اآیت الله سید حمید الحسن
غلطی، عفواور بخشش
انسان اس لفظ کو ہم قرآن میں اس کے مختلف معانی کے ساتھ مختلف انداز میں تقریباً 97جگہ دیکھتے ہیں ۔انسان جو اپنی مختلف شکلوں میں اپنے مختلف قبیلوں ،نسلوں ،عادات ،اور تہذیبوں کے ساتھ اسی زمین پر نا معلوم مدت سے ہر جگہ ہے، ہمیں یہ دیکھنا ہے اس کے لئے انسانیت کی طرح ہے ؟ مشہور مقولہ ہے تعرف الاشیا ء با ضد ادھا ،چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں ۔جیسے رات اور دن ۔روشنی اور تاریکی ۔زمین اور آسمان ۔آگ اور پانی ۔یوں ہی انسان پہچانا جا سکتا ہے اپنی ضد حیوان سے ( جبکہ وہ خود ہی حیوان بھی ہے ) اور انسانیت حیوانیت سے ۔تو حیوانیت کیا ہے ؟ انہیں حیوانیت میں درندے ہیں جنکی نمایاں صفت پھاڑ کھانا ہے ۔مگر کیا یہ پھاڑ کھانا ان کے لئے عادتاً ہے یا ضرورت کے وقت۔ اگر ہر وقت یہ بھاڑ کھانے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والے ہوتے تو خود ان کی نسلیں کب کی ختم ہوچکی ہوتیں ۔ہر شیر ۔ہر چیتا ۔ہر مگر مچھ ۔ہرباز ہمہ وقت ایک دوسرے کو بھی بھاڑ ڈالتے۔ نہیں یہ عمل انسے اسی وقت انجام پاتا ہے جب با وہ بھوکے ہوں یا انکے حدود میں نا وقت کوئی اچانک آجائے ۔یہ درندے اپنے بچوں کی بھوک مٹانا اپنی بھوک پر مقدم سمجھتے ہیں ۔ہم انسان ۔ہم خود پر غور کریں ہم کس وقت ان درندوں کی درندگی سے بھی آگے نکل جاتے ہیں اور کس وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم انسان ہیں ۔ہر درندے ( باز ۔مگر مچھ ۔شیر ۔لکڑبگھے ۔جنگلی کتے ) کی درندگی ہمیشہ ایک ہی طرح سامنے آتی ہے ۔مگر ہم حضرت انسان جب درندگی و مظاہرہ کرتے ہیں تو اس میں بھی ایسے ایسے طریقے ایجاد کرتے ہیں کہ اگر شیر چیتے زبان رکھتے بول دینے والی تو وہ کہتے ،’آپ سے بڑھکر کوئی درندہ نہیں ‘۔اور انسان کی یہ درندگی کسی طرح بھی کسی مذہب ۔کسی قوم قبیلے کسی زمانے اور کسی ملک کے ساتھ مخصوص نہیں کی جاسکتی ۔مذہب کا کام تو انسان کے اندر چھپی ہوئی اس بربریت پر قابو رکھنے کا اختتام کرنا ہے ۔قرآن کریم بھی یہی سبق دیتا ہے وہ اسے رحمدل۔شریف النفس ۔معاف کردینے والا وجود عطا کرتا ہے ۔اور اس کے لئے ۳طریقے ہیں ۱ ؎خطا کار کی طرف سے شرمندگی کا اظہار ۔معافی کا طلبگار ۔تو بہ کرلینا تو اسے معاف کردیا جاتا ۔۲ـ۔بغیر ان باتوں کے از خود گناہگار غلطی کرنے والے کو معاف کردینا ۳۔ کسی حالت میں بھی معاف نہ کرنا ۔یہاں ہم اپنی ایک فکر ایک چوتھی بات بھی لکھیں گے بھیانک غلطی کرنے والے گناہگار کی اپنی غلطی۔۔لغزش ۔جرم کے ٹھیک ہونے درست ہونے پر اصراراس پر ضدتو ایسے کی توبہ قبول کرنا کیسا ؟ وہ خالق مالک ایسے انسان سے اس کی توبہ کرلینے کی صلاحیت ہی ختم کر دیتا ہے ۔نہ تو بہ کر سکو گے نہ بخشے جاسکوگے ۔قرآنی زندگی میں قابیل سے ابو لہب تک اور قرآن کا تفسیری تاریخ میں ابو جہل سے یزید تک یہی سب ملیگا ۔توفیق خیر بھی اس کی طرف سے ہے ۔توفیق توبہ بھی اس کی طرف سے اور توفیق توبہ سلب کرلیا جانا بھی اسی کی طرف سے ہے ۔آئیے ہم قرآنی آیات سے دیکھیں کہ خطا کارکیلئے انسان کو کس طرح پیش آنا چاہئے ۔وہ انسان جو توبہ کرسکیں، وہ نہیں جو توبہ ہی کے حقدار نہ رہ جائیں ۔یہ فیصلہ کہ کون کس بات کا مستحق ہوگا اسے بھی ہم قرآن کریم ہی سے حاصل کرنے کی کوشش کرینگے ۔اتنا اور یہاں بیان کردیں ہم اپنے لئے تمام زندگی میں ہزار وں بار غلطی کے لئے معافی کے طلبگار ہوتے ہیں اور خودکو معاف کر دیئے جانے کا حقدار سمجھتے ہیں ۔انسانی سماج سے لیکر مذہبی زندگی تک ۔کمسنی سے بڑھاپے تک ۔گھر ۔ماں ۔باپ۔ بھائی ۔بہن ۔اقربا ، چچا ۔پھوپھا ۔ماموں ۔چچی ۔پھوپھی ۔خالہ ۔دوست ۔پڑوسی۔اسکول ۔شوہر زوجہ ساس بہو ۔کالج ۔یونیورسٹی ۔آفس ۔ساتھی ۔افسر ۔مسافرت ۔ہمسفر ۔تجارت ۔بیوی ۔اس کے گھروالے ۔ہر جگہ ۔غلطی ۔معافی کبھی کبھی سونے سے پہلے ہم کچھ دیر اس پر غور کر لیا کریں ہم نے کتنوں سے معافی مانگی ۔ اور ۔کتنوں نے ہی معافی مانگی ۔جتنوں سے ہم نے معافی مانگی انہوں نے ہمیں معاف نہیں کیا تو ہم پر کیا گزری اور جنہوں نے ہم سے معافی مانگی ہم نے انہیں معاف کر دیا تھا یا نہیں ۔اور جنکو ہم معاف نہیں کر سکےوہ اب اس دنیا میں ہے یا دوسری دنیا میں جا چکے۔اگر ہم اس کی ہر رات عادت کرلیں تو شاید ایک بہت وسیع سماج اور بہتر ہو جائے گا۔ہم کبھی اپنی غلطی مان لیں بہت مشکل سے ہوتا ہے ۔مان بھی لیں تو اس پر شرمندگی ظاہر کرلیں اور بھی مشکل ہوجاتا ہے ۔جبکہ ہم سامنے والے سے لے کر اپنے مالک ۔خالق کے سامنے ہمیشہ اپنی غلطی ۔گناہ بخش دیے جانے کے تمنائی ہوتے ہیں ۔معاف فرمائنگے ۔خاص طور سے بعض مذہبی رہنمائی کرنے والے اس تمام میدان میں معافی نہ مانگنے اور معاف نہ کرنے میں سب سے آگے آگے نظر آتے ہیں ۔شائد اسلئے کہ وہ اپنا رشتہ اپنے مالک خالق سے بہ نسبت اوروں کے زیادہ قریبی سمجھتے ہیں ۔مجھے یہاں ایک تاریخی بڑے صوفی عالم کا ایک منظر یاد آگیا انہوں نے ایک شرابی کو سامنے کیچڑ میں جاتے لڑکھڑاتے دیکھا ۔آواز دی ۔سنبھل کر چلو ۔گر جاؤ گے ۔تمہارے سفید کپڑے کیچڑ میں خراب ہو جائینگے ۔وہ شرابی ان عالم کو جانتا ہوگا ۔جواب دیا ۔ ہم سے زیادہ آپ سنبھل کر چلیں ۔میں گراتو بس میرے کپڑے خراب ہونگے ۔آپ گرے تو پوری قوم لڑکھڑا جائیگی ۔ تو مذہبی رہنمائی کا فریضہ انکے سپرد کسنے کیا ہے ؟ ۔اللہ نے ۔گھروالوں نے ۔خود سے ؟۔ کہ قوم نے ؟۔ جس سے بھی ملا ہو ۔اس منصب کے فائدے ضرور حاصل کریں مگر غلط تبلیغ و تعلیم سے دوسروں کو نقصان نہ پہونچائیں ۔معافی ۔توبہ ۔ غلطی کااحساس ۔جرم پر ندامت کی جزا ہے ۔کس طرح ملتی ہے اسی دنیا میں مل جاتی ہے ۔بعد کی زندگی میں تو یقیناً ملیگی ۔اس کی ایک خوبصورت مثال ہم یہاں قرآنی زندگی کو مکمل طور پر سمجھانے والی ہستی حضور کی زندگی سے ایک واقعہ کے ذریعہ بیش کریں ۔ قرآن نے شراب کو حرام قرار دیا ۔انسان اور انسانیت کے لئے آج بھی یہ نقصان رساں ہے ہمیشہ ہے، اس میں کم زیادہ ، کی بات اس لئے نہیں کہ چھوٹی سی بھڑاور بڑے بچھو میں فرق قائم کرنا عقلمندی نہیں زہر دونوں جگہ ہے ڈنک دونوں کے پاس ہے ۔نقصان دونوں سے ہوگا ۔تو قرآنی قانون آہستہ آہستہ سماجی برائیوں کو جب ختم کر رہا تھا اسی میں وہ وقت بھی آیا جب شراب حرام ہونے کا قانون آگیا۔ پینے والوں پر مشکلات کا دور آگیا جو اس کے عادی نہ ہونگے وہ خوش ہوئے۔ تمام عرب میں اسلامی زندگی کے لئے اعلان ہوگیا کہ شراب، ہر وہ بہنے والی شے جو نشہ دے حرام کر دی گئی۔اسی وقت کی بات ہے۔ حضورؐمدینے کی گلیوں سے گزر رہے ہیں کہ دور پر ایک شخص اپنے ہاتھوں میں شراب کا ایک بڑا ظرف جسے عربی میں’ قرابہ ‘کہتے ہیں لئے گھڑا تھا۔ حضورکو آتے دیکھا۔ گھبرایا ۔ خوف زدہ ہوگیا۔ کہنے لگا۔ اے اللہ اس وقت مجھے حضور کےسامنے بے عزتی سے بچا لے۔ میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں ۔ توبہ کرتا ہوں پھر کبھی نہ پیونگا۔ (بس اسوقت مجھے حضور کے سامنے شرمندگی سے بچا لے) حضور اتنے میں قریب آچکے ہیں۔ رکے۔ فرمایا یہ تمہارے پاس کیا ہے؟ گھبرا کر بولا۔ یا حضرتؐ یہ سرکہ ہے۔ فرمایا اچھا ہاتھ بڑھایا اپنا دست مبارک اس کے سامنے بڑھایا فرمایا۔ لائو تھوڑا سرکہ ہم کو بھی دو۔ دیکھیں کی اہے؟ مرتا کیا نہ کرتا۔ اب تو دو جرم ہو جائیں گے۔ شراب ایک۔ جھوٹ کہ سرکہ ہے دو۔ مگر کیا کرے۔ قرابے سے تھوڑا سا عرق نکالاحضور کے ہاتھ پر ڈالا۔ حضور نے دیکھا فرمایا بہت اچھا سرکہ ہے۔ اس گناہ گار نے اپنے شراب کے اس قرابے کو دیکھا۔ حضور سے کہنے لگا۔ یا رسول اللہ میں قسم کھا کرکہتا ہوں یہ شراب تھی۔ ابھی ابھی سرکہ ہوئی ہے۔ آپ کے ڈر میں تو بہ کر لی تھی۔ اللہ نے اللہ نے اسے شراب کو سرکہ کر دیا۔فرمایا ایسا ہی ہوگا جو توبہ کرلے۔ جو توبہ کرلے کسنے کہا۔ کس کے لئے کہا؟ قرآن ہر انسان کے لئے ہے آیئے۔ قرآن ہر انسان کے لئے ہے آئیے۔ یہاں ہم قرآن کریم کے چوتھے سورے النساسے اسکی 64ویں اآیت پڑھیں اور ’ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کریں اور (اے رسول) جب انہوں نے گناہ کر کے اپنے اوپر ظلم کیا تھا یہ تمہارے پاس آجاتے اور اللہ سے معافی ماگنتے اور (اے) رسول( آپ)بھی ان کی بخشش طلب کرتےتو بیشک وہ لوگ خدا کو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔‘‘
قرآن انسان کو انسانیت سمجھانے والی کتاب ہے وہ قرآن انسانیت کو شرم سار کرنے والوں سے بھی آگاہ کرتا ہے اور انھیں اس سے بچنے کے طریقے بھی بتاتا ہے۔ اسی قرآن کے ایک سو چودہ سوروں میں سے ایک کاتو نام ہی ’توبہ ‘ہے۔ اس کا پہلا سورہ ’الحمد ‘ہر گناہگار کے لئے وہ راستہ بناتا ہے جس پر چلنے والا ہر ٹھوکر سے بچے۔ اس کا دوسرا سورہ ’البقرہ ‘اس ابلیس کی داستان بھی پیش کرتا ہے جس نے غلطی کی۔ توبہ سلب کر لی گئی۔ یہی سورہ سب سے پہلے خلیفہ الٰہی حضرت آدم کی بھی ترک اولیٰ پر تو بہ کی بات پیش کرتے ہوئے اس کی قبولیت سمجھاتا ہے۔(37ویں آیت) پھر یہی سورہ بنی اسرائیل کی زیادتیوں کے مقابل ۔ گناہوں کے مقابل، ایک بار ان کے معاف کر دینے کو پیش کرتا۔ (52ویں آیت) مگر یہ بار بار اس معاف کردینے والے کوبھلاتے رہے۔ حضرت موسیٰ کی نافرمانیاں کرتے رہے۔ وہ انھیں در گزر کرتا رہا۔ یہی سورہ حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل میں جیسے عظیم انبیا کے لئے۔ ۔ تعمیر کعبہ کا شرف بھی پیش کرتا ہے۔ اور ان کی زبان سے(128ویں آیت) اور ’ہماری توبہ قبول کر بیشک توبڑا تو بہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ ‘پیش کر کے ہمیں سبق دیتا ہے۔ ان سے کوئی گناہ نہیں تھا مگر پھر بھی توبہ کرنا ہمارے لئے بھی یہی تعلیم ہے۔ تو کیا ہم سامنے والے کو معاف نہیں کر سکتے۔ ساس بہو ۔ نند ، بھاوج، استاد، شاگرد، باب بیٹے، ماں اولاد، شوہر زوجہ، ہر جگہ ، توبہ ، معافی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں جو ہمیں اعلیٰ انسان بننے میں مدد دیںگے۔ تمام سورہ بقرہ میں اسی طرح غلطی،توبہ، قبولیت، 160ویں آیت یہاں تک کہ اس عظیم قرآنی سورہ البقرہ کی آخری آیت بھی ہم سب کے لئے ایک دعاد کی شکل میں ہے اور وہ دعا اس کی (اے اللہ ہمیں معاف کر دے) ہم یہاں جلدی جلدی تمام قرآن سے صرف بعض جگہوں کی طرف متوجہ کر سکیں تو بہتر ہے کہ عفو، معافی کا انسان اور انسانیت سے کتنا اہم رشتہ ہے جسے قرآن کریم انتہائی نازک مواقع پر بیحد اہم حالات میں بھی کس طرح باقی رکھتاہے۔
قرآن کا تیسرا سورہ آل عمران 31ویں آیت بخشش کا معیار ، محبت رسول ہے قرآن کا چوتھا سورہ النسا64ویں آیت پہلے بیان کر چکے۔
قرآن کا پانچواں سورہ المائدہ 27ویں آیت سے 39ویں آیت تک 12آیات یہی حالات یہی معاملات کس کے لئے توبہ کس کے لئے نہیں ۔ قرآن کا39واں سورہ الزمر53ویںآیت۔ ہم تمام قرآن میں تقریباََ 35جگہ عفو، تقریبا 235 جگہ مغفرت اپنے مختلف انداز میں پاتے ہیں۔ یہ تقریباََ 270جگہ دیکھ کر اتنا توسمجھ سکتے ہیں کہ ہماری انسانی۔ سماجی، برادری کی عمارت کے لئے معاف کر دینا بہت اہم ستون ہے۔ یہ معاف کردینا بڑے دل جگر والوں کا کام ہے مگر ہم کہیں گے معاف کر دینا جتنے بڑے دل کی بات ہے معافی مانگ لینا اپنی غلطی تسلیم کر لینا اس سے بھی بڑے دل کی بات ہے۔
حضور کا قول ہے۔ التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ گناہ سے تو بہ کر لینے والا ایسا ہے جیسے اس سے گناہ ہی نہیں ہوا۔ حضور نے اس تو بہ کے لئے کہاں سے کہاں تک چھوٹ دی۔ اسے بھی دیکھیں۔ شائد اپنی زندگی کے آخری خطبہ میں فرمارہے ہیں ’کوئی موت سے ایک سال پہلے توبہ کر لے اللہ اس کی توبہ قبول کر لیگا پھر فرمایا ایک سال تو بہت ہے کوئی مرنے سے ایک ماہ پہلےتوبہ کر لے قبول ہوگی، پھر فرمایا یہ بھی بہت ہے کوئی موت سے ایک ہفتہ پہلے تو بہ کرلے قبول ہوگی۔ پھر فرمایا ایک گھنٹہ پہلے تو بہ ۔ قبول ۔ پھر فرمایا ایک گھنٹہ بھی بہت لمبی مدت ہے شیطان بہت مکار ہے۔ دنیا بہت بے اعتبارہے۔ حضور نے اپنا ہاتھ اپنے حلق پر رکھا فرمایا اگر نفس(جان ساس) یہاں تک رہ گئی ہو اور توبہ کر لے اللہ اس کی توبہ قبول کر لےگا۔ عفو کا قلم اس کے گناہوں پر پھیر دیگا۔ مگر یہ سب کس کے لئے۔؟ جو خود کو معافی کے لائق سمجھے ۔ توبہ کر لینے کی صلاحیت حاصل کر لے۔ حضور ہی کا ارشاد ہے خوش نصیب ہیں وہ جب قیامت میں نامہ اعمال کھولیں تو جہاں خطائوں لکھا ہو استغفر اللہ ۔ مقصد گناہ پر جرأت نہ کرے اصرار نہ کر ے جب ندامت ہوگی تب ہی مافی مانگے گا۔ استغفار کر ےگا۔
یہاں بہت سے حضرات یہ خیال کریںگے کہ پھر تو گناہوں کی بڑی آزادی مل گئی جی نہیں۔ انسان فطری طور پر خطا۔ غلطی ۔ گناہ کر لینے والا ہے۔ لیکن اسے اس کے مقابل معافی سے مکمل مایوس کر دینا اسے مزید جرأت گناہ دیگا ۔ البتہ اگر اسے امید عفو ہے تومزید گناہ سے بچے گا ہم یہاں اس 99کے قاتل کا واقعہ پیش کرتے ہیں جو ہر مسلک کی کتاب میں ہے۔ لیکن طوالت کے خوف سے اسے ترک کرتے ہوئے اتنا کہیں گے ۔ قرآن انسان کو اعلیٰ انسانیت کے اصول بتانے والی کتاب ہے۔اس میں عفو و مغفرت بھی اپنے حدود کے ساتھ ہیں۔ جسے ہم اس مضمون کی ابتدا میں بتا چکے۔ یہ عفو یہ مغفرت یہ بخشش بھی اس وقت مفید ہے جب سماج میں برادری میں کسی گناہگار کسی خطا کار کا تائب ہوجانا اس تمام سماج کے لئے ایک سکون ایک اطمینان کا سبب بن جائے۔ اور اسے معاف کردیاجانا اسے آئندہ مزید گناہوں سے بچالینے کا وسیلہ بن سکے ۔سماجی زندگی میں سکون کی لہر دے دینا بڑا ثواب ہے۔
امیر المومنین علیؑ کا یہ قول کتنی قیمت رکھتا ہے۔ ’سور کے گلے میں جواہر کا ہار مت ڈالو‘۔ اور پھر آپ ہی کا یہ قول اس فلسفہ عفو کو دو نوں فریق کے لئے کتنا اہم قرا دیتا ہے۔ اذا قدرت علی عدوک فجل الفو عنہ شکر اللقدرۃ علیہ( جب دشمن پر (مخالف پر نہیں ۔۔مقابلہ پر نہیں۔۔۔دشمن پر) قابو پاجائو تو معاف کردینا اختیار کرو(اللہ سے)تم کو اسپر (دشمنوں پر )قابو دیا۔
اور قرآن والوں کا صرف یہ قول ہی نہیں ہوتا تھا۔ ان کی تمام عملی زندگی یہاں تک کہ چلتی تلواروں میں،کٹتے سروں میں، بہتے خون میں بھی اگر مخالف سرجھکا لے تو اس کا جھکا سرتلوار سے اور نہیں جھکادیا جاتا تھا بلکہ محبت و اخلاق کے سہاروں سے اسے اونچا ، بلند ، کر دیا جاتا تھا۔
جسے وقت ملے وہ کربلا میں امام حسینؑ کے سامنے ان کے مقابل حر کو آتے دیکھےحر کا سر قدموں سے اٹھاکر امام حسینؑ کے سینے سے لگتے دیکھے تو وہ سمجھ لیگا۔ قرآن انتقام کا قانون نہیں ہے۔ انسانیت کو زندگی بخشنے کا قانون ہے وہاں قرآن کے دوسرےسورۃ البقرہ کی 179ویں آیت میں قصاص انتقام کی بات ضرور ہے مگر موت دیدینے کے لئے نہیںبلکہ زندگی بخشنے کے لئے۔ اس نے کہا اے عقل والو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔ ‘مقصود یہ نہیں کہ جب جہاں انتقام کا موقع مل جاکے زندگی ختم کر دو بلکہ جب بھی قصاص کا وقت آئےزندگی بچا لینا مقدم کرو۔ ہم اس کی مثالیں چھوڑتے ہیں شائد آئندہ بیان ہو سکیں۔ آخر آخر ہم حضرت میرانیسؔ کے اس شعر پر بات ختم کر لیں
پوچھے کوئی پتہ تو یہ کہہ دیجیو انیسؔ
دار السلام ہی میں ہے بستر فقیر کا
یہ وہ سلامتی کا گھر ہے جو اس سے پہلے کے اسی سلام کے ایک شعر میں حضرت انیس بتا رہے ہیں۔
اثنا عشر کے گھر کا گدا ہوں پتہ یہ ہے
بارہ دری میں رہتا بستر فقیر کا
یہ بارہ دری بھی لکھنو کی نہیں قرآن کے ان مفسرین ائمہ اطہار کی ہے جن سے قرآنی انسانیت کے سبق سال کے 12مہینے ملتے رہتے ہیں۔ اور جن کے ذریعہ آج تمام دنیا میں قرآنی رحمت کے سبق جاری ہیں۔ اور انشا اللہ جاری رہیں گے۔ دل چاہتا ہے یہاں حضرت خمار بارہ بنکوی کا بھی ایک شعر دہرا دیں ؎
یہ ہے نبی کے گھرکا پتہ
موڑ ہیں بارہ ایک گلی
Also read