9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر مخمور کاکوروی
دشمن جاں کی شناسائی سے ڈر لگتا ہے
تیری ان أنکھوں کی گہرائی سے ڈر لگتا ہے
لمحہ لمحہ انھیں رسوائی سے ڈر لگتا ہے
سارے نادانوں کو دانائی سے ڈر لگتا ہے
گھر کا ماحول پراگندہ ہوا ہے اتنا
أج اک بھائی کو اک بھائی سے ڈر لگتا ہے
رقص کرتی ہو اجل سر پہ جب انسانوں کے
تالی سے تھالی سے شہنائی سے ڈر لگتا ہے
ڈوبنے والوں کا ساحل سے نظارہ جو کرے
ایسے خاموش تماشائی سے ڈر لگتا ہے
تبصرے اہل بصیرت کے سر أنکھوں پہ مگر
تنگ ذہنوں کی پذیرائ سے ڈر لگتا ہے
سر جو خم کرتا ہو دربار خدا وندی میں
اس کو در در پہ جبیں سائی سے ڈر لگتا ہے
پہلے ڈرتا تھا ہجوم غم و ألام سے میں
أج تنہا ہوں تو تنہائی سے ڈر لگتا ہے
ہوتی رہتی ہیں یہاں چوریاں اکثر مخمور
فیس بک پر سخن ےرائی سے ڈر لگتا ہے
9450097929