ڈاکٹر محمد ہارون رشید
9956779708
یہ امر تعجب خیز ہے کہ اردو شعرو ادب کی تاریخ میں نعتیہ شاعری کو وہ توجہ نہیں دی گئی جو اس کا حق تھا۔یہی وجہ ہے کہ اردو تنقید نے بھی نعتیہ شاعری پر توجہ مبذول کرنا کسر شان کے مترادف سمجھا۔حالانکہ اگر کلاسیکی تنقید نگاروں کے امام افلاطون کی ریاست پر نظر ڈالیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس نے بھی شعریات کو اسی لئے ریاست سے باہر کیا تھا کیونکہ شاعری کو وہ مخرب اخلاق فن تصورکرتا تھا۔جو شاعری مخرب اخلاق نہ ہو اس کو اسے ریاست میں رکھنے میں کوئی عار نہیں تھا۔اس لئے اس نے صاف لکھا کہ جو شاعری ہماری دیوی دیوتاؤں کی تعریف میں کی جاتی ہے اس کو ریاست میں میں رکھے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ افلاطون کے نظریات نعتیہ شاعری کے خلاف نہیں تھے ۔اگر اردو تنقید کا جائزہ لیا جائے تو مولانا الطاف حسین حالی کو تنقید کا با قاعدہ امام کہا جاتا ہے ۔انہوں نے بھی اپنی مقدمہ شعرو شاعری میں شعر کی ماہیت، منصب اور افادیت، شاعری اور سماج کے رشتے، شعری اصناف کی اصلاح اور مطالعہ شعر میں زبان،اسلوب بیان اور لفظیات کی اہمیت پر بڑی خوبی اور صراحت کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے لیکن صنف نعت پر کوئی بحث نہیں کی۔ جب کہ وہ خود بھی نعتیہ شاعری کے بہترین نمونے چھوڑ گئے ہیں۔
اس متعصبانہ رویے کے با وصف بھی اردو نعتیہ شاعری زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ و تابندہ رہنے والی ہے۔کیونکہ نعت وہ شاعری ہے جس میں خلاق دو عالم کے محبوب سرکار دو عالم کی تعریف اور ان کی سیرت کا بیان کیا جاتا ہے۔یہ وہ صنف ہے جس کا تعلق اس ذات گرامی سے ہے جس کی تعریف خود اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور اسی خالق دو عالم نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے محمدﷺ ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے۔جس کے تذکرے کو اللہ تعالیٰ نے خود بلند کر دیا ہو اس کا ذکر خواہ نثر میں کیا جائے یا نظم میں وہ نثر و نظم دنیا میں کبھی زوال پذیر نہیں ہو سکتی۔نعت کہنا ایک سعادت ہے اور خدا کا یک کرشمہ بھی ۔کیونکہ رسول اسلام محمد بن عبدللہ کا تذکرہ ان کی با قاعدہ دنیا میں بعثت سے پہلے بھی ہو رہا تھا جس کے گواہ وہ تمام صحیفے اور کتابیں ہیں جو اللہ نے مختلف قوم کے انبیا پر نازل فرمائے ۔اور خود قرآن کریم کی آیات بھی ۔صرف یک حوالہ کافی ہو گا۔اٹھائیسویں سپارے کی سورۂ الصف مین اللہ تعالی نے حضرت عیسیٰ ؑ کا قول یوں نقل کیا ہے۔’’واذ قال عیسی ابن مریم یا بنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم مصدقا لما بین یدی من التوراۃ و مبشراٍ برسول یاتی من بعدہ اسمہ احمد‘‘خود نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی نعت کہی جو تاریخ کی کتابوں میں مع الفاظ کے درج ہے۔جس کا ذکر راقم نے نعت کے تعلق سے اپنے دوسرے مضمون میں کیا ہے اور وہ الفاظ بھی حوالے کے ساتھ نقل کئے ہیں۔اور یہ بھی سچ ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی نعت نہایت شوق و ذوق اور ادب کے ساتھ نہ صرف سنتے تھے بلکہ نعت کہنے والے کو منبر پر بٹھا تے تھے اور خود سامعین کے ساتھ جلوہ افروز ہوتے تھے۔یہ بھی ثابت ہے کہ آپ اپنی مدح میں شعر کہنے والے کو نوازتے بھی تھے۔اس لیئے بعض محفلوں میں یہ سنت اب بھی قائم ہے کہ سامعین صف بستہ ادب سے بیٹھتے ہیں اورمداحانِ نبی کو مختلف طریقوں سے نوازتے بھی ہیں۔
اردو میں نعتیہ شاعری کے آغاز اور ارتقا پر بھی راقم بہت کچھ لکھ چکا ہے جسے دوہرانے سے گریز کرتے ہوئے سیدھے نفس مضمون یعنی ڈاکٹر عامر قدوائی کی نعتیہ شاعری کی طرف توجہ مبذول کیا جانا مناسب خیال کرتا ہے۔ڈاکٹر عامر قدوائی ردوکی بہاریہ شاعری میں ایک جدید لب و لہجہ کے منفرد شاعر کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں ۔ درس و تدریس کے سلسلہ سے کویت میں مقیم ہیں اور وہاں بھی انھوں نے اردو شعرو شاعری کا چراغ روشن کر رکھا ہے۔با قاعدہ ایک نتنظیم بنا کر اردو کی خدمت کر رہے ہین۔ہر دوسرے برس ایک عالمی مشاعرہ کے انعقاد بھبی کرتے ہیں۔اور انہی شعرا کو مدعو کرتے ہیں جو فی الواقعہ شاعر ہیں۔خود غزل اور نظم دونوں ہی اصناف میں ان کو یکساں قدرت حاصل ہے۔اللہ تعالی ٰ نے انھیں بھی نعت کہنے کی سعادت بخشی ہے ۔ان کی نعتیں کبھی کبھی شائع ہوتی ہیں جنھیں راقم نے صرف دیکھا ہی نہیں ہے بلکہ انھیںبغورپڑھا بھی ہے۔ ملاحظہ ہوں یہ اشعار:۔
نظر اٹھاؤں تو موجود ہے وہ ہر جانب
نظر جھکاؤں تو وہ جسم و جاں میں رہتا ہے
شجر میں پھول میں قوس و قزح میں رہتا ہے
بدل کے روپ وہ میرے جہاں میں رہتا ہے
وہ اثر تھا آپ کے اخلاق کی شمشیر کا
دور تک کاٹا ہے لوہا کفر کی زنجیر کا
سنت حضرت محمد چھوڑ کر تم کچھ نہیں
لاکھ دامن تھام کر بیٹھو میاں تدبیر کا
یوں مسلماں ہیں مگر چھوڑے ہوئے قرآن کو
اور رونا رو رہے ہیں آج کل تقدیر کا
آپ کے آگے جھکے ہیں خود بہ خود شاہوں کے سر
یہ بھی پہلو دیکھئے کردار کی تصویر کا
پہلے دو شعر حمد کے ہیں جن میںخالق دو جہاں کی تعریف کی جا رہی ہے۔اصل میں جس حمد سے یہ اشعار ماخوذ ہیں وہ حمد مسلسل ہے ۔اور ہر دوسرا شعر اپنے پہلے شعر سے معنوی طور پر مربوط ہے ۔یہاںخدا کے بارے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ لامکاں میں رہتا ہے لیکن روپ بدل کے وہ ہماری دنیا کے ہر خوبصورت نظاروں میں بھی رہتا ہے۔خدا کے روپ بدل کر رہنے سے یہ بحث اٹھ سکتی ہے کہ وہ خود رہتا ہے یا کہ اس کے جلوے منور ہیں۔اور یہ بحث ہمہ اوست اور ہمہ از اوست کی پیچیدہ وادیوں میں داخل ہو جائے گی اس لئے ہم عامر قدوائی کی نعتیہ شاعری کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ غالب کی زمین میں کہے گئے یہ نعتیہ اشعار عامر قدوائی کے اسی لہجہ میں ہیں جن کے لئے وہ اپنی مستحکم شناخت رکھتے ہیں۔کفر کی زنجیر کو دور تک کاٹنا اپنے آپ میں نیا پن ضرور رکھتا ہے۔اور یہ لفظ’’دور ‘‘ہی وہ بنیادی لفظ ہے جو شعر کے کینواس کو وسیع ہی نہیںکرتا بلکہ اخلاق کی شمشیر کی دھار کو زمانی حدوں سے نکال کر اسے لا محدود کرتا ہے۔غزل کے سانچے میں کہی گئی نعت بھی اپنے مضمو ن میں تسلسل کی پابند نہیں ہوتی لیکن یہ اشعار جو ان کی ایک ہی نعت سے ماخوذ ہیں اپنے اندر ایک معنوی تسلسل کی فضا بھی قائم رکھتے ہیں۔اور دوسرے ہی شعر میں یہ پیغام دیتی ہے کہ رسول کی سنت کو چھوڑ کر کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا سود مند نہیں ہو سکتا ۔تدبیر کا دامن اگر سنت ر سول کے دائرے میں نہیں ہے تو وہ تدبیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔یہ صرف شعربرائے شعر نہیں بلکہ قرآن کی آیت ’’و انتم االاعلون ان کنتم مومنین‘‘ کی تفسیر بھی پیش کرتا ہے جس میں یہ صاف فرما دیا گیا ہے کہ تم ہی سر بلند رہو گے اگر تم مومن رہے۔ایمان اور مومن کی تفسیر و تشریح میں نہ جاکر دومصرعوں میں شاعر نے سیدھا اور سچا پیغام دیا ہے۔کہ قرآن کو چھوڑ کر تقدیر کا رونا رونا بے سود ہے۔اور یہ تاریخی صداقت بھی ہے کہ اللہ کے رسول کی باگاہ میں بادشاہوں نے اپنے سر تسلیم خم کئے ہیں۔صرف نبی کے سامنے نہیں بلکہ جن لوگوں نے ان کے طریقوں کو اپنی زندگی میں عملی طور پر اپنایا ان کے سامنے بھی بادشاہوں نے سر جھکائے ہیں خلفا کی تاریخ اور اولیا عظام کی سیرت صداقت کی گواہ ہے۔
وہ آفتاب نہیں وہ ماہتاب نہیں
مگر جمال کا پرتو کسی کا خواب نہیں
حقیقتوں کے پیمبر ہیں والیٔ قرآں
مرے حضور کی ہستی کوئی سراب نہیں
خمار لذت شب کو میں کیا بیان کروں
نبی کے ذکر کے جیسی کوئی شراب نہیں
وہ جن پہ چل کے مکمل حیات ہوتی ہے
نبی نے ہم کو وہی رستے دکھائے ہیں
خدا نے کی ہے عطا زندگی ہمیں لیکن
سلیقے جینے کے سرکار نے سکھائے ہیں
زمانے پہ جو آج سایہ فگن ہیں
شجر یہ نبی کے لگائے ہوئے ہیں
محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن
قرینہ نبی کا بھلائے ہوئے ہیں
نعتیہ شاعری میں جن مضامین اور موضوعات کابیان کیا جاتا ہے ان میں آپ کا حلیہ مبارک بھی ہے۔آپ کا چہرہ ٔانور نعتیہ شاعری میں مختلف طرح سے احاطہ تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی ہے اور سچ بھی یہی ہے کہ صرف کوشش ہی کی جاسکتی ہے،راقم کو اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا
ان کی توصیف کا ادراک تو ممکن ہی نہیں
حسب توفیق مگر اہل قلم آئے ہیں
عامر قدوائی نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ان کا رخ ِانور نہ آفتاب ہے اور نہ ماہتاب۔اس کے با وجود اس رخ میں ایسی چمک ایسی روشنی اور ایسا جلال ہے کہ جس کے جمال کے پرتو کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔یہ شعر بھی عامر قدوائی کے تخیل کی پرواز پر پوری طرح دال ہے اور ان کے منفرد اسلوب بیان پر بھی۔دوسرے شعر میںحقیقتوں کے پیمبر کے ساتھ سراب کی لفظی رعایت نے حقیقت کے بیان میں عقیدت کے ساتھ ساتھ جو شعری لطف پیدا کر دیا ہے اسے اہل فن اور اہل نظربخوبی سمجھ سکتے ہیں۔نبی کا ذکر باعث ثواب ہوتا ہے خود اللہ تعالی کا فرمان ہے ’’ان اللہ و ملٰئکتہ یصلون علی النبی۔یا ایہا الذین آمنو ا صلو علیہ و سلمو تسلیما‘‘(پارہ ۲۲ سورہ احزاب) بے شک اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی کریم پر درود و سلام بھیجتے ہیں تو اے مومنو تم بھی ان پر دورد وسلام بھیجا کرو۔جب حکم خداوندی ہے تو اس کے باعث ثواب ہونے میں کیا شک رہ جاتاہے لیکن ان کے ذکرکو خمار لذت شب سے تعبیر کرنا اور پھر اس کی مناسبت سے شراب کااستعمال جس انداز میں عامرقدوائی نے کیا ہے وہ ان کے فنی لوازمات پر مہارت کی دلیل ہے۔بے شک نبی نے وہی راستے اہل دنیا کو بتائے ہیں کہ جن پر چل کر دونوں جہان کی کامیابی کی ضمانت حاصل کی جا سکتی ہے لیکن عامر قدوائی نے اس راستے کو حیات کی تکمیل کہہ کر اس کی معنویت میں خوبصورت اضافہ کیا ہے ۔اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ نبی کا راستہ اگر چھوڑ کر زندگی گذاری گئی تو وہ زندگی وہ حیات مکمل ہی نہ ہوگی اور ایسا شائد اس لئے وہ کہہ رہے ہیں کہ جن و انسان کی پئدائش کا اصل مقصد تواللہ نے عبادت ہی بیان کیا ہے ’’وما خلقت الجن الانس الا لیعبدون‘‘(پارہ ۲۷ سورہ والصافات)کہ میں نے جن اور انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں(یہاں لفظ عبادت ایک وسیع معنوں میں استعمال کیا گیا ہے) ظاہر ہے کہ اب عبادت صرف رسو ل کریم کے طریقے ہی پر کی جائے گی ۔اگر حیات میںان کے طریقے کو نہیں اپنایا گیا تو حیات مکمل ہی نہیں ہوگی کیونکہ ایسی حیات مقصد ایزدی کو پورا نہیں کرتی۔ اس کے بعد کا شعر اسی شعر کی تفسیر اور توضیح میں ہے جو پہلے آ چکا۔دنیا میں جو رحمتوں کے سائے ہیں جن کے صدقہ اور طفیل میں یہ دنیا اپنی تکمیل کی منزلوں کی طرف گامزن ہے یہ سائے نبی کی رحمتوں کے ہیں۔لیکن سائے کی مناسبت سے لفظ شجر کا استعمال کیا گیا ہے اور یہی لفظ استعارہ بن گیا ہے رحمت کونین کا۔اگر کسی بیان کے لئے شعری پیرایہ کا انتخاب کیا گیا ہے اور شعری صنعتوں کا استعمال نہ کیا جائے تو شاعری بے رنگ و بے کیف ہو جاتی ہے۔صنعتیں شاعری کے حسن میں ہی اضافہ نہیں کرتیں بلکہ شعر کے معانی و مفاہیم میں وسعتیں پیدا کرنے میں بھی معاون ہوتی ہیں۔عامر قدوائی صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ انہیں شعری لوازمات کابخوبی علم بھی ہے اور وہ ان کا بہتر سے بہتر استعمال کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔یہی و جہ ہے کہ ان کے یہاں شعری جمالیات اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ جلوہ گرہوتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جمالیات کے بغیر اچھی شاعری نہیں کی جا سکتی۔خواہ وہ بہاریہ شاعری ہو یا نعتیہ شاعری۔ عامر قدوائی نے بحیثیت شاعر غزلوں کی بحور و اوزان میں کچھ تجربے بھی کئے ہیں لیکن نعتیہ شاعری میں وہ ایسے تجربے نہیں کرتے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نعتیہ شاعری ایک مشکل صنف سخن ہے اس میں شعری تقاضوںکے ساتھ ساتھ شرعی تقاضے بھی شاعر کے سامنے ہوتے ہیں۔ لیکن عامر قدوائی کا مطالعہ اور اور ان کے والد کی تربیت نعتیہ شاعری میںانہیں شرعی ٹھوکروں سے محفوظ رکھتی ہے ۔اس مختصر مضمون میں ڈاکٹر عامر قدوائی کی نعتیہ شاعری کا مکمل احاطہ نہیں کیا جا سکا ہے لیکن یہ مطالعہ ضرور کیا گیا ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری کے ممتاز عناصر کیا ہیں۔یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جدید اردو نعتیہ شاعری کے تاریخ جب لکھی جائے گی تو ڈاکٹر عامر قدوائی کی نعتیہ شاعری کو نظر انداز نہ کیا جا سکے گا۔