لاک ڈاؤن

0
111

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

ڈاکٹر نشازیدی

آج لاک ڈاؤن کا سولہواںدن تھا ۔اماںکی دوائیں ختم ہوگئی تھیں۔راشن کا سامان بھی تھوڑاہی رہ گیا تھا۔منے کا دودھ بھی بس ایک ہی بار کا تھا۔روزی چیز کےلئے پریشان کر رہی تھی ۔ادھرجاوید کا موڈ گھرمیںپڑے پڑے خراب ہو رہاتھا۔شاہدہ بہت فکر مندتھی ،ہر چیز کی اس کو فکر لگی ہوئی تھی ،کس طرح انتظام کرے بار بار اس کی آنکھیںنم ہورہی تھیں۔
صاف ستھری کالونی میںتیسری منزل پر دوکمروںکے فلیٹ میںزندگی اچھی طرح گزررہی تھی۔آس پاس کے فلیٹوںمیںبھی ان ہی کی طرح بہت سے لوگ رہتے تھے ۔جاویدکی فیملی پانچ افرادپرمشتمل تھی ۔جاویدکی والدہ بانو،بیوی شاہدہ اور دوچھوٹے بچے روزی اورمنا۔ شاہدہ بہت سلیقہ مند تھی۔اچھی طرح گرہستی چل رہی تھی ۔جاویدکی کمائی بھی معقول تھی۔اس کا بیڈ شیٹ کا کام اچھا چل رہا تھا، وہ صبح سے چار بجے تک الگ الگ علاقوںمیںپھیری لگاتا تھا اور شام چار بجے سے ہفتہ واربازار میںپھڑ لگاتا تھا۔یہ ہفتہ وار بازار بھی الگ الگ علاقوںمیں لگتے تھے ۔جیسے بدھ بازار،جمعرات بازار،جمعہ بازارجمعہ کے دن وہ پھیری نہیںلگاتا تھا۔صبح سے گھر پر رہتا تھا اور نماز کے بعد جمعہ بازار میںپھڑ لگا لیتا تھا۔ ۔صبح کا گیاہوا جب وہ گھرمیںداخل ہوتا، تو اس کے پاس پیسوںکے ساتھ بچوںکی چیز بھی ہوتی اورماںکے لئے تھوڑے بہت پھل بھی اورتھوڑی بہت ویسے کھانے کی چیز بھی ۔شاہدہ کوسموسے بہت پسند تھے تواکثر سموسے بھی لے کر آتا تھا۔اس طرح دن اچھی طرح گزر رہے تھے ۔شاہدہ اماںکابھی خوب خیال رکھتی تھی ۔
شاہدہ بالکونی میںکھڑی باہرکا نظارہ دیکھ رہی تھی ،سڑک سنسان تھی ۔پارک ویران تھا دوردورتک کوئی نظرنہیںآرہا تھا۔کچھ پیڑننگے کھڑے تھے ،کچھ پیڑوںپرکونپلیںآرہی تھیں،ہری اورلال کونپلیںآنکھوںکوبھلی لگ رہی تھیں۔شہتوت کے پیڑپرشہتوت لٹک رہے تھے۔جامنی اور ہرے شہتوت بڑے خوبصورت لگ رہے تھے۔پارک کے برابروالی سڑک پرکتے بے سدھ پڑے تھے، کچھ کتے لیٹے تھے اورکچھ کتے منہ پھیلائے گھوم رہے تھے۔ کتوںکے جسم پر صرف ہڈیاںہی ہڈیاں تھیں لگ رہا تھا جیسے برسوںسے انہیںکچھ کھانے کونہ ملا ہو۔دور بہت دور سے ایک سبزی والے کی آواز آئی ۔شاہدہ ادھر دیکھنے لگی ۔جب تھوڑا قریب آیا لوگ اپنی اپنی بالکنی سے باسکٹ بیگ لٹکا کر سبزی لینے لگے ۔’’صاحب یہ کیسی بیماری ہے کوروناہم نے تواپنی جندگی میںپہلی بار سنی ۔‘‘سبزی والا دور کھڑے آدمی سے کہنے لگا۔
’’ہاںبھائی۔‘‘اس آدمی نے لمبی اور گہری سانس لی۔جیسے سبزی والے نے اس کے دل کی بات کہہ دی ہو۔
’’جلدی جایہاںسے نہ سینیٹائزر نہ گلبز بیماری پھیلا رہاہے۔‘‘دورسے آتے ہوئے پولیس والے نے ڈنڈا لہرایا۔
’’جی صاحب جاتا ہوںجاتاہوں۔‘‘اس نے ہاتھ جوڑے۔
شاہدہ نے بھی باسکیٹ لٹکا کر بیگن لے لئے تھے۔
’’امی امی آج کیا بنائیںگی۔‘‘روزی نے باسکیٹ میںجھانکتے ہوئے پوچھا۔
’’بیگن لئے ہیں۔‘‘شاہدہ نے کچن کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
’’کیاامی روز روز یہ بے کار سی سبزی۔‘‘روزی نے منہ بنایا۔
’’روزی شکر کرو۔کل کیا معلوم یہ بھی ملے نہ ملے۔‘‘اس نے آہستہ سے کہا۔
اسے اماںکی فکر ہورہی تھی اور گھرکے راشن کی بہت فکر تھی ۔کس سے کہے سب تو ان کی طرح ہی تھے روز کمانے اورکھانے والے ۔سوچ سوچ کر اس کا سر پھٹا جا رہاتھا۔
’’کیا ہوا ؟‘‘جاویدنے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
جاوید آس پاس کے سب لوگ راشن لے رہے ہیں۔اس میںکیا حرج ہے۔اس نے بے بسی سے کہا۔
’’دیکھوشاہدہ میںنے آج تک کسی سے کچھ نہیںلیا۔‘’یہ امیر لوگ امدادکم کرتے ہیںاور دکھاوازیادہ…‘‘
’’لیکن جاوید…ہم تو کسی طرح رہ لیںگے …بچے اور اماںکیاکریں…‘‘وہ کشمکش میںتھی۔
’’بس کروشاہدہ اگر آج لے لیا تو کل دیکھ لینافیس بک ، واٹس ایپ اوراخبار…غریب کی عزت کی تودھجیاںاڑا کر رکھ دیتے ہیںیہ لوگ۔‘‘
’’ارے روزی…‘‘روزی باہر کھڑی یہ سب باتیںسن رہی تھی ۔شاہدہ نے اسے سینے سے لگا لیا۔اور فیصلہ کن انداز میںکچن میںآگئی۔
چائے بنائی اورجوتھوڑے بہت بسکٹ تھے وہ لے گئی۔سب کی نظریںسوالیہ تھیں۔ایسا گھرکا ماحول کبھی نہیںہوا تھا۔
’’شاہدہ تھوڑی دیر کے لئے ٹی وی کھول لو۔‘‘بانونے کہا۔
’’کیا اماں؟ٹی وی پر بھی وہی خبریںکورونا سے اتنی موتیں۔اتنے بے گھر…‘‘جاوید نے گہری سانس لی۔
شاہدہ نے آہستہ سے ٹی وی کا بٹن کھولا اور بالکنی میںپہنچ گئی۔آج بھی وہی حال تھا دور دور تک کوئی نہیںتھا ۔اکا دکا کوئی آدمی نظر آجاتا،جس کے ہاتھ میںکچھ نہ کچھ ضروری سامان ہوتا۔اور وہی بے بسی کی باتیں۔
’’امی امی دیکھووہی لوگ۔‘‘روزی نے اشارے سے کہا۔شاہدہ نے دیکھا کچھ لوگ تھے جوپیکٹ بنا کر گھروںمیںبانٹ رہے تھے۔
شاہدہ دھیمے دھیمے قدموںسے نیچے آگئی ۔اتنے دھیمے قدم کہ کسی کو خبرنہ ہو۔اس نے روزی کودیکھاوہ بنا کہے ہی پیچھے چلی گئی تھی۔
شاہدہ نیچے جاکر کھڑی ہو گئی سات آٹھ لوگوںکی ٹیم تھی ،ان میںسے کچھ لوگوںنے دیکھ لیا تھا اور شاہدہ کی طرف آرہے تھے۔شاہدہ کے پیر کانپ رہے تھے۔چہرے پرہوائیاںاڑرہی تھیں،اس نے اپنے چہرے کوبڑے سے دپٹے سے ڈھنک لیا تھا۔ایک نوجوان لڑکا آیا اس نے چند سوال کئے۔اور کہا تھوڑی دیر رک جائیے ہمارے ساتھی آجائیں۔ٹیم کے سب لو گ آگئے اس نے بڑے سے بیگ سے ایک پیکٹ نکالااور شاہدہ کودینے لگا۔تبھی ان کا ایک ساتھی موبائل سے ان کا فوٹوکھینچنے لگا۔
’’رکورکوانکل فوٹومت کھینچواس سامان کے بدلے یہ پیسے لے لو۔‘‘
شاہدہ نے مڑکردیکھا۔روزی کے ہاتھ میںٹوٹی ہوئی گلک تھی۔‘‘

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here