علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی

0
271

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

حفیظ نعمانی

سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے ملک کے موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام پر زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نظام ہندوستان کے لئے موزوں نہیں ہے۔ 66 سال میں ملک میں جتنے الیکشن ہوئے ہیں انمیں ہر الیکشن نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ بھونڈا مذاق ہے۔ الیکشن تو وہ ہونا چاہئے کہ ہر ووٹ دینے والے کو یہ معلوم ہو کہ وہ کیسی حکومت کیلئے ووٹ دے رہا ہے؟ ملک کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے جن میں تعلیم مردوں کے مقابلہ میں چوتھائی بھی نہیںہے۔ اور سماج کے بندھنوں کی پکڑ اتنی مضبوط ہے کہ کروڑوں عورتوں میں لاکھ دو لاکھ بھی ایسی نہیں ہوں گی کہ ووٹ دیتے وقت ان کے سامنے شوہر اور باپ بھائی کے بجائے پارٹی اور اس کے نظریات ہوں۔
ووٹروں کے اندر نظریات سے واقفیت اور ان کو سامنے رکھ کر ووٹ دینا تو دور رہا ہے خود پارٹیوں کا یہ حال ہے کہ وہ پان کی دُکان کی طرح بن جاتی ہیں۔ اترپردیش میں وہ کون ہے جسے یہ نہ معلوم ہو کہ سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے اپنے چچا شیوپال کو پارٹی کا صوبائی صدر نہیں بنایا تو انہوں نے اپنی پارٹی بنالی۔ ابھی اس نئی پارٹی کا منڈن بھی نہیں ہوا تھا کہ تحصیل کنڈہ کے زور آور جاگیردار راجہ بھیا نے لکھنؤ آکر ایک پارٹی کا اعلان کردیا۔ پارلیمنٹ کے الیکشن میں ابھی چھ مہینے باقی ہیں۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اور کون ورکر کس پارٹی کے صدر سے ناراض ہوکر اپنی پارٹی کا اعلان کردے؟ اور اس سے زیادہ پارلیمانی جمہوریت کو مذاق بنانے کے مجرم وہ ہیں جن کی مرکز اور اترپردیش میں حکومت ہے انہوں نے شیوپال کو نئی پارٹی کا یہ انعام دیا کہ انہیں مایاوتی کا خالی بنگلہ عطا کردیا صرف اس لئے کہ وہ بی جے پی کے خلاف پڑنے والے ووٹوں میں سے کچھ ووٹ کاٹ لیں گے اور راجہ بھیا بھی ملائم سنگھ کے دوست ہیں وہ بھی ملائم سنگھ کے ووٹ کاٹ لیں اس کے لئے وہ بنگلہ رہنے کے لئے دے دیا جو اکھلیش سے خالی کرایا تھا۔
ملک کے دستور کے بننے کے بعد 1952 ء میں پہلا جنرل الیکشن ہوا تھا اس کے بعد دستور کے مطابق شہروں کے میونسپل الیکشن ہوئے اس وقت ہم سمجھ بوجھ اور دوڑ بھاگ کے قابل ہوچکے تھے۔ اس الیکشن میں اپنے حلقہ سے ہمارے بہنوئی کھڑے تھے۔ ان انتخابات میں سیاسی پارٹیاں اب دلچسپی لینے لگی ہیں اس وقت صرف جو چیئرمین بننا چاہتا تھا اس کی بنائی ہوئی عارضی پارٹی میدان میں ہوتی تھی۔ اس وقت دو روپئے کے گلابی نوٹ کے سائز کا اس رنگ کا بیلٹ پیپر ہوتا تھا جسے اپنے امیدوار کے بکس میں ڈالنا ہوتا تھا۔ ہم نے خود دیکھا کہ ایک صاحب نے کہا کہ ہم نے جسے ووٹ دینے کے لئے پیسے دیئے ہیں کیا خبر وہ اندر جاکر کس کے ڈبہ میں ووٹ ڈال دے۔ فوراً اس کا علاج سوچا گیا اور جس پر شبہ ہوا اس سے کہہ دیا کہ ووٹ کی پرچی ڈبہ میں نہ ڈالنا جیب میں رکھ کر لے آنا اور ہم سے دو روپئے لے کر ہمیں دے دینا اس طرح نہ جانے کتنوں نے دو دو روپئے میں ووٹ بیچے (1953 ء میں دو روپئے میں ایک گھر کا ایک دن کا خرچ چل جاتا تھا۔)
جسٹس کاٹجو کو جو خیال آیا وہ بہت اہم ہے لیکن اس کا علاج کیا ہے؟ انہوں نے چین کا ذکر کیا ہے جس نے ہماری آزادی کے دو سال کے بعد آزادی حاصل کی لیکن کاٹجو صاحب اس فرق کو کیوں بھول گئے کہ چین نے آزادی حاصل کی تو اس وقت آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں کوئی ایک ایسا نہیں تھا جس نے کسی نہ کسی شکل میں قربانی نہ دی ہو اور آزادی حاصل کرلینے کے بعد انہیں یہ اندازہ نہ ہو کہ انہوں نے کتنی جانیں قربان کیں اور کتنے گھر ویران کئے۔ اس کے برعکس ہندوستان نے جو آزادی حاصل کی وہ انہیں مل گئی۔ ملک پر انگریزوں کی حکومت تھی اور وہ دوسری جنگ عظیم میں ایسے ٹوٹے تھے کہ کھڑے بھی نہیں ہوسکتے تھے اور ان کے اندر اتنی طاقت بھی نہیں رہ گئی تھی کہ وہ اپنے ملک کو ہی سنبھال سکیں۔ انہوںنے فیصلہ کیا کہ جتنے ملک بھی ان کی حکومت میں ہیں ان سب کو آزاد کرکے اپنے ملک کو بنانے اور سنوارنے پر ساری توجہ دیں گے اور پہلے انہوں نے فیصلہ کیا کہ 1948 ء میں ہندوستان کو آزاد کردیں گے لیکن بعد میں انہیں اندازہ ہوا کہ اگر ہوسکے تو ایک سال اور کم کردیا جائے اور انہوں نے 15 اگست 1947 ء کا دن مقرر کردیا اور رات کے بارہ بجے ہندوستان کو آزاد کردیا گیا۔
ہمیں نہیں معلوم کہ 1947 ء میں کاٹجو صاحب کی عمر کیا تھی۔ ہم اپنی بات جانتے ہیں کہ ہم 15 سال کے تھے۔ دن میں دوستوں کے ساتھ یہ فیصلہ کیا تھا کہ جشن میں رات کو حصہ لیں گے لیکن نہ اس وقت سڑکیں روشن تھیں اور گھوڑے تانگہ کے علاوہ اپنی سائیکل سواری کیلئے تھیں۔ عشاء کے بعد ہر ایک کو کوئی نہ کوئی عذر یاد آگیا اور سب جاکر سوگئے۔ پورے ملک میں مرکزی شہروں کے مرکزی مقامات میں لوگ جمع ہوئے اور زندہ باد کے نعرے لگاکر گھر آگئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید پورے لکھنؤ میں افسروں، اخباروں اور پولیس ہیڈکوارٹروں کے علاوہ عام آدمی ایسے شاید 50 بھی نہیں ہوں گے جن کے پاس ریڈیو ہو۔ ایسی بے سر و سامانی میں کیا آزادی اور کیا جشن آزادی؟
اس وقت ملک میں کانگریس کے علاوہ پرجا سوشلسٹ پارٹی کمیونسٹ پارٹی اور کسی حد تک ہندو مہاسبھا تھی مسلمانوں کے مطالبۂ پاکستان کی منظوری کے بعد مسلمان اپنے گھروں میں قید ہوگئے تھے آزادی سے پہلے ہر شہر اور بستی میں مسلم لیگ نے جتنا شور مچایا تھا وہ سب ختم ہوگیا تھا اب ہر مسلمان جو پاکستان بنوا رہا تھا مگر گیا نہیں تھا وہ مجرم بنا بیٹھا تھا اور ہندوئوں کو آزادی ملی تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کیا مل گیا؟ 1952 ء میں جب ہر 22 سال کے بالغ مرد اور عورت ووٹر بن گئے تو اس کے بعد سے خرید و فروخت شروع ہوگئی۔ ملک کے حکمراں طبقہ کے سامنے جو طرز حکومت تھا وہ انگریزوں کا تھا انہوں نے نہ یہ سوچا کہ ملک کے تقاضے کیا ہیں اور نہ یہ سوچا کہ قوم کو نئی زندگی کیسے دی جائے۔ اس کے ذمہ دار نہرو ہیں کہ ملک کو جیسے لارڈمائونٹ بیٹن چلا رہے تھے اس کی کاربن کاپی کرکے سب کو دے دی۔ صدر کا محل پارلیمنٹ، عدالتیں، ججوں اور وکیلوں کا لباس کورٹ کی زبان پولیس مینول جیل مینول کسانوں کے ساتھ زمینداروں والا برتائو پٹواری جو لکھ دے وہ حرفِ آخر۔
2014 ء کو یہ اُمید جاگی تھی کہ ایک عام آدمی کے ہاتھ میں حکومت آئی ہے تو وہ حکومت کو بھی عام آدمی کی امانت سمجھے گا مگر دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس نے تو ان سے بھی زیادہ مایوس کیا جب یہ سنا کہ وزیرداخلہ کو دوسرے دن اخبار سے معلوم ہوتا ہے کہ وزارت داخلہ نے یہ کیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ انہوں نے جان بوجھ کر کیا ہے یا انہیں بھی اس کے علاوہ صرف خود نمائی آتی تھی اور اس خود نمائی کے چکر میں سیکڑوں نے خودکشی کرلی کتنے ہی نوٹ بندی کی چھری سے قتل ہوگئے اور کاروبار کو جی ایس ٹی کیا گیا۔ اور انہوں نے حکومت کو پنجے میں ایسا جکڑا ہے کہ کسی نے چھیننے کی کوشش کی تو اللہ جانے ملک کا کیا ہوگا؟ ایسے میں اگر کوئی علاج ہے تو وہ فوج ہے لیکن یہ کام کون کرے گا؟
Mobile No. 9984247500
خخخ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here