9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
سعیدہ زبیر شیخ
“مرد عورتوں پر قوام ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں ۔۔۔‘(قران ۳: ۳۴)
ایک زمانہ تھا جب لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زمین میں گاڑدیا جاتا تھا ، لیکن ظہور اسلام کے بعدجسطرح عورت کو مقام دیا گیا، اس سے عورت کے رتبے اور تقدس میں اضافہ ہوا، درجات بلند ہوئے۔ اور عورتوں کے پیروں تلے جنت رکھ دی گئی۔ چونکہ اللہ تعالی مصنف ہے اور وہ اپنے بندوں کے عمل اور ان کے کرب کی نوعیت کو بھی جانتا ہے۔ اس لئے عورت کو وہ مقام دے کر ان کی تکریم میں اضافہ کیا۔ عورت نسلِ نوکی معمار ہے۔ اس کے ذمہ معاشی اور اقتصادیات کی ترقی کا بوجھ نہیں ہے بلکہ نسلوں کو صحیح تربیت کرکے انہیں تہذیب اور اخلاقِ حَسنہ سے آراستہ کرنا اور صحیح راستہ دکھانا ہے۔ کسی بھی معاشرے کے اہم وسائل اس معاشرے کے انسانی وسائل (Human resource) ہوتے ہیں۔ اگر انسانی وسائل درست ہوں تو ملک میں سماجی، معاشی وسیاسی ترقی کی مزید راہیں ہموار ہو سکتی ہے۔
“نپولین بنا پارٹ نے کہا تھا کہ تم لوگ مجھے بہترین مائیں دو، میں تمہیں بہترین قوم دونگا۔” بظاہر جملہ تو بہت سادہ ساہے مگر بہت گہری بات کہی۔ جس میں ایک بہترین قوم کا لائحہ عمل بتایا گیا ہے۔ اچھی قوم اچھی ماں سے ہی ممکن ہے۔ جو سماج کی تشکیل میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ کیونکہ اچھا خاندان ملک کے لئے ایک اثاثہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کے اندر بے پناہ صلاحیتیں رکھی ہے۔ تاکہ وہ ایسے نسلیں تیار کرے جو ملک کی باگ دوڑ کو سنبھال سکے۔ اور معاشرے کو صحیح رخ پر لے جاسکے۔ مگر آج عورت کا جو اصل منصب تھا وہ اس سے چھین کر اس کو ایک ایسے مقام پر لایا گیا جہاں اس کی عزت اور عفت محفوظ نہیں ہے ؟ اس لئے کہ آزادی نسواں، خواتین کے حقوق جیسے بلند بانگ نعرے اور ترقی کی دہائی دے کر عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا۔ اور اسے مرد کے شانہ بشانہ کھڑا کر دیا ۔
کیا اس طرح کی آزادی عورت کو مطلوب تھی؟ جس نے عورت سے اس کا اصل وقار، عزت اور اس کے منصب کو چھین لیا ۔ اور اسے بازار کی زینت بنا دیا۔ آج کوئی اشتہار عورت کے تصویر کے بغیر ناممکل ہے۔ ایسا کیوں؟ معاشرہ قوم کی عکاسی کرتا ہے اس سے ہم کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کہاں ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کو اگر دیکھنا ہے تو آپ اس ملک کے ٹی وی چینلز، فیشن اور وہاں کے ہونے والے خبروں کے مختلف بیانات کا تجزیہ کرلے تو سمجھ آجائے گا کہ اونٹ کی کروٹ کس سمت میں ہے۔ اگر ہم اپنے گروپیش نظر دوڑاے تو اندازہ ہو جائے گا کہ آج ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں کبھی نربھیا کی درد بھری کہانی تو کبھی آٹھ سالہ معصوم بچی آصفہ کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور آج اسی فتنہ کی لپیٹ میں مسلم بچیاں مرتد رہی ہے تو کبھی نوجوان نشے میں دنیا ومافیہا سے بے پرواہ ہیں۔ کبھی اولاد اپنے بوڑھے والدین کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔ کئی بے غیرت مرد عورتوں کی کمائی کھا رہے ہیں۔ ہم کس معاشرے کو پروان چڑھارہے ہیں۔ جہاں ہمارے نسلیں ہر روز فتنہ کا شکار ہورہی اور آئندہ نسلوں کا تواللہ ہی محافظ ہے۔ آج خاندان بکھرتے جارہے ہیں۔ اور عورت کو مرد کے مد مقابل کھڑا کیا ہے۔ جب کے دونوں صلاحیتوں کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ عورت کو کمزور بنایا اور مرد کے ذمہ اس کی حفاظت ہے۔
نے پردہ‘ نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
آزا دیء نسواں کا نگہبان ہے فقط مرد
جس قوم نے اِس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اُس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
اللہ تعالی نے مرد کو عورت پر قوام مقرر کیا ہے نہ تو عورت کا پردہ نہ ہی عورت کی تعلیم خواہ وہ تعلیم جدید ہو کہ قدیم اسکی نسوانیت کی حفاظت کر سکتی ہے عورت کو نئی تہذیب کے نسوانی حقوق تحفظ نہیں دے سکتے اور نہ ہی جدید طرز کی مادر پدر آزاد تنظیمیں تحفظ دے سکتی ہیں اللہ نے جس جنس کو اس کے تحفظ کے لیے مقرر کیا ہے وہ مرد ہے یہ خواہ باپ کے روپ میں ہو بھائی یا شوہر کے روپ میں یا بیٹے کے روپ میں یہی مرد اس کی نسوانیت کی حفاظت کر سکتا ہے جس کے حصار حفاظت سے اہل مغرب اسے آزاد کرنے کی فکر میں مگن ہیں۔
آج وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی نسلوں کی حفاظت کرے۔ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ بنایا۔ اور اسے ساتھ ہی ساتھ تمام آزادی بھی دی۔ اگر وہ چاہے تو بزنس کرے اور شریعت کے دائرے میں رہ کر جاب بھی کر سکتی ہے۔ مگر اس کا پہلا دائرہ کار اس کا گھر ہے اگر گھر درست ہوگا تو سارا نظام درست ہوگا۔تاریخ کا رخ بدلنے میں جن خواتین نے اہم کردار سرانجام دیا ہے ان میں سرفہرست اور سنہری حروف سے لکھا گیا مقدس نام ام المئومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا کا ہے۔ جو عرب کی معزز ترین اور دولت مند بزنس خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ علم و فضل اور ایمان میں بھی نمایاں مقام رکھتی تھی۔ اور کس طرح اپنے مال ودولت، حسن اخلاق اور ایثار و قربانی کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی۔ اور ایک ایسا خاندان تشکیل کیا جس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہے کہ امت کو ایسی مائیں دیں۔ جو تقوی اور کردار میں اعلی نمونہ ہے۔ اور ہمیں چاہیے کہ ہم ان کو اپنا رہنما بنائے اور ان کے نقش قدم پر چل کر دین و دنیا دونوں میں فلاح پائے۔ اور اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرکے انہیں صالح بنائے تاکہ وہ ہمارے لئے صدقہ جاریہ بن سکے ۔ آمین
[email protected]
سعیدہ زبیر شیخ ، اندھیری : ممبئی