عزت کے خاطر

0
279

عامر نظیر ڈار

میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ اس کو گھر سے باہر جانے مت دیا کرو۔گھر سے باہرنکلتے ہی یہ آزاد پرندے کی طرح پر پھیلانا شروع کر دیگی۔اسے کہہ دو کہ اس گھر میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
بیٹا تم یہ کیا کہہ رہے ہو ؟
امی جی آپ چپ رہئے،یہ سب آپ کے لاڈپیار کا ہی نتیجہ ہے اگر اپ نے اس کو اتنا پیار نہ دیاہوتا ،تو یہ سب کچھ آج ہمیں نہیں دیکھنا پڑھتا ۔
بیٹا تمہاری بات تو بالکل درست ہے مگر اب کیا کیا جائے ،غلطی تو اسے ہو چکی ہے۔ اب بچی کو مار تو نہیں سکتی ہوں ،ہاں البتہ اس کو سمجھایاجاسکتا ہے کہ آئندہ سے ایسی غلطی نہ کرے۔
امی جی اپ بھی کتنی نادان ہیں ۔آپ اس کو غلطی کہتی ہیں ،اگر یہ غلطی ہوتی تو میں اس کو معاف کر دیتا مگر اس نے جو کیا وہ معافی کے لایق نہیں ہے ۔اس نے ہمارے پورے خاندان کا نام خاک میں ملا دیا ہے ۔
بیٹا جو ہونا تھا وہ توہو گیااب یہ سب کچھ کرنے سے کیا فائدہ،میری بات مانو اب اس کو گھر میں آنے دو،باہر کتنی د ھیر تک کھڑی رہے گی۔پڑوسیوں کے یہاں تو نہیں جاسکتی ہے۔
امی جی آپ چاہتی کیا ہیں ؟آج آپ کو فیصلہ کرناہی پڑے گا
’’بیٹاکون سا فیصلہ‘‘
یہی کہ آپ کو بیٹا چاہئے یا پوتی ۔
بیٹا تم یہ کیا کہہ رہے ہو مجھے تو آپ سب چاہئے ،میں اپنے پورے خاندان کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتی ہوں ۔اچھا میری ایک بات سن لو ۔بیٹی کو اندرلے کرآئوں ،اس سے بھی پوچھے کہ آخر اس نے یہ سب کچھ کیوں کیا ۔وہ باہر برآمدے پے بیٹھی کب سے اس انتظارمیں ہے کہ اندر سے اسے کوئی لینے کے لئے آئے گا ۔جائو بیٹا اسے اندر لے کے آو۔
میں ………………ہرگز نہیں ۔آپ کو اس کی ضرورت ہے آپ ہی لے کے آجائیے۔
ہاں مجھے اس کی ضرورت ہے مگر اسے بھی میری ضرورت ہے ۔میرے سوا اس کا اس دنیا میں اور کون ہے جو اس کے دکھ درد کو سمجھ سکے ۔اس کی ماں تو اس کو پانچ سال کی عمر میں ہی چھوڑ کے چلی گی اور تم نے اس کی یادوں کے سہارے اپنی زندگی جینے کا فصیلہ کر لیا۔اور سارا بوجھ میرے کاندھوں پے ڈال دیا ۔اب مجھ سے سارے گھر کی ذمہ داریاں سنبھالی نہیں جاتیں۔
امی جی ایسا آپ سوچتی ہیں، کاش اسے بھی ان باتوں کا خیال ہوتا ۔
تو پھر بیٹا اس کو اندرلے کر آئوں۔؟
آپ ہی لے کر آئیگا،میں تو اس کی شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا ۔
بیٹی اندر آو ،میں نے تمہارے ابا سے بات کرلی ہے۔
’’دادی ابا غصہ تو نہیں کرینگے ‘‘
غصہ وہ تمہارا سر کاٹ ڈالینگے ،اندر تو چلوتم
’’دادی میں تو ڈر رہی ہوں ،میں اندر نہیں آئوں گی ۔‘‘
کیوں اس وقت ابا کا ڈر نہیں لگا تھا ،اس وقت اس کی عزت کا خیال نہیں آیا تھا ۔
’’دادی میں نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں کیا ہے اور جو کیا ہے اس پر میں بہت شرمندہ ہوں ،مجھے معاف کر دیجئے۔آئندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں ۔‘‘
اب چپ چاپ چلو وہ سامنے کچن میں بیٹھاہواہے۔اور ہاں ایک بات کان کھول کے سن لو وہ جو کچھ بھی تم سے پوچھے گاصاف صاف جواب دینا اور اگر تم نے اس کے سامنے جھوٹ بولا اور پھر اس کو سچ کا پتہ چل گیا تو اس وقت وہ حقیقت میں تمہارا سر کاٹ ڈالے گا ۔جائو وہ تمہارا انتظار کر رہا ہے ۔
’’اسلام علیکم ابا جان‘‘
مر گیا تمہارا ابا اور تم نے اس کو مار دیا۔
’’ابا جان مجھے معاف کردیجئے گا،آئندہ ایسا نہیں کروں گی ۔‘‘
آئندہ …… تم کیا سمجھتی ہو کہ میں تم کو یہ سب کرنے کا ایک موقع اور دوں گا ۔اسے پہلے ہی میں تم کو کاٹ کے جہلم میں پھیک ڈالوں گا۔
’’آبا جان میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں میںآپ کو دوبارہ کبھی بھی اس طریقے کی شکایت کا موقع نہیں دوں گی ۔پر مجھے ایک بار معاف کر دیجئے گا۔
امی جی اسے پوچھو آخر اس نے یہ سب کچھ کیوں کیا ،کیا ہم نے اسی دن کے لئے اس کوجنم دیا تھا، اسی دن کو دیکھنے کے لئے لاکھوں مصیبتوں سے لڑ کراس کی پرورش کی تھی۔
اب اسے بھی بولنے کا موقع دو گے یا خود ہی بولتے رہوگے ۔
ہاں بیٹی بولو کیوں کیا تم نے یہ سب ؟
’’دادی میں نے کچھ نہیں کیا میں سچ بولتی ہوں ۔‘‘
اچھا اور جو ہم نے سنا کیا وہ جھوٹ تھا ۔
’’نہیں آپ نے جو بھی سنا وہ سب سچ ہے مگر یہ سب میں نے مجبوری میں کیا ۔‘‘
ایسی کون سی آفت آئی تھی کہ تم اپنا منہ کالا کرنے کے لئے مجبور ہوگئیں۔تم چپ کیوں ہو جواب دو۔؟
’’ابا جان میں نہیں بتا سکتی ‘‘
کیوں………..کیوں نہیں بتا سکتی ہو ،اس کی وجہ کیا ہے ۔
’’آپ وجہ سننابرداشت نہیں کر پائینگے ابا جاں۔‘‘
کیوں ایسی کیا بات ہے جو میں برداشت نہیں کرپائوں گا ؟
کیا آپ حقیقت میں سنا چاہتے ہیں ؟
ہاں کیوں نہیں ۔میں جاننا چاہتا ہوں آخر تمہارے ساتھ ایسا کیا ہوا ۔
ابا جان میں کیسے…………
دیکھو رونا بند کرو اور صاف صاف بتاو کیا ہوا ۔
’’ابا جان اس دن جب میں اپنی پوسٹ گریجویشن کی مارکس شیٹ لینے کے لئے یونیورسٹی جا رہی تھی تو راستے میں آپ کے دوست جس کو آپ ہم سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں اس کو نہ صرف دوست بلکہ اپنا بیٹا مانتے ہیں ۔انہوں نے جب مجھے سڑک پر سومو کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا تو وہ گاڈی لے کر میرے پاس آگئے ۔انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کہاں جارہی ہو تو میں نے کہا کہ میں یونیورسٹی کسی کام کی وجہ سے جارہی ہوں تو وہ ہستے ہوئے کہنے لگے ارے چھوٹی مجھے بھی یونیورسٹی کے آس پاس ہی جانا ہے ۔آجاو گاڑی میں بیٹھ جاو میں تم کو یونیورسٹی چھوڑ دیتا ہوں ،حالانکہ میں نے ان کو پہلے منا کیا تھا مگر وہ نہیں مانے ،راستے میں انہوں نے چائے کے لئے گاڑی ایک جگہ کھڑی کر دی اور ایک ہوٹل میں داخل ہوئے انہوں نے ویٹر سے چائے کے لئے کہا اور خود میرے پاس سے اُٹھ کر اس ہوٹل کے دوسری طرف چلے گئے ۔میں نے جب ان سے پوچھا کہ آپ کہاں جارہے ہیں تو کہا کہ میں یہیں ہوں کسی سے ملنا ہے تم یہیں میرا انتظار کر لینا اور خود چلے گئے ،تھوڑی دھیر کے بعد ویٹر میرے لئے چائے لے کر آیاتو میں نے اس سے بھی پوچھا کہ یہ جو انکل میرے ساتھ تھے ان کو یہاں کن سے ملنا تھا وہ بولا مجھے نہیں معلوم شاید بڑے صاحب سے ملنا ہوگا ،میں نے پو چھا کہ یہ بڑے صاحب کون ہیں ،کہنے لگااس ہوٹل کے مالک ، یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور میں نے چائے پینی شروع کی۔مجھے یونیورسٹی پہنچنے میں دیر ہو رہی تھی میں نے ویٹر سے آواز دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ میرے انکل کو اطلاع دے سکتے ہوکہ مجھے دیر ہو رہی ہے مگر اس نے میری باتوں کا دھیان نہیں دیا اور میں خود اُٹھ کر ان کو دیکھنے گئی ،میں جوں ہی اس ہال سے باہرلان کی طرف آئی سامنے سے انکل مجھے دیکھائی دئے ان کے ساتھ ایک اور آدمی تھا جو قد میں انکل سے بھی لمبا تھا ۔انکل نے مجھے ان سے ملایا اور کہا کہ یہ میرے ایک عزیز دوست کی بیٹی ہے ۔میں نے ان کو راستے میں دیکھا تھا ان کو یونیورسٹی جانا تھا اور اتفاق سے مجھے بھی وہیںجانا ہے اسی لئے میں ان کو اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں ۔وہ آدمی مجھے نہ جانے کیسے دیکھ رہا تھا اور وہ ہسنے لگا پھر انکل سے کہنے لگا آتے وقت بھی مجھ سے مل کے ہی جانا مجھے تم سے کوئی ضروری بات کرنی ہے ۔انکل نے اوکے کہا اور پھرہم وہاں سے نکل آئے ۔پھر انکل نے راستے میں کسی بھی جگہ گاڑی نہیں روکی کیونکہ میں نے ان سے کہا تھا کہ مجھے کافی دیر ہوگئی ہے مجھے ایک بجے سے پہلے پہلے وہاں پہچنا ہے اگر میں اس سے پہلے وہاں نہیں پہنچ پائی تو میرا کام نہیں ہوپائے گا ۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم بے فکر رہو میں تم کو صحیح وقت پر وہاں چھوڑوں گا ۔آخر کار انہوںنے مجھے بارہ بجے یونیورسٹی کے بڑے گیٹ پر چھوڈ دیا ۔اور کہنے لگے ’’چھوٹی تم کو یہاں کتنا وقت لگے گا ۔‘‘میں نے کہا ایک دو گھنٹے کیوں انکل جی۔کہنے لگے ’’مجھے بھی اتنا ہی وقت لگے گا یہاں ،تم میرا انتظار کر لینا میں تم کو خود لے کے تمہارے گھر جائوں گااور تمہارے ابا سے بھی ملوں گا کافی دنوں سے میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی ۔‘‘ میں تو بہت خوش ہوئی تھی کہ آج میں انکل کی گاڑی سے گھر جاوئنگی ۔مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ میرے ساتھ آج کیا ہوگا اگر زرا سا بھی احساس ہوجاتا تو میں ہرگز بھی ان کی گاڑی میں نہ یہاں سے وہاں جاتی اور نہ ہی وہاں سے ان کے ساتھ گھرواپس آتی ،میں تو یہی سمجھ رہی تھی کہ یہ میرے ابا جیسے ہیں مگر وہ ایک دلال ہوں گے یہ مجھے قطعًا پتہ نہیں تھا ۔‘‘
بیٹی کیا،کیا اس نے تمہارے ساتھ…………؟ مجھے بتاو میں اس کا خون کر دونگا ۔
ابا جا ن…………اس نے…………
بیٹی بولو ، ڈرو مت ،میں تمہارے ساتھ ہوں ۔
’’ابا جان وہ شام کے تین بجے دوبارہ گاڑی لے کے گیٹ پر آگئے، میں یونیورسٹی کے اسی گیٹ پر ان کا انتظار کر رہی تھی اصل میں انہوں نے کچھ وقت پہلے ہی مجھے فون کیا تھا کہ آپ میرا اسی جگہ انتظار کر لینا میں تھوڑی ہی دیر میں وہاں پہنچنے والا ہوں ۔آخر کار وہ آگئے اور میں ان کے ساتھ وہاں سے نکلی ۔اور وہ دوبارہ راستے کے اسی ہوٹل پر رکے اور مجھے سے کہنے لگے چلو دوبارہ یہاں چائے پیتے ہیں ویسے بڑے صاحب نے کہا بھی تھا کہ واپسی میں دوبارہ مجھ سے مل کے جانا دیکھتے ہیں کیا کام ہوگا ،مگر اب کی بار وہ مجھے اس بڑے ہال کے بجائے دوسری جانب لے گئے جہاں وہ بڑے صاحب بیٹھتے تھے۔اب خود بڑے صاحب نے چائے کے لئے گھنٹی بجائی ۔میں ایک طرف سوفو پربیٹھی تھی اور انکل بڑے صاحب کے سامنے بیٹھ گئے ۔تھوڑی ہی دیر کے بعد ویٹر چائے لے کر آگیا ۔اس نے چائے ہم تینوں کے سامنے رکھ دی اب وہ جانے ہی والے تھے کہ بڑے صاحب نے اس کو روک کر کہا ۔’’سنا اگر مجھ سے کوئی ملنے آیا تو ان کو وہیں روک لینا اور کہنا کہ بڑے صاحب کی میٹنگ چل رہی ہے۔میں نے جوں ہی چائے پینی شروع کی تو مجھے اس میں چینی کم لگی میں نے کپ نیچے رکھ دیا تو بڑے صاحب خود ہی کہنے لگے چینی کیسی ہے اس میں ،میں نے بھی بلاتکلف کہہ دیا کہ تھوڑی سی کم ہے تو وہ خود ہی اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اور اپنی الماری میں سے سفید رنگ کی ایک گولی نکال لی اور خود ہی میرے پاس آکر میرے پیالے میںڈال دی ،پھر میں نے چمچ سے چائے کو تھوڑا سا گھومایا اور پینی شروع کی لیکن اس کے بعد مجھے ایسا لگا جیسا کہ میرا سر گھوم رہا ہے اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں کہ میںکہاں تھی اور کیا کر رہی تھی ۔‘‘
کیوں ایسا کیا ہوا ؟
’’دادی مجھے اس کے بعد کچھ معلوم نہیں ،بس مجھے اتنا ہی پتا ہے کہ میں نے جب چائے کے ایک دو گھونٹ پی لئے تو مجھے نیند سی آنے گی۔ اور پھر مجھے جب ہوش آیا اور میں نے جو اپنی حالت دیکھی۔تومیں چلانے والی تھی کہ انکل نے میرے منہ کو ہاتھ سے بند کیا اور مجھے مارنے لگے،میں رونے لگی اور وہ مجھے مارتے رہے ۔‘‘
تو کیا اسی نے تمہارے ساتھ وہ سب کچھ کیا ؟
’’نہیں ابا جان …………… مگر…………….. ‘‘
رو مت تم مجھے پوری بات بتا ئو آخر تمہارے ساتھ کیا ہوا ۔
’’وہ میرے منہ کو ہاتھ سے بند کئے ہوئے تھے ۔میں نے جب پورے زور کے ساتھ ان کے ہاتھ کو اپنے منہ سے ہٹانا چاہا تو انہوں نے چلاتے ہوئے کہا آواز مت نکالنا ورنہ یہیں زندہ دفن کر دوں گا ۔میں ڈر کی وجہ سے منہ نہیں کھول پائی ۔بس میں نے ان سے اتنا کہا کہ میں پلیس کو تمہاری اس حرکت کے بارے میںبتاوں گی اور میرے ابا تم کو چھوڑینگے نہیں ۔تو اس نے ایک دفعہ پھر مجھے مارنا شروع کیا ۔اور وہ ہس ہس کر کہنے لگا کہ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہو بلکہ تم آج سے وہی کرو گی جو میں تم سے کہوں گا ۔میں نے کہا ہر گز نہیں ۔لیکن انہوں نے جب میرے سامنے اپنا موبائیل آن کیا اور مجھے ایک ویڈیو دیکھانے لگے جس میں ،میںپوری طور پر برہنا تھی اور ان کے بڑے صاحب مجھ کو نوچ رہے تھے ۔وہ مجھ کو وہاں سے اُٹھا کر گاڑی میں لے کے آگئے اور کہنے لگے اگر تم نے کسی کے سامنے اپنا منہ کھولا تو میں اس ویڈیو کوسوشل میڈیا پر ویرل کروں گا ۔میرا کیا ہے میں کچھ ہی دن بعد جیل سے چھوٹ جائوں گا مگر تمہارے ابا کسی کو منہ دیکھانے کے لائق نہیں رہنگے ۔اگر تم کواپنی اور اپنے ابا کی عزت کا کچھ خیال ہے تو اپنے منہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دینا اور آج سے میں جو کچھ کہوں گا تم کو وہی کرنا پڑے گا۔اور تب سے وہ میرے جسم سے ایک فٹ بال کی طرح کھیل رہے ہیں۔ وہ جب چاہتا ہیںمجھے بولاتے ہیں اورموٹے چوڑے ،لمبے چھوٹے ،کالے سفید آدمیوں کو مجھ پر چھوڑ کر اپنا جیب بھر لیتے ہیں اور میں کچھ نہیں کر پاتی تھی۔ایک گناہ کو چھپانے کے لئے مجھے ہزاروں گناہ کرنے پڑے ۔لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ آخر کار میرے سارے گناہوں کا ایک ساتھ پردہ اُٹھ جائے گا ‘‘
’’ابا جان ،دادی مجھے معاف کرنا ،حالانکہ میں معافی کے لایق نہیں ہوں اور نہ ہی اس گھر کے لائق ہوں ۔لیکن میں نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں کیا ۔‘‘
نہیں بیٹی تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے ۔غلط تو میں ہوں جو اپنی بیٹی کو سمجھ نہ سکا ،حقیقت جانے بغیر تم کو گھر سے باہر نکال رہا تھا ،اور تم ساری ازیتوں کو میری عزت کے خاطر برداشت کرتی رہی ۔بیٹی میں تمہارے عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب تک میں اس پالتو کتے کو جس کو میں نے برتن میں دودھ بھر بھرکے پلایا تھاچاہئے وہ دنیا کے کسی کونے میں بھی کیوں نہ چھپا بیٹھا ہو اس کو پھانسی کے پھندے پر پہنچا کر ہی چین کی سانس لوں گا۔
بیٹی تم اپنا اور اپنی دادی کا خیال رکھنا ،میںدیکھ کے آتا ہوں وہ پالتو کتا اس وقت کہاں دم ہلا رہا ہے ۔
ریسرچ اسکالر ،شعبہء اردو ،دہلی یونیورسٹی

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here