9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
سلیم انور
۱۸۷۵ء کو ضلع انائو کے قصبہ موہان میں ایک شخص پیدا ہوا جو آگے چل کرایک بڑا عالم ،ادیب، صحافی، محقق ،مفکر و مدبر، بالغ النظر سیاست داں ، صوفی اور شاعربن کر ابھرا۔ہندوستان کی تاریخ میں اس کثیر الجہت شخصیت کو حسرت موہانی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔حسرت نے جس عہد میں آنکھ کھولی اس وقت ہندوستان انگریزوں کی غلامی کی زنجیروںمیں جکڑا ہوا تھااور سماجی ، تہذیبی ومعاشی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی صورت حال بد سے بدتر ہوگئی تھی۔ ایسے نازک دور میں حسرت نے اپنے ملک کو آزاد کرانے اور اس کے کھوئے ہوئے وقار کو دوبارہ بحال کرانے کے لیے انگریزوں کے خلاف جہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، غلامی کے خلاف مسلسل اقدام کرتے رہے، جس کے سبب انھیں جیل جانا پڑا اورمختلف طرح کی اذیت ،تکلیفیں اور صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے یقیں محکم اور عمل پیہم کی راہ پر گامزن ہوکر اپنے ملک کو آزاد کرانے میں آزادی کے متوالوں کا ساتھ دیا اور ملک کو آزاد کراکے ہی دم لیا۔
اس عہد میں غزل موضوعاتی اعتبار سے تنزلی کا شکار تھی۔ غزل کی جو روایت ولی،میر، درد، سودا،مومن، غالب اور ذوق سے چلی آرہی تھی ، اس دور میں اس قدر تبدیل ہوئی کہ اس کا تعلق فلسفۂ حیات سے کٹ کر چوما چاٹی اور کنگھی چوٹی کی جانب مائل ہوگیا ۔اس کا فطری پن زائل ہونے لگا اور اس کی جگہ تصنع اور میناکاری کا غلبہ بڑھنے لگا۔اس میں ایسی لفظیات ، محاورے اور ایسے مضامین داخل ہونے لگے جن سے غزل ،غزل نہ رہ کر ہزل بننے لگی۔ داخلی جذبات کی ترجمان سمجھی جانے والی اس صنف میں رکاکت و ابتذال اور سوقیانہ پن کے مضامین کثرت سے باندھے جانے لگے ۔جس سے غزل کا معیارو وقاراوربلکہ اس کی شناخت خطرے میں محسوس کی جانے لگی۔اس کی چند مثالیں :
جوبن ابھار پر ہے چمن کو نہ جائیے
بادِ صبا لگائے گی چوری انار کی
امیرؔ
کچھ اشارہ جو کیا ہم نے ملاقات کے وقت
ٹال کر کہنے لگا دن ہے ابھی رات کے وقت
جرأتؔ
ڈر گئے چیخ اٹھے بات تھی کیا کہئے تو
کیا شبِ وصل کسی کا کوئی ارماں نکلا
ریاضؔ
دوسری جانب حالی نے انھیں موضوعات کے باعث غزل پر شدید اعتراضات کیے۔ ان کے علاوہ بھی دیگرکئی ناقدین سخن نے انفرادی طور پر غزل کی مذمت اور مخالف کی۔ان نازک حالات میں حسرت کا بڑا کارنامہ یہ رہا کہ انھوں نے غزل کو ازسر نور تجلی بخشنے اور اس کی بقا کے لیے نئی نئی راہیں نکالیں۔ اس کے دامن کو عامیانہ پن، سوقیانہ پن، فحش و عریانیت، خیالی و بے سرو پا باتوں سے پاک کیا اور اس میں زمینی حقائق ، ذاتی تجربات و مشاہدات اور عشقی کی پاکیزہ کیفیات کوداخل کیا۔ نئے اورعصری موضوعات کو شامل کرنے سے تازگی کا احساس پیدا ہوا۔ اس طرح حسرت نے غزل کی اجڑتی دنیا کو نئی زندگی عطا کی ۔ پروفیسر نظیر صدیقی لکھتے ہیں:
’’اردو غزل میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ایک طرف انھوں نے غزل کو اس زہد پسندی (PURITANISM )سے بچایا جسے حالیؔ رواج دینے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری جانب انھوں نے غزل کو اس سطحی معاملہ بندی سے نجات دلائی جسے داغؔ اور امیرؔ پورے ہندوستان میں مقبول عام بنا چکے تھے۔‘‘۱؎
اس تعلق سے علی سردار جعفری رقم طراز ہیں:
’’حسرت موہانی نے غزل کو لکھنؤ کے انحطاطی مکتب سے آزاد کیا اور غزل کی ترقی کی نئی سمت کی طرف اشارہ کیا۔ لکھنؤ کی شاعری گورکھ دھندے میں تبدیل ہوچکی تھی۔ عشق ہوس ناکی بن گیا تھا اور ابتذال کنگھی چوٹی اور دوپٹہ سے اتر کر جوبن تک پہنچ گیا تھا۔ اس شاعری کو ’عشق باکباز‘ کی سطح پر واپس لے آنا حسرت موہانی کا کام تھا۔‘‘۲؎
حسرت نے فن شاعری میں کلاسیکی شعرا کی پیروی کرتے ہوئے اپنی الگ راہ نکالی۔
غزل کے چند اہم معترضین میں پروفیسرکلیم الدین احمد کا نام خاص طورپر لیا جاتا ہے ۔انھوں نے بھی حسرت کے اس رویے کی تائید کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہے کہ حسرت نے استاتذہ کی محض کورانہ یا اندھی تقلید نہیں کہ بلکہ اپنے تخلیقی جوہر کو بھی بروئے کار لاتے ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی سعی کی ہے۔جس سے ان کی ایک انفرادیت قائم ہوتی ہے۔کلیم الدین احمد لکھتے ہیں:
’’جن غزل گو شاعروں نے دور حاضر میں انفرادی رنگ قائم کیا ہے، ان میں پہلا نام حسرتؔ موہانی کا ہے۔ حسرتؔ نئے رنگ کے پیرو نہیںہیں۔ وہ اساتذہ کے اصول سے سرِ مُوتجاوز نہیںکرتے ہیں اور کورانہ تقلید بھی نہیں کرتے۔ بات یہ ہے کہ حسرتؔ اساتذہ کی پیروی نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کی شاعری میں بھی وہی بنیادی اصول ہیںجو میرؔ، دردؔ، غالبؔ، اور مومنؔ کی غزلوں میں پائے جاتے ہیں۔ حسرتؔ کی اہمیت یہی ہے کہ وہ قدیم رنگ میں انفرادی شان حاصل کرتے ہیں۔ نیارنگ ایجاد کرنا مشکل سہی لیکن کسی معیّن اور مستحکم طرز میں انفرادی شان حاصل کرنا زیادہ مشکل ہے۔ حسرتؔ نے اسی مشکل کو آسان کردیا ہے۔‘‘۳؎
بادی النظر میں جب اردو شاعری کا نام لیا جاتا ہے تو غزل اپنی جملہ رعنائیوں کے ساتھ پردۂ ذہن پر جلوہ گر ہوجاتی ہے۔ کیونکہ غزل ایک حسین، نازک،شیریں ، لطیف، دلکش اور دلچسپ صنف سخن ہے ۔ جس نے اپنی خصوصیات کی بناپراس نے زمانے کو اپنی زلف کا اسیر بنا رکھا ہے ۔اس کے شیدائیوں کی کثیر تعداد ہر دور میں موجودرہی ہے۔ یہ تعداد روز بہ روز افزوں تر ہوتی جارہی ہے۔اکثر نوآموز شعرا نے اپنے شعری سفر کا آغاز اسی صنف سے کیا ہے۔ حسرت نے بھی اپنے جذبات و احسات کی ترجمانی کے لیے غزل کا سہارا لیا۔ وہ بنیادی طورپر غزل کے شاعر تھے اور تمام عمر غزل کے گیسو سنوارنے میں مصروف رہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کا اصل جوہر اسی صنف میں بروئے کارآتا ہے کیونکہ غزل سے انھیں بے پناہ انسیت اور فطری مناسبت تھی،جس کا وہ خوداعتراف کرتے ہیں:
عشق حسرتؔ کو ہے غزل کے سوا
نہ قصیدے نہ مثنوی کی ہوس
لکھتا ہوں مرثیہ نہ قصیدہ نہ مثنوی
حسرتؔ غزل ہے صرف مری جانِ عاشقاں
حسرت کی غزلیہ شاعری کا بغور مطالعہ کرنے پر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی غزلوں میں مختلف طرح کے مضامین راہ پاتے ہیں لیکن ان میں جن مضامین کی فراوانی ہے وہ داخلی جذبات و احساسات اور عشقیہ واردات و کیفیات سے مملو ہیں۔ ان کی غزلوں کا محور و مرکزعشق ہے ،جس کے گرد اکثر و بیشتر غزلیںگھومتی نظرآتی ہیں۔ ان کے مضامین صداقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ان کا محبوب اسی دنیا کا گوشت پوست کا سانس لیتا ہواایک انسان ہے جس سے انھیں بے پناہ محبت ہے۔اسی محبت کے سبب وہ اس کے ناز ونخرے اٹھاتے ہیں، اس کے جورو ستم کو برداشت کرتے ہیں،تو کبھی اس کی جفاو تغافل اور بے التفاتی پر شکوہ سنج ہوتے ہیںاورکبھی اس کے ہجر میں تڑپتے اور وصال کی آرزوکرتے ہیں، تو کبھی اس کا سراپا بیان کرکے خوش ہوتے ہیں۔الغرض محبوب کے متعلق مختلف النوع مضامین کی کارفرمائی ان کی غزلوں میں موجود ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار قابل توجہ ہیں:
نگاہِ شوق کیونکر کامیابِ شادمانی ہو
غضب کا رعب ہے اس شوخ کے حسنِ نگہباں میں
ہم نے کس دن ترے کوچے میں گزارا نہ کیا
تونے اے شوخ مگر کام ہمارا نہ کیا
اب تو اٹھ سکتا نہیں آنکھوں سے بارِ انتظار!
کس طرح کاٹے کوئی لیل و نہارِ انتظار
رہینِ یاس رہیں اہلِ آرزو کب تک
کبھی تو آپ کا دربارِعام ہوجائے
اللہ ری جسم یار کی خوبی کہ خود بخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
بہ نسبت اپنے پیش رو غزل گویوں کے حسرتؔ کے یہاںتغزل کاستھرا روپ نظرآتا ہے۔ تغزل کی اصل روح عشق ہے۔ حسرت نے اس موضوع کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔اس موضوع کو برتنے میں انھوں نے نہایت سلیقہ مندی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ اپنے زمانے کی عام روش سے ہٹ کر انھوں نے اپنی الگ راہ نکالی ہے۔ ان کا یہ کارنامہ اردو غزل کے حق میں مفید اور کارآمد ثابت ہوا۔ عبدالقادر سروری لکھتے ہیں:
’’ اردو شاعری میں وہ ایک نئے دبستان کے بانی ہیں جس کا اصل اصول ذاتی جذبات اور ماحول کے حالات کو غزل میںپوری نمایندگی کرنا ہے غزل کی روح ’’عشق‘‘ ہے لیکن قدیم غزل گو شعرا کا تخیل ’’عشق‘‘ کے متعلق بہت محدود اورعموماً صنفی جذبات سے متصف تھا۔ اس کے علاوہ وہ اظہارکی ایک گہری رسم پرستی میں مبتلا تھے۔ صوفی شعرا نے اس میںکچھ وسعت پیدا کردی تھی۔ لیکن حسرتؔ موہانی نے عشق کے بسیط تخیل کو اپنی غزل کے ذریعہ مقبول بنادیا ہے۔ یہ کام حسرتؔ نے نہایت خاموشی سے انجام دیا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اردو غزل پھر سے زندہ ہوگئی۔۴؎
فنون لطیفہ کی کسی بھی شاخ میں فنکار کی شخصیت اور اس کے فکرو خیال کا پرتو اس کے فن پر ضرور پڑتاہے ۔شاعری بھی فنون لطیفہ کی ایک شاخ ہے جس میں شاعرکی شخصیت کا عکس دیکھاجاسکتا ہے۔غزل تو احساسات و جذبات کی ترجمانی کے لیے مخصوص ہے۔ اس لیے اس میں شخصیت کے اکثر پہلو در آتے ہیں۔ہاں یہ اور بات ہے کہ بعض شعرا کے یہاںیہ عناصر زیادہ حاوی ہو جاتے ہیں تو بعض کے یہاں کم ۔جو شاعر جس مزاج اور فکرکا حامل ہوتا ہے اس کے اشعار میں وہ افکارشعوری یا غیر شعوری طورپر ضرور آجاتے ہیں۔اس نظریے سے دیکھاجائے حسرت کی شخصیت کا ایک اہم پہلو سیاست رہا ہے۔ وہ ایک شاعر ہونے کے ساتھ ہی ایک فعال اور بالغ النظر سیاست داں بھی تھے ۔ ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے میں انھوں نے عظیم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے لیے انھیں جیل بھی جانا پڑا،جہاں ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ۔ انھیں ہر روز چکی سے ایک من گیہوں پیسنا پڑتا تھا، ان کے ساتھ یہ سلوک تقریباً سال بھرکیا گیا۔حالانکہ عام طورپر قیدیوں کو یہ مشقت ایک ماہ سے زیادہ نہیں دی جاتی۔لیکن ان کے ساتھ یہ رویہ اس لیے روا رکھا گیا تا کہ ان کے حوصلے پست ہوجائیں اور وہ آزادی کی تمنا اپنے دل سے نکال دیں ۔ لیکن اتنا ظلم و جبر ہونے کے باوجو د انھوں نے اپنے ملک کی سلامتی اور اس کی شان شوکت کی بقا کے لیے انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کی ہر سختیاں برداشت کرتے رہے:
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرف تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
کٹ گیا قید میں ماہِ رمضاں بھی حسرتؔ
گر چہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
اچھا ہے اہلِ جور کیے جائیں سختیاں
پھیلے گی یوں ہی شورشِ حبِ وطن تمام
حرّیت کامل کی قسم کھا کے اٹھے ہیں
اب سایۂ برٹش کی طرف جائینگے کیا ہم
سمجھے ہیں اہلِ شرق کو شاید قریبِ مرگ
مغرب کے یوں ہیں جمع یہ زاغ و زغن تمام
حسرت ایک صوفی منش شاعر تھے۔ شاہ عبدالرزاق بانسوی کے ہاتھوں بیعت تھے۔ مذہب اسلام پر کامل یقین رکھتے تھے اور تمام فرائض کے پابندتھے۔انھوں نے ایک قلندر کی طرح سادہ اور عام زندگی بسر کی ۔دنیاکے تمام انسانوں کو خدا کی مخلوق تصور کرتے تھے۔ اس لیے انسانیت، محبت ، بھائی چارگی اور باہمی اتحاد و اتفاق پر زور دیا۔اپنی غزلوں کے ذریعہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا پیغام دیا ۔دنیا کی حرص و ہوس آدمی کو ذلالت و خواری کے سوا کچھ نہیں دیتی ، اس لیے اس سے بیزاری کا سبق دیا ہے۔ اس تعلق سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
قطرے کو دریا کی، اس کو وصل حق کی ہے طلب
کر چکے ہیں بارہا ہم امتحان زندگی
واصلان حق، فنا فی اللہ ہے جن کا مقام
اہل دنیا کو ہو کیوں ان پر گمان زندگی
پڑھیے اس کے سوا نہ کوئی سبق
خدمتِ خلق و عشقِ حضرتِ حق
پھرتی رہتی ہے آدمی کو لیے
خوار، دنیا میں آدمی کی ہوس
حسرت کوزبان و بیان پر قدرت حاصل تھی۔ وہ الفاظ کی نزاکت و نفاست اور اس کے مزاج سے اچھی واقفیت تھی اور الفاظ کے تخلیقی استعمال پر قدرت رکھتے تھے۔ اسی لیے ان کی غزلوں میں بے جا الفاظ کا گمان نہیں ہوتا۔ جو کام ایک بت تراش چھینی اور ہتھوڑی سے اور مصور برش اور رنگ سے کرتا ہے، اسی کام کو ایک بڑا اورکہنہ مشق شاعر چند الفاظ کے ذریعے ایسے ایسے خوبصورت پیکر تراشتا ہے کہ ان آلات کے استعمال کرنے والوں سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ حسرت کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے بے جان لفظوں سے ایسے پیکر تراشے ہیں کہ ان میں جان پیدا ہوگئی ہے اور وہ پیکر چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں۔جس سے حسرت کی لفظوں کے تخلیقی استعمال کی صلاحیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حسرت کی پیکر تراشی کے کچھ نمونے :
آج تک جس سے معطر ہے محبت کا مشام
آہ کیا چیز تھی وہ پیراہنِ یار کی بو
تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارا کر دیا
چل بھی دیے وہ چھین کے صبر و قرارِ دل
ہم پوچھتے ہی رہ گئے یہ ماجرا ہے کیا
یاد کر وہ دن کہ تیرا کوئی سودائی نہ تھا
باوجودِ حسن تو آگاہِ رعنائی نہ تھا
آنکھوں کے تبسم نے سب کھول دیا پردہ
ہم پر نہ چلا جادو اے چینِ جبیں تیرا
حسرت زبان و بیان کی صفائی اور شستگی پر خاص توجہ دیتے ہیں۔وہ فلسفے کی پیچیدگیوں سے احتراز کرتے ہیں ۔ان کے یہاں اکثر وہی الفاظ و تراکیب ، محاورے و بندشیں، تشبیہات و استعارے ، کنا یے اور اصطلاحات استعمال ہوئے ہیں جو کلاسیکی شعرا کے یہاںنظر آتے ہیں۔ الفاظ اوربحور و اوزان کے انتخاب پر کافی توجہ صرف کی ہے جس سے شعر کی سلاست وروانی ا ور نغمگی میں اضافہ ہوتا ہے،اس میںجاذبیت و اثر انگیزی اوردلکشی پیدا ہو تی ہے جس سے سننے والے اور پڑھنے والے تادیر اس سے محظوظ ہو تے ہیں۔وہ شعر میں اثر انگیزی کے قائل ہیں۔کہتے ہیں:
شعر در اصل ہیں وہی حسرتؔ
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
اس شعر کا اطلاق خود ان کی شاعری پر بھی ہوتا ہے۔ ان کے کلام میں بلا کی اثر انگیزی موجود ہے۔ حسرت کے یہاں غزل کا وہ رنگ پایا جاتا ہے جو مومنؔ کی غزلیہ شاعری کا رنگ ہے۔ان کے استاد کا سلسلہ بھی مومن سے جا ملتا ہے۔ حسرت کے استاد تسلیمؔ، تسلیمؔ کے استاد نسیمؔ اور نسیمؔ کے استاد مومنؔ تھے۔یوں تو حسرت نے کئی اساتذہ کے کلام سے اکتساب فیض کیا لیکن جس شاعرکے اسلوب نے انھیں سب سے زیادہ متاثر کیاوہ مومن کا اسلوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مومن کے رنگ سخن کو اختیارکیا ۔ خود فرماتے ہیں:
غالبؔ و مصحفیؔ و میرؔ و نسیم و مومنؔ
طبع حسرتؔ نے اٹھایا ہے ہر استاد سے فیض
حسرتؔ یہ وہ غزل ہے جسے سن کے سب کہیں
مومنؔ سے اپنے رنگ کو تو نے ملا دیا
حسرت کے انھیں شعری محاسن پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر یوسف حسین خاں لکھتے ہیں:
’’حسرتؔ کے ہاں صنف غزل اپنے عروج پر نظرا ٓتی ہے، ان کے کلام میں غالبؔ اور مومنؔ کی نازک خیالی نے نیا روپ اختیار کیا ہے ، حسرتؔ کی شاعری اساتذہ سے متاثرہے لیکن ان کا کلام پڑھتے وقت ہم محسوس کرتے ہیں کہ ان کے لب و لہجہ میں نیا پن ہے، انہوں نے غزل میں ایک نئی لَے چھیڑی ہے جو ان کی انفرادیت کی آواز باز گشت ہے۔‘‘۵؎
حسرت نے ایسی غزلیں تخلیق کی ہیں جو حسین بھی ہیں، جن میں لطافت ،نزاکت ، شیرینی ،سرور ومستی کی کارفرمائی ہے۔ الفاظ کے ذریعہ ایسے پیکر تراشے ہیں کہ ان کی غزلوں میںہنستی کھیلتی اور مچلتی ہوئی زندگی نظر آتی ہے۔زبان کی صفائی ، سادگی اور تازگی کابھی احساس ہوتا ہے ۔نیز یہ کہ حسرت نے فنی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی فکری دنیا آباد کی ہے۔
٭٭٭
۱؎’’جدید غزل پاکستان اور ہندوستان میں‘‘نظیر صدیقی، جدید غزل نمبر، فنون ، لاہور ۔۱۹۶۹ء، ص:۱۵۴
۲؎’’ترقی پسند ادب‘‘علی سردار جعفری، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی،۲۰۱۳۔ص:۱۵۰۔۱۵۱
۳؎’’اردو شاعری پر ایک نظر، حصہ دوئم‘‘ کلیم الدین احمد، بک امپوریم، اردو بازار ، سبزی باغ، پٹنہ،۲۰۱۴۔ص:۴۴۵
۴؎’’جدید اردو شاعری‘‘ عبد القادر سروری، کتاب منزل کشمیری بازار، لاہور،۱۹۴۶۔ص:۲۰۷
۵؎’’اردو غزل‘‘ڈاکٹر یوسف حسین خاں، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، ۲۰۱۰۔ص: ۱۱۴
ریسرچ اسکالر
شعبۂ اردو ، الہ آباد یونیورسٹی،
الہ آباد۔211002