9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر شمشاد علی
افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ کوارنٹین آج کے منظر نامہ میں مطابقت پذیر ہو چکاہے ۔جب افسانوں کا مطالعہ کرنے کا خیال دل میں آیا تو سب سے پہلے نظر بیدی کے افسانوں پر پڑی اور حسرتوں کے اس وقت اور پَر لگ گئے جب ان کے افسانوں میں ایک افسانے کا عنوان ہی کوارنٹین تھا، بس پھر کیا تھاسب کچھ چھوڑکر اس کے مطالعہ میں لگ گیا۔جب مطالعہ مکمل ہوا تو پتہ چلاکہ آج پھر پلیگ کی شکل میں کورونا نے اپنے پائوں پسار لئے ہیں ۔پورا عالم اس قدر خوف زدہ اور سہماسہماساہے کہ اپنے کو دُنیا کا سُپرپاور سمجھنے والابے بس اور لاچار نظر آرہاہے ۔موت کے بے رحم ہاتھوں نے اس کے گریبان میں ہاتھ ڈال رکھاہے اور حکومت کو یہ تک کہنا پڑگیا کہ ہم اموات کے اعدادوشمارکو ایک سے ڈھائی لاکھ تک بھی روک پاتے ہیں تو یہ ہماری کامیابی ہوگی ۔یہ اُسی خوفناک منظر کی طرف اشارہ کررہاہے جس کا ذکر بیسویں صدی کے اردو کے نامور افسانہ نگار اورکہانی کی دنیاکاایک بڑا نام راجندر سنگھ بیدی نے اپنے افسانے ’’کوارنٹین‘‘ میںکیاہے کہ جب پلیگ کی وباسے لاشوں کے ڈھیر لگ رہے تھے کوئی جلانے اور دفن کرنے والا نہیں تھا ڈھیروں پر پیٹرول ڈال کر لاشوں کو نذرِ آتش کیاجا رہاتھا ۔پلیگ سے زیادہ لوگ کوارنٹین سے مررہے تھے حالانکہ کوارنٹین کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ اس حالت کانام ہے جس میں متاثرہ مریض یا رابطہ میںآئے شخص کو چنددنوں تنہائی میں رکھا جاتاہے تاکہ مرض اور آگے نہ پھیلے زیادہ تر لوگ کوارنٹین کے خوف سے مر رہے تھے اور کچھ دوسروں کو مرتے دیکھ مرنے سے پہلے ہی مررہے تھے۔شام کے غروب ہوتے ہوئے آفتاب کی سرخ کرنوں کو دیکھ کر سب کو یہی احساس ہورہاتھا کہ دنیاکو آگ لگ گئی ہے ۔اب جراثیم نے سب کو اپنی گرفت میں لے لیاہے اور کوارنٹین تو انہیں دوزخ کی مانند لگنے لگی اور شاید یہی وجہ تھی کہ لوگ بیماری کو چھپارہے تھے آثار نظر آنے پر بھی علاج سے پرہیز کر رہے تھے،کوارنٹین کا خطرہ جو تھا!جب کسی گھر سے میت نکلتی تب پتہ چلتاکہ یہ کنبہ وباکی زدمیں ہے۔’’حادثوں کی زد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑدیں،اور زلزلوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑدیں‘‘ہندوستان کے نامور شاعر پروفیسر وسیم بریلوی کے اس شعر کو اپنی زندگی میں ڈھالنے کی نہایت ضرورت آن پڑی ہے ۔آج کورونا کاعلاج کھوجے جانے میں دس سے بارہ مہینے کا وقت لگنے کی بات کہی جارہی ہے ایسے میں ہمیں کچھ چھپانے کے بجائے کوارنٹین سے ڈرے بغیر اگر کوئی آثارنظرآتے ہیں تو بڑی بیباکی اور جانفشانی سے آگے آکر ملک سے اس وفا کے خاتمے کے لئے اپنا اہم کردار اداکرنا ہوگا۔
اس وقت ہماراملک نازک دور سے گزررہاہے ۔دنیاکے ترقی یافتہ ممالک کو دیکھتے ہوئے جہاں اموات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا،ہماری حالت ابھی بھی اتنی بد تر نہیں ہوئی ہے۔اسی لئے سُپر پاور اور پوری دنیا امید بھری نگاہوں سے ہندوستان کی طرف دیکھ رہی ہے اب ہمیں ہرحال میں سنبھلناہوگا ۔کیا ہم نہیں چاہتے کہ علامہ اقبال ؔ کی ان سطورکو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی شان سے گنگناتے رہیں کہ ’’یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے،اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا‘‘؟کیاہم اب بھی نہیں چاہتے کہ ہندوستان دنیا کا سرتاج بنا رہے؟کیا ہم اس کی آن بان اور شان و عظمت میں چار چاند نہیں لگانا چاہتے ؟
آئیے آپ کو لے چلتے ہیں ’’کوارنٹین‘‘کہانی کے کردار بھاگو کی زندگی کی طرف جو صاف صفائی کی ذمہ داریوں پر مامور ایک ادنیٰ ملازم تھا مگر ہمیں بہت کچھ سکھانے کی صلاحیت رکھتاہے ۔رات کو تین بجے اُٹھ کر لاشوں کو اکٹھا کرنا ،صاف صفائی اور کوارنٹین مریضوں کی خدمت یہی اس کی روز مرہ کی زندگی تھی ،بیوی کے بیمار ہونے پر بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور آخرکار وباکی زدمیں آکر اس کی بیوی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھاگو اور اپنے ڈیڑھ سال کے معصوم بچے کو تنہاچھوڑ کرموت کے آغوش میں سماگئی،بھاگو تعلیم سے ناآشناتھا پھر بھی لوگوں کو صاف صفائی اور گھروں سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت دیاکرتاتھا یہاں تک کی ڈاکٹر بھی جب مریض کے قریب جانے سے خوف کھاتے تھے تب بھاگو ہی وہ شخص تھا جو ان کے نزدیک جاکر ان کی تیمارداری کیا کرتاتھا، بیوی کے انتقال کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔
آج کوروناکا خوف ملک کی شاہراہوں اور گزرگاہوں پر اس قدر پسراہواہے کی حکومت کو پورے ملک میں لاک ڈائون کا بڑا فیصلہ لینا پڑا اوراب اس کا دوسرا دور بھی شروع ہوگیاہے،چند لوگ اس پر باریکی سے عمل پیرا نہیں ہیں اور نہ ہی اس کو خطرناک سمجھ کر حکومت کا مکمل ساتھ دے رہے ہیں،آج ضرورت ہے ہمیں اس بات پر عمل کرنے کی جب جنگِ آزادی کے وقت عالمی شاعر ڈاکٹر علامہ اقبالؔ نے ہندوستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا کی ’’وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آے والی ہے،تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں‘‘’’نہ سمجھوگے تو مٹ جائوگے اے ہندوستاں والو، تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں ‘‘اگر ایسے ہی حالات بنے رہے تو پھر کسی بھاگو کو مردہ کتوں کی لاشوں کی طرح پھر سے ڈھیر نہ لگانے پڑجائیں۔
صوبائی صدر
راجستھان اُردو ٹیچرس اینڈ لکچررس ایسوسی ایشن چورو
8107746286