9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عبدالمنان ؔصمدی
تین مرتبہ بیل (Bell)اور دو مرتبہ دروازے پر دستک دینے پر بھی جب اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تو زویا نے دروازے کو ہلکا سا پش(push)کیا جس کی وجہ سے دروازہ کھل گیا ۔وہ لاکڈ(Locked) نہیں تھا بس ایسے ہی بھڑاہوا تھا، کمرے میں قدم رکھنے سے قبل زویا نے اندر جھانکنا بہتر سمجھا ۔تاکہ اندر کا جائزہ لے سکے۔ جب اس نے اندر جھانکا تو اسے دور کرسی پر بیٹھا ایک شخص نظر آیا جو اپنی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اور کھڑکی کی طرف رخ کئے ہوئے کسی اور دنیا میں گم تھا، زویا ہمت کرکے کمرے میںداخل ہوئی۔ اس کو امید تھی کہ اس کی قدموں کی آہٹ سے وہ شخص جو کھڑکی کی طرف رخ کئے ہوئے بیٹھا ہے اس کی طرف ضرور متوجہ ہوگا ۔زویا قدم آگے بڑھاتے ہوئے کمرے کا جائزہ لینے لگی، کمرہ کیا تھا ایک کتب خانہ تھا، چاروں طرف کتابوں سے بھری الماریاں اور سامنے کی دیوار پر گھڑی کے ٹھیک نیچے شیشے کے فریم میں شیخ سعدی کا مشہور نعتیہ مصرع معلق تھا۔
’’ آنچہ خوباں ہمہ دارن تو تنہا داری‘‘۔
اور کچھ رسائل اور اخبارات بے ترتیب میز پررکھے ہوئے تھے۔
وہ کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے اس شخص کے بالکل قریب آکر کھڑی ہوگئی ۔
السلامُ علیکم!۔۔۔ السلام علیکم !۔۔۔سر السلام علیکم!۔
زویا نے دروازے پر دستک کی طرح تین مرتبہ پاس جا کر سلام کیا لیکن جناب کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔جب اس نے دیکھا کہ جناب اس کی آواز سے ہی نہیں بلکہ دنیا سے بھی بے خبر ہیں اور ایک بت کی مانند بیٹھے ہوئے ہیں تو اس نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس شخص جھنجھوڑا۔ نجابت صاحب کو زویا کی یہ حرکت بڑی ناگوار گزری لیکن انہوں نے اس سے کچھ نہ کہا اور اپنے غصے پر قابو کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔
’’ہو آر یو؟) (Who are you?‘‘۔
نجابت صاحب نے غصے پر بھلے ہی قابو پالیا ہو لیکن آواز میں سختی اور لہجے میں تلخی اب تک باقی تھی جس کی وجہ سے زویا کا گھبرانا لازمی تھا ۔ اس نے گھبراتے ہوئے کہا ۔
’’آئی ایم زویا‘‘(I am Zoya)‘‘۔
نجابت صاحب کی ایک عجیب سے عادت تھی کہ جب وہ غصے میں ہوتے تو انگریزی زبان کا استعمال کرنے لگتے ایک بار کسی دوست نے اس بارے میں پوچھا تو جناب نے بڑا دلچسپ جواب دیا کہنے لگے دراصل غصے میں اردو زبان کا تلفظ بگڑجاتا ہے۔اس لئے ایسا کرتا ہوں۔
زویا نے ہمت کرکے کہا کہ ’’میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہوں‘‘۔
’’کس زبان میں ریسرچ کر رہی ہو؟‘‘
ان کے لہجے میں سختی اور تلخی اب تک برقرار تھی ۔
’’فارسی‘‘
’’ موضوع؟‘‘
’’خیام کی حیات و خدمات‘‘۔
’’یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘ ۔
’’میں نے یونیورسٹی میں آپ کے بارے بہت سنا اور پڑھا ہے آپ کی شخصیت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ آپ نے جو مقالہ مولانا روم کی مثنوی پر تحریر کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے‘‘۔
’’علی گڑھ سے تہران یہ بتانے اور میرے قصیدے پڑھنے آئی ہو؟‘‘
نہیں!
’’پھر علی گڑھ سے تہران کیسے آنا ہوا؟اپنا پورا نام بتائیں‘‘۔
’’میرا نام زویا صدیقی ہے‘‘۔
نجابت صاحب نے مسکراتے ہوئے مزاحیہ انداز میں زویا کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’صدیقی وہ بھی تہران میں‘‘؟
جی!
’’صدیقی صاحبہ!لگتا ہے کہ معجزات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے‘‘۔
شاید!
جھجکتے ہوئے زویا نے جواب دیا۔
’’تہران آنے کی وجہ ؟کوئی سمینار ہے کیا؟‘‘
’’ نہیں!میری خالہ رہتی ہیں یہاں‘‘۔
’’کہاں تہران میں؟ ‘‘
’’ نہیں اصفہان میں‘‘۔
’’اچھا!پھر تہران کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’آپ سے ملاقات کرنے کے لئے‘‘۔
’’کوئی اور وجہ نہیں یہاں آنے کی؟‘‘
نہیں!
’’واقعی مجھ سے ملنے آئی ہو؟‘‘
جی!
’’کیا چاہتی ہو مجھ سے؟‘‘
اتنی گفتگو کرنے کے بعد نجابت صاحب کے لہجے میں نرمی آگئی۔
’’میں آپ سے محبت کرتی ہوں‘‘
زویا نے بے خوف اپنے جذبات کا اظہار کردیا۔
’’محبت؟‘‘
زویا کی بات سن کر نجابت صاحب نے ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔
’’لگتا ہے تہران کی آب و ہوا آپ کو راس نہیں آرہی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ ہندوستان لوٹ جائیں‘‘ ۔
’’سر میں واقعی آپ سے محبت کرتی ہوں ‘‘۔
یہ کہتے ہوئے زویا نے ایک فائل نجابت صاحب کے سامنے میز پر رکھ دی ۔اس میں ان کی وہ تخلیقات موجود تھیں جو ہندوستان اور بیرونی ممالک کے رسائل اور اخبارات میں شائع ہوئی تھیںاور کچھ جوانی کی تصاویر بھی تھیں جو نجابت صاحب کی تخلیق کے ساتھ چھاپی گئی تھیں نجابت صاحب نے جب فائل دیکھی تو ان کی تمام یادیں تازہ ہوگئیں۔ زویا نے پل بھر کے لئے نجابت صاحب کی ساری زندگی کا نقشہ اور اثاثہ ان کی میز پر رکھ دیا۔ وہ کچھ دیر کے لئے ماضی میں لوٹ گئے۔
کمرے میں یکایک سناٹا چھا گیا چاروں طرف سکوت کی صدائیں گونجنے لگیں ۔زویا بھی ہاتھ باندھے خاموش کھڑی رہی۔
’’یاد ماضی عذاب ہے یارب ‘‘
نجابت صاحب نے فائل بند کرتے ہوئے اختر انصاری کا یہ مصرع پڑھا۔اور زویا کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔
اور اس کو بیٹھنے کے لئے کہا۔
اس کی فائل نے نجابت صاحب کے زخم تازہ کردیئے ۔ لیکن اسے دیکھ کر انہیں خوشی ضرور ہوئی۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ’’ ماضی کیسا بھی رہا ہو کریدنے پر مزہ ہی دیتا ہے‘‘۔
’’ارے پیٹر (Peter)دوگلاس پانی لاؤ بھئی‘‘۔
نجابت صاحب نے خادم کو آواز دیتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر کے بعد خادم پانی لیکر آیا۔
’’ ارے پیٹر ! چائے اور ناشتہ کا بھی انتظام کرو۔ ورنہ محترمہ علی گڑھ جاکر کہیں گی کہ نجابت صاحب نے چائے کے لئے تک نہیںپوچھا‘‘۔
نجابت صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فارسی میں پروفیسر کے عہدے پر رہ چکے تھے لیکن طالب علمی کے زمانے میں ایک سمینار شیخ سعدی کی حیات و خدمات پر شعبہ فارسی میں ہوا تھا جس میں تہران یونیورسٹی سے ایک پروفیسر احمد بن نژاد تشریف لائے تھے۔ نجابت صاحب اس وقت ایم اے سال آخر کے طالبِ علم تھے ۔انہوں نے پروفیسر نژاد کی شان میں ایک قصیدہ تصنیف کیااور اسے لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے جسے سن کر پروفیسر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے ان کو تہران آنے کی دعوت دی اور سارے اخراجات اٹھانے کا وعدہ کیا۔ نجابت صاحب کچھ دنوں بعد تہران چلے گئے واپسی کرتے وقت نجابت صاحب نے یہ عہد کیا تھا کہ اگر موقع ملے گا تو زندگی کے آخری ایام تہران میں ہی گزاروں گا۔ اس لئے رٹائرڈ ہونے کے بعد وہ مستقل تہران میں رہنے لگے۔
خادم کو چائے ناشتے کا حکم دینے کے بعد نجاوت صاحب زویا سے مخاطب ہوئے۔
’’جی! محترمہ فرمائیں۔۔۔یہ خاکسار آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہے؟‘‘۔
زویانے ذرا رکتے ہوئے کہا ۔۔
’’سر میں آپ سے محبت کرتی ہوں‘‘۔
’’محبت کرنے کا دعوی بھی اور سر کرکے مخاطب بھی کرتی ہو؟اتنا ادب۔۔۔پہلے تو آپ کویہ معلوم ہونا چاہیے کہ محبت میں ادب گناہ کبیرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور تمام علمائے عشاق کا اس پر اجماع ہے۔۔۔خیر کوئی بات نہیں۔۔۔پہلے عشق میں اس طرح کی خطائیں معاف ہوتی ہیں‘‘۔
’’پہلا عشق ؟‘‘زویا نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
’’جی پہلا عشق‘‘۔
’’لیکن عشق ایک ہی بار ہوتا ہے بار بار نہیں‘‘۔
’’ خیر جانے دیں ان باتوں کو‘‘۔
’’پہلے آپ میرے کچھ سوالات کا جواب دیں۔۔۔ اس کے بعد فیصلہ لینا بہتر ہوگا‘‘۔
جی!
زویا نے اس اعتماد کے ساتھ ’’جی ‘‘ کہاگویا کہ وہ عشق کی منزل پانے کے لئے ہر طرح کے سوالات ا ور حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو۔
نجابت صاحب نے ذرا تلخ انداز میں کہا ۔۔
’’کیا آپ نے مجھے آج سے پہلے کہیں دیکھا ہے؟‘‘
’’ نہیں‘‘۔
’’کیا مجھ سے کبھی خطوط کے ذریعہ رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے؟‘‘
’’ نہیں۔۔۔ہاں ایک دو بار سوچاضرور‘‘۔
’’اچھا ایک بات بتاؤ؟‘‘۔
’’جی پوچھئے‘‘
’’ کیا رات میں سوتے وقت تمہارے تکیے کے نیچے میری تصویر رہتی ہے؟‘‘۔
’’ نہیں‘‘۔
’’تصویر تو نہیں تخلیق ضرور رہتی ہے‘‘۔
’’اچھا !زویا تم نے ماہر نفسیات ولیم آسٹیکل کا نام سنا ہے ؟‘‘۔
’’جی سنا ہے ‘‘
’’ولیم آسٹیکل کے مطابق’’ عورت کے لاشعور میں ایک آئیڈیل مرد بستا ہے۔ عورت ادھر متوجہ ہوتی ہے جہاں اس کا آئیڈیل نظر آتا ہے۔ اکثر شاعر، ادیب اور مشہور شخصیات کو عورتیں اپنا آئیڈیل تصور کرتی ہیں۔ اور اَن دیکھے عشق میں ملوث ہوجاتی ہیںجیسا کہ تم‘‘۔
’’ لیکن سر! ولیم آسٹیکل کی بات قابل تقلید ہوسکتی ہے مگر قابل حجت نہیں‘‘۔
’’لیکن تم جس عمر میں ہو تمہارے لیے تقلید ہی حجت کا درجہ رکھتی ہے‘‘۔
’’میں کچھ سمجھی نہیں‘‘
’’زویا میری اور تمہاری زندگی کے تقاضے بہت مختلف ہیںمیں ایک ستّرسال کا بوڑھا آدمی ہوں۔ میر ی زندگی کے تقاضے الگ ہیں تمہاری زندگی کے الگ ۔تم ایک چوبیس سالہ خوبصورت دوشیزہ ہو۔ تم مجھ سے کتنا بھی عشق کرنے کا دعویٰ کرو لیکن وہ کہلائے گا تو عشق مجازی ہی ۔ اورعشق مجازی میں جتنے تقاضے روح کے ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ جسم کے ہوتے ہیں۔ داسی یا مجنوں بن کر تڑپا جا سکتا ہے جیا نہیں‘‘۔
’’سر چائے‘‘
پیٹر نے کمرے میں داخل ہوتے کہا۔
’’ہاں۔۔لے آئو۔۔۔یہاں رکھ دو‘‘۔
پیٹر چائے رکھ کر چلا گیا۔
’’چلئے محترمہ چائے بنائیے ۔۔یہ ایک بوڑھے شخص سے عشق کرنے کی سزا ہے‘‘ ۔
نجابت صاحب کی اس بات پر زویا مسکرادی۔
’’ سر چینی کتنے چمچ‘‘
’’ میرے لئے ایک ہی رکھیے گا‘‘۔
اِدھر زویا چائے بنانے لگی اُدھر نجابت صاحب ایک بار پھر کھڑکی کی طرف دیکھنے لگے۔
’’سر چائے !۔۔کہاں کھوگئے تھے آپ؟‘‘۔
’’زویا وہ گھلتی ہوئی برف دیکھ رہی ہو جو کچھ دیر پہلے تک پہاڑ پر جمی ہوئی تھی، لیکن وہ اب سورج کی تپش سے گھلنے لگی ہے‘‘ ۔
جی!
’’وہ پہاڑ نظر آرہا ہے جو برف کے گھلنے سے نمودار ہوا ہے‘‘۔
’’جی سر! لیکن آپ کہنا کیا چاہتے ہیں‘‘۔
’’میں کہنا نہیں آپ کو کچھ دکھانا اور سمجھانا چاہتا ہوں‘‘۔
’’ لیکن کیا؟‘‘
یہی کہ میری زندگی اس گھلتی ہوئی برف کی مانند ہے جو سورج کی تپش سے گھلتی جارہی ہے اور بہت جلد گھل کر ختم ہوجائے گی اور تمہاری زندگی اس تناور پہاڑ کی طرح ہے جس پر نہ برفیلی بارش کا اثر ہوتا ہے اور نہ سورج کی تپش کا اور ویسے بھی تم مجھ سے نہیں اپنے آئیڈیل سے محبت کرتی ہو۔ اور تمہارا آئیڈیل میں نہیں میری تخلیق ہے۔
نگلہ ملاح ،علی گڑھ،موبائل:9286300994