“قلم گوید” کا شاعر…. یعقوب یاور

0
505

 

زبیر احمد قادری 

یعقوب یاور کا تعلق قصبہ کوٹ، ضلع فتح پور سے ہے.. مختلف شہروں سے ہجرت کرکے بنارس کی سرزمین پر جا بسے… ملک کی مشہور یونیورسٹی “بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پروفیسر رہے.. کچھ سالوں تک صدر شعبہ کے منصب پر فائز رہے اور حال ہی میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے… پروفیسر یعقوب یاور اردو ادب کا ایک مشہور اور معروف نام ہے. موصوف کو بیک وقت میں کئی صنف و زبان پر عبور حاصل ہے.. نثر و غزل.،نظم و نثری نظم غرض کہ مختلف اصناف میں انھوں نے طبع آزمائی کی ہے.. اردو و ہندی کے علاوہ فارسی اور جرمن زبانوں میں اچھی واقفیت ہے….
یاور صاحب کا پہلا شعری مجموعہ “الف” 1988میں شایع ہوا.. زیر نظر دوسرا شعری مجموعہ “قلم گوید” 2000 ء میں شایع ہوکر اپنی کامیابی کی منزل طے کرچکا ہے.. ایک بہترین ناول نگار کی حیثیت سے تین ناول”دل من” 1998، عزازیل 2001ء و “جہاد” 2009 میں منظر عام پر آکر اردو ادب کا بڑا حصہ ثابت ہوا… مضامین کا مجموعہ “امروز” 1990 میں شایع ہوکر داد و تحسین حاصل کر چکا ہے…موصوف نے کئی ناول کا ترجمہ بھی اردو میں کیا ہے جو قابل ستائش عمل ہے…

یاور صاحب کی شاعری میں ابتداء سے اب تک ان کے ہاں ایک خاص رنگ دیکھنے کو ملا جو ہر تخلیق میں نمایاں رہا ہے… یہ رنگ ان حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری سے عبارت ہے… وہ جیسا محسوس کرتے ہیں ویسا ہی اپنی شاعری میں پیش کردیتے ہیں… ان کی شاعری میں انسانی معاشرت کی تصویر کشی ملتی ہے.. انسانی رشتوں کی حکایت بھی ہیں اور حالات کی شکایتیں بھی…
یاور صاحب اپنی شاعری میں ایک عملی انسان نظر آتے ہیں اور ان کے ہاں کوئی شے عبث نہیں، کوئی بات محض برائے بات نہیں بلکہ ہر خیال کا ایک عملہ توجیہ ہے… چند اشعار دیکھیں…..
مسئلوں کی بھیڑ میں انسانوں کو تنہا کر دیا
ارتقا نے زندگی کا زخم گہرا کر دیا
رجیلتوں کا خون کھولنے لگا زمین پر
تو عہد ارتقا خلا کے پار لے کے چل دئیے
ہماری دسترس میں اب جہانگیری نہ چنگیزی
مگر تاریخ عدل و ظلم نے جو قہر توڑا ہے
زمین شعر حد خسروی قائم نہیں رکھتی
اشارے پر چلی آتی ہے جوئے شیر بلا کھا کر
سخن کو بے حسی کی قید سے باہر نکالوں
تمہاری دید کا کوئی نیا منظر نکالوں
موصوف کی شاعری کے حوالہ سے پروفیسر مظفر حنفی لکھتے ہیں کہ…
“یعقوب یاور کی شاعری بیک وقت روایت سے انحراف بھی کرتی ہے اور اسکی پاسدار بھی ہے.. یہ دوسرے سرکش گھوڑوں پر ایک ساتھ سواری کرنے جیسا خطرناک عمل ہے لیکن جب فن کا ایسے خطروں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ بر آہوتا نظر آئے تو نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں کی نگاہیں اسی پر مرکوز ہوجاتی ہیں دوست تو خیر دوست ہوتے ہیں باضمیر دشمن بھی اسے داد سے نوازنےپر مجبور ہوتا ہے… (قلم گوید.. فلیپ)
شاعر کی ایک خوبصورت غزل خاموشی کے مترادف “چپ” کی ردیف میں ملاحظہ کریں…
لرزاں ترساں منظر چپ
آرمیدہ گھر گھر چپ
دشمن ایماں پیش نظر
اندر ہلچل باہر چپ
یہ کیسی ہے راہ بری
راہی چپ تو رہبر چپ
رات میں کیا کیا عیش ہو
تنہا میں تھا بستر چپ
ہلکی پھلکی ایک غزل
محفل برہم یاور چپ
شاعری کا کمال ہی یہی ہے کہ ناممکنات کو ممکنات میں بدل دے.. پوری غزل درد و کرب کی دستاویز ہے..قلم گوید میں موصوف نے اپنے بارے میں تحریر کیا ہے جسے پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا… یعقوب یاور لکھتے ہیں کہ….
“یہاں یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ شاعری کے میدان میں میں نے کسی سے کچھ نہیں سیکھا ہے. میں نے ہمیشہ اپنے علم کی رہبری قبول کی ہے، میرا کوئی استاد نہیں ہے.. اس لیے اچھا شعر پڑھ کر یا سن کر استاد کا نام پوچھنے والوں کو تھوڑی سی مایوسی ہوگی کہ یہاں میں نے اپنے اعمال کا خود ہی ذمہ دار ہوں.. اگر اس کی بنیاد پر مجھے پر داد کا مستحق سمجھا جاتا ہے تو داد کا حق دار بھی میں خود ہی ہوں “(قلم گوید عنوان گفتنی سے لیا گیا)
مندرجہ بالا اقتباس پڑھ کر قاری یعقوب یاور کی صلاحیتوں کا اندازہ لگا سکتا ہے.. میں اوپر یہ تحریر کر چکا ہوں کہ یاور صاحب کو غزل اور نظم دونوں پر قدرت حاصل ہے.. قلم گوید میں معراج، محبت، شہر آشوب، جبر، بدل، جاگتی آنکھوں کا خواب، عید، امید گاہ، آج بھی، گریز، یاد آزاد وغیرہ جیسے عنوان کے علاوہ بہت ساری نظمیں پڑھنے کو ملیں… یاور صاحب کی نظموں میں ان کے سینے کا آتش فشاں دھیرے دھیرے پھٹتا رہتا ہے… ان کی نظموں میں سے ایک نظم “شہر آشوب”کے چند اشعار ملاحظہ کریں…
کل خواب میں آئے تھے میری ذات کے منظر
جس بات پہ نازاں تھا، اس بات کے منظر
سوکھے ہوئے جسموں سے بڑھے ٹوٹے ہوئے ہاتھ
ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی خیرات کے منظر
خواہش سے ابلتے ہوئے جسموں کی نمائش
اعضا پہ نظر آئے خرابات کے منظر
چند اشعار ملاحظہ کریں جو مجھے اچھے لگے….
زمانہ ہوگیا بوڑھا، قلم گوید
یہ سب کچھ میں نہیں کہتا، قلم گوید
کبھی اخبار کا اخبار چپ ہے
کبھی ایک ایک کالم بولتا ہے
ملے سچ کو شکست فاش یاور
عجب نیرنگ عالم بولتا ہے
آدمی بیمار ہوتا جارہا ہے
اور ادب مکار ہوتا جارہا ہے
سر بازار جنسی بے بہا کی ایسی ارزانی
زن بازار کو خطرہ ہوا بنت حیا سے بھی
یعقوب یاور کی غزلوں اور نظموں کی زبان اور انداز بیان نامانوس نہیں جیسا کہ بعض شعرا کے یہاں نامانوسیت اور غیر شاعرانہ زبان نظر آتی ہے… میں اپنی گفتگو پروفیسر عنوان چشتی کی تحریر پر ختم کرتا ہوں…
یعقوب یاور ان محتاط اور مخلص شاعروں میں ہیں جنہوں نے غزل کی فنی اور جمالیاتی قدروں کا احترام کرتے ہوئے اپنی تخلیقی طاقت کا ثبوت فراہم کیا ہے… ان کی شاعری میں ان کے سائے اور ہم سائے پوری طرح جلوہ گر ہیں.. میری مراد ان کی ذات اور کائنات سے ہے. مجھے یقین ہے کہ غزل کے مزاج داں اور اداشناس ان کی شاعری کو محبت کے ساتھ پڑھیں گے…. (قلم گوید.. فلیپ)
مدیر ترقیم و ترسیل ،دہلی

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here