جارہا ہے۔ اگر وہ مسلمان ہے تو یا تو اسے پیٹا جاتاہے یا وہاں سے بھگا دیا جاتا ہے۔ہندوکالونیوں میں بورڈ لگا دیئے گئے ہیں کہ مسلمانوں کا داخلہ یہاں ممنوع ہے۔پولیس بربریت پر آمادہ اورمرکزی و ریاستی حکومتیں خاموش ہیں۔
کورونا کی وبا کب ختم ہوگی اس کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔کورونا وائرس سے انسانی جانیں تو ضائع ہورہی ہیں ، معیشت بھی تباہی سے دوچار ہے۔ غربت میں اضافہ ہورہا ہے، مزدور طبقہ کو فاقہ کشی کا سامنا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت، ریاستی حکومتیںنیز دیگر ادارے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے مل جل کرکام کریںاور غریب عوام کی کفالت کے لیے نظم و نسق کو بہتر بناکر انھیں امن و خوشحالی فراہم کرنے کی کوشش کریں۔
پوری دنیا اس وقت کورونا سے لڑ رہی ہے اور اس وبا کے خاتمے کے بعد کی دنیا کو پھر سے کیسے پٹری پر لایا جائے اس کے لیے فکر مند ہے لیکن ہمارے ملک میں کورونا کی آڑ میں آج بھی آر ایس ایس اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں سرگرم عمل ہے۔وزیر اعظم کی گفتگو میں بھی اس طرح کے واقعات کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔گجرات میںہندو اور مسلمان کورونا کے مریضوں کے وارڈ بھی الگ کردیے گئے ہیں۔ملک اس وقت فرقہ پرستی کے وائرس کا مقابلہ نہیں کررہا ہے بلکہ اس وقت انسانی بنیاد پر وائرس کا مقابلہ کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ وقت اتحاد و اتفاق کا ہے۔ انسانیت کے فروغ کے لیے کام کرنے کا ہے نہ کہ ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے کا۔
رابطہ : 9794593055

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here