9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ایچ ۔ایم۔یٰسین
بچو! ڈیزل اور الیکٹرک انجن کی ایجاد سے پہلے ریل گاڑی میں اسٹیم انجن استعمال ہوتے تھے اور یہ بھاپ سے چلنے والے انجن جن کو جیورج اسٹیفینسن (George Stephenson) نے بھاپ کی طاقت دیکھ کر ہی ایجاد کیا تھا۔ اپنے ابتدائی زمانے سے اسی بھاپ یا اسٹیم سے چلتے تھے اور ان کو عام طور پر ’’لوکوموٹو‘‘ (Locomotive) کہا جاتا ہے۔ لیکن ڈیزل اور الکٹرک انجن کے آنے سے یہ انجن ناپید ہو گئے ہیں اور شاید کہیں ایک آدھ جگہ ہی اب ان سے کام لیا جاتا ہے۔
پہلے زمانے میں ریل کے انجن میں اسٹیم بنانے کے لیے کچے کوئلے جسے عام آدمی پتھر کا کوئلہ کہتا تھا، استعمال ہوتا تھا۔ یہ ریل کا اسٹیم انجن دو حصوں میں بٹا ہوتا تھا۔ آگے والے بڑے حصے میں ساری مشینں، اسٹارٹر، بریک، فائربکس، اسٹیم انجکٹر، پانی، ڈرائیور اور فائرمین کی سیٹ اور پچھلے حصے میں جسے ’’ٹینڈر (Tender) کہتے تھے، کوئلے اور پانی سے بھرا رہتا تھا۔فائر مین ٹرین کے چلتے ہوئے ہی اپنے بیلچے سے فائربکس میں کوئلہ جھونکتا رہتا تھا جس سے انجن میں اسٹیم بنتی رہتی اور انجن کو چلاتی رہتی تھی۔ انجن سے جلا ہوا کوئلہ نکالنے اور نئے کچے کوئلہ کوجھونکنے کے لیے جگہ بنانے کے واسطے بڑے بڑے اسٹیشنوں یا جنکشنوں پر ٹرین انجن کے رکنے کی جگہ دو پیڑیوں کے درمیان گہراشیڈ(لمبا گڑھا) بنا ہوتا تھا جس میں فائرمین جلے کوئلے جسے ‘‘سنڈر‘‘ (Cinder) کہتے ہیں گرا دیتا اور وہیں پر بنے ہوئے پانی سے بھرے ’’واٹر کولم ‘‘سے انجن میں خرچ ہوئے پانی کی جگہ پانی بھرلیتے اور اسی کوئلے اور پانی کے تال میل سے اسٹیم بنتی اور انجن کو چلاتی تھی۔
شیڈ میں گرائے سنڈر میں جلا ہوا کوئلہ اور راکھ دونوں ہوتے تھے اور اس میں سے سنڈر کو راکھ سے الگ کر لیا جاتا او یہ سنڈر دو بارہ جلانے کے لیے گھروں میں استعمال ہوتا خاص طور پر ریلوے کرمچاریوں کے گھروں میں۔راکھ جسکو ’’ایش‘‘ (Ash) کہتے ہیں غریب لوگ جو سمنٹ خرید کر مکان نہیں بنا سکتے تھے اس ایش اور چونے و سرخی کو ملا کر اپنے مکان بنانے کے لیے استعمال کر لیتے تھے اور اس طرح جلا کو ئلہ (سنڈر) اور راکھ(ایش) دونوں فروخت ہو کر استعمال میں آجاتے تھے۔
ریلوے اسٹاف اور افسران سب عام طور پر کھانا بنانے کے لیے کوئلہ کی انگیٹھی (CinderStove) استعمال کرتے تھے جو ان کو آسانی سے اور سستا ملتا تھا۔ گیس اس زمانے میں غیر مستعمل تھی اور لکڑی جلانے والے مٹی کے چولہے برادہ کی انگیٹھی یا کنڈے (اُپلے) کا استعمال مہنگا اور قدر دقت طلب تھا۔
تارا بابو ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر تھے اور دہرہ دون اسٹیشن پر تعینات تھے۔ انکا سرکاری بنگلہ کافی بڑا تھا جس میں پھول پودے اور پھل دار درخت خوب لگے تھے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے اسٹیشن پرموجود قلی اور کلاس فور(چوتھے درجے کے) ملازمین کام کرتے تھے۔
تارا بابو کا خاص اردلی (چپراسی) گھر کے سب کام کاج کے علاوہ صبح ہی کوئلے کی انگیٹھی تیار کر دیتا جس پر صبح کی چائے ناشتہ کھانا سب تیار کر لیا جاتا ۔
اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اس لیے تارا بابو کی دھرم پتنی شریمتی تنوجہ اور ان کی بیٹی ہنی کے ہمراہ امرتسر اپنے میکے گئی ہوئی تھیں۔ چھٹیاں ختم ہونے کو تھیں، اس لیے انہوں نے دہرہ دون واپسی کا پروگرام بنا لیا تھا۔ ہنی بہت خوش تھی کہ پھر ریل کے سفر کا مزہ کے علاوہ جلداپنے پاپا سے بھی مل سکے گی۔
سفر کا دن آگیا اور تنوجہ وہنی وقت رہتے اسٹیشن پہنچ گئے۔ ان کے پاس ریلوے کا فرسٹ کلاس کا پاس تھا۔ ٹرین کے آنے پر دونوں نے فرسٹ کی ایک طرف کی سیٹ سنبھال لی۔ دوسری طرف پہلے سے ایک جنٹلمین جو پروفیسر جیسا لگ رہا تھا اسکے چاروں طرف کاپی کتابیں بکھری تھیں اور وہ کچھ لکھنے میں مصروف تھا وہ ان کی آمدسے قطعی ڈسٹرب نہیں ہوا اور اپنا کام کرتا رہا۔ ٹرین چلتی رہی اور لنچ کا وقت ہو گیا تھااس لیے ڈائننگ کارکا ملازم ’’لنچ لنچ‘‘ پکارتا ان کے کمپارٹمنٹ میں بھی داخل ہوا اور اسے لنچ کے آرڈر دے دئے گئے۔ لنچ ختم کر کے پروفیسر اور تنوجہ و ہنی اپنی غنودگی کو نیند میں تبدیل کر چکے تھے۔ تیسرے پہر کسی اسٹیشن پر چائے چائے کا شور سن کر جب یہ لوگ جاگے تو ڈبہ میں انہوں نے ایک اور جوڑے کو پایا جو آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔
ہنی نے اپنے بیگ سے گڑیا ں نکال کر ان سے کھیلنا شروع کر دیا اور تنوجہ جی پھر کھڑکی سے تیزی سے بھاگتے ٹیلیفون اور بجلی کے کھمبوں اور باہر کے سبزہ زار سین کا لطف لینے میں مصروف ہو گئیں۔ ہنی جب تھک گئی تو اس نے اپنے بیگ سے ایک کتاب نکالی اور اس کو پڑھنا شروع کرنے والی تھی کہ اس کی نگاہ پروفیسر کے بیگ کی طرف گئی جہاں اسے بچوں کی کہانیوں کی کتاب باہر جھانکتی نظر آئی۔ غور سے دیکھنے پر وہ چونک گئی کیونکہ کتاب کے ٹائٹل پر ’’جن اور پریوں کی کہانیاں‘‘ تحریر تھا جو اس کی کتاب تھی۔ پروفیسر اپنے کام میں مصروف تھا اور نیا جوڑا اس کی اس قدر مصروفیت پر حیران اور پر تجسس ۔ ہنی نے سوچا پروفیسر نے جب ہم سو گئے تھے تو میرے بیگ سے میری کتاب نکال لی ہوگی اور اپنے بیگ میں رکھ لی۔ چونکہ یہ نیا جوڑا بھی اس وقت ڈبہ میں نہیں تھا۔ اسی وقت پروفیسر واش روم کی طرف گیا تو ہنی نے ماں سے کہا امی دیکھئے یہ کتاب جن اور پریوں کی کہانیاں میری ہی کتاب ہے۔تنوجہ جی بھی حیران تھیں کہ یہ کیا معاملہ ہے۔نئے جوڑے نے بھی یہ سن کر اپنا تجربہ بیان کرنا شروع کر دیاکہ ہاں اکثر چوری کی عادت بچپن سے ہی پیدا ہوتی ہے جو غریب امیر سب کو جکڑ سکتی ہے اور پھر ایسے لوگ بڑے مال یا بگ شاپ میں چوری کرتے پکڑے گئے ہیں لگتا ہے کہ یہ پروفیسر صاحب بھی اسی عادت کے شکار ہیں۔ جو بچے کی کتاب چرا لی وگرنہ بھلا بچوں کی کہانیوں سے ایسے بڑے پروفیسر کو کیا سروکار۔
پروفیسر صاحب واش روم سے آکر ابھی ٹھیک سے بیٹھے بھی نہ تھے کہ ہنی نے فوراً ان سے کہا ’’انکل یہ آپ کے بیگ میں سے جو کتاب جھانک رہی ہے یہ تو میری ہے ۔ لیکن آپ کے بیگ میں کیسے؟‘‘(جاری)
پروفیسر بولا ’’کون سی کتاب‘‘؟ ’’وہ جن اور پریوں کی کہانی والی کتاب۔ وہ میری ہے۔آپ نے میرے بیگ سے نکال لی ہے۔‘‘یہ سن کر پروفیسر دھیمے لہجے میں بولے ’’ نہیں بیٹا میں آپ کے بیگ سے کتاب کیوں نکالوں گا۔ ہنی نے کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا دیکھئے اس پر وہ نام بھی لکھا ہے پروفیسر بیگ یہی تو میری کتاب ہے۔ پروفیسر بیگ کی لکھی۔ جن اور پریوں کی کہانی والی کتاب۔ یہ بچوں کے لیے ہے۔ آپ جیسے پروفیسر کے لیے نہیں۔ ‘‘ پروفیسر پر گو چوری کا الزام لگا تھا لیکن اسے بڑا مزا آرہا تھا وہ بولا ’’اگر یہ تمہاری ہے تو تم لے لو لیکن میں نے اسے چرایا نہیں،آپ مجھے چور نہ سمجھیں‘‘ ’’ اچھا تو لائے میری کتاب مجھے دیجئے۔‘‘ ہنی بولی۔ پروفیسر نے کہا ’’ ٹھیک ہے یہ آپ کی ہے تو یہ لے لیجئے لیکن ہم آپ کو ایک نہیں دو کتابیں دیں گے اور آپ ہم کو چور نہیں سمجھیں گیں ۔‘‘ پروفیسر نے اپنے بیگ سے دو کتابیں نکالیں اور ہنی کو تھما دیں۔ یہ دیکھ کر ہنی میں تو کاٹو تو خون نہیں اور وہ نیا جوڑا بھی اپنی جگہ شرمساری محسوس کرنے لگا۔
ہنی نے کتابیں لے کر جب اپنے بیگ میں رکھنا چاہا تو اس کو وہاں اپنی وہ کتاب بھی موجود ملی، بس اب تو ہنی کا شرم کے مارے برا حال تھا۔ یہ سوچ کر کہ اس نے بلا وجہ پروفیسر کو چور سمجھ لیا وہ نہایت پشیمان تھی کہ ذرا سی غلط فہمی سے اتنی بڑی غلطی سرزد ہو گئی۔
دہرہ دون کا اسٹیشن آ چکا تھا۔ تارا بابا اپنی بیٹی اور پتنی کو لینے کے لیے پہلے ہی سے اسٹیشن پر موجود تھے۔ ٹرین رکی اور پروفیسر صاحب اپنے سامان کے ساتھ پہلے ہی گیٹ پر اُترنے کے لیے پہنچ گئے۔ ڈبہ سے اُترے تو سامنے تارا بابو سے ان کی نگاہیں ٹکرائیں بیگ صاحب کو دیکھ کر تارا بابا بولے ’’ارے پروفیسر بیگ آپ‘‘ ’’جی لیکن آپ کیسے‘‘ انہوں نے بتلایا کہ آج میری پتنی اور بیٹی اس ٹرین سے آ رہی ہیں ان کو لینے آیا ہوں۔ تب ہی انہوں نے اپنی بیٹی اور پتنی کو دیکھا۔ ہنی اور تنوجہ نے یہ باتیں سن لیں تھیں۔ تارا بابو نے بیگ صاحب سے ان کا تعارف کرایا ــ’’ان سے ملو یہ ہیں ہمارے دوست پروفیسر بیگ بچوں کے کہانیوں کے مشہور لیکھک اور بیگ صاحب یہ ہیں ہماری بیٹی ہنی اور پتنی جی‘‘ بیگ صاحب بولے ’’جی! لیکن تارا بابو ہنی نے تو ہم کو چور ہی بنا دیااور سارا واقعہ بیان کر کے جب ہنی کی طرف نگاہ اُٹھائی تو دیکھا اس کی آنکھوں میں تو موٹے موٹے آنسو جھلملا رہے تھے۔ نیا جوڑا بھی یہ سب سن رہا تھا۔ تب ہی تارا بابو نے بتلایا کہ وہ’’ جن اور پریوں کی کتاب‘‘ بیگ صاحب نے ہی ہم کو ہنی کے لیے دی تھی پچھلی ملاقات پر ۔پروفیسر صاحب وہ دو کتابیں ہنی کو نئے جوڑے کے سامنے ہی دے چکے تھے ان کی سمجھ میں بھی سارا معاملہ آ گیا اور وہ خود بھی بیگ صاحب پر لگائے اپنے بے جا الزام پر بہت شرمندہ ہوئے۔
ٔٔٔٔ٭٭٭