9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ساجد ؔ جلالپوری

’’شاعر تخلص‘‘ عنوان سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ صرف صاحب تخلص ہی شاعروں کی فہرست میں شامل ہیں ۔بغیر تخلص کے شاعر نہ صرف چل سکتے ہیں بلکہ ان کی پوری شاعری دوڑ سکتی ہے لیکن تخلص ہو تو شناخت میں آسانی ہوتی ہے ۔تخلص لفظ میں نہ جانے خدا نے کتنا اخلاص و خلوص بھرا ہے کہ ان کی پوری نسل کرہ ٔ ارض پر پھل پھول رہی ہے ۔جیسا کہ حدیثوں میں آیاہے کہ جب قیامت آئے گی تو دنیا کی آبادی اتنی گھنی ہوجائے گی کہ ایک ایک قبر سے ستّر ستّر مردے کفن جھاڑتے ہوئے نکلیں گے ۔ میرا خیال ہے کہ یہی حال ہمارے شعرا ء کا ہوگا کہ اگر محشر میں حساب کے لئے ان کو ایک جگہ جمع کرکے آواز دی جائے گی تو ایک ایک تخلص کے ہزار ہزار شعراء لبیک لبیک آواز دیں گے۔
ہمارے یہاں مستند شعراء نے تخلص کا بہت فائدہ اٹھا یا ۔اور بعض نے تو اپنے تخلص کا سو فیصدی حق مقبولیت محفوظ کر لیا ہے ۔اور وہ ادب کے ناصر میں ہی نہیں بلکہ عناصر میں شمار ہوتے ہیں ۔جن پر ادب کی بلند و بالا عمارت ٹکی ہوئی ہے۔ان کا تخلص ایسا زندہ و پائندہ ہو گیا ہے کہ کسی ذی فہم اور باہوش کو آج تک ان کے تخلص کے اختیا ر کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔مثلاً غالبؔ کو ہی لے لیں ۔ان کا نام صرف اردو شاعری میں نہیں بلکہ عالمی ادب میں غالب ہو گیا ہے۔اگر کسی نے بھولے سے بھی غالب ؔکا تخلص اختیار کر لیا تو وہ خود ادب میں ایسا ذلیل ہوا کہ مغلوب ہوگیا اور ہمارے محترم نقادوں کی نظر میں مجرم و مطلوب Wanted ہو گیا۔شہنشاہ غزل میر تقی میر ؔ صاحب کو دیکھ لیں۔آج تک ادب میں میرؔ بنے ہوئے ہیں۔کسی کی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ میر ؔتخلص اختیار کرے ۔
حالانکہ یہ بات مختلف ہے کہ میر تقی میر ؔسے پہلے ان کے ہمعصر محمد سوزؔ نے میر ؔتخلص اختیار کیاتھا ۔لیکن میرؔ صاحب نے یہ تخلص اختیار کر لیا تو ان کی دل سوزی کا یہ عالم ہوا کہ انھوں نے سوزؔ تخلص اختیار کیا ۔ بہر حال یہ ایک تاریخی نکتہ آگیا تھا جو پیش کردیا ۔میرا مطلب ہرگز ہرگز میرؔ صاحب کی دل آزاری نہیں تھا ۔راقم الحروف میرؔ صاحب کی روح سے معذرت خواہ ہے اور وہ خود بھی میرؔ صاحب مرحوم کی استادی کا کلمہ پڑھتا ہے ۔تبھی تو ایک جگہ اپنی غزل میں کہا ہے
؎ساجد غزل ہے خوب تری پھر بھی خوش نہ ہو
ہے فخر کی یہ بات کہ شاگرد میرؔ بن
ہمارے یہاں کچھ شعراء تخلص کے بھی گنہگار ہیں ۔اس قبیل کے ایک شاعر کا ذکر ہو رہا تھا کہ فلاں صاحب بھی کچھ لکھتے ہیں کہ صرف تخلص ہی کے شاعر ہیں۔تو کسی نے کہا فی الحال تو فہرست شعراء میں داخل ہیں۔لیکن معتبر ذرائع سے خبر لگی ہے کہ عمر کے آخری ایام میں ابھی تک کوئی دیوان تو دور ایک روپئے والی ڈائری بھی نہیں بھری ہے بعض ناقدین کا نظریہ ہے کہ جیسے روز محشرحشر کے میدان میںہر چیز کے استعمال کا حساب لیا جائے گا۔اگر ان کے تخلص کا حساب لیا جائے گا تو داور محشر تعزیر استعمال تخلص میں سخت سے سخت سزا دیں گے۔ایک شاعر نے کہا کہ ان کو شاعری کب نہ چھوڑ دینی چاہئے تھی بلا وجہ ادب میں جگہ گھیرے ہوئے ہیںتو اس پر کسی نے طنزیہ جملہ کسا۔کہا کہ جس کا ادب میں کوئی مقام ہی نہیں ہے وہ کیا جگہ گھیرے گا۔جس کی ادب میں نہ لمبائی ہے نہ چوڑائی تو اس کا کیا حدود اربعہ ہوگا۔
کچھ ایسے بھی شعراء سامنے آئے کہ جنھوں نے فن لطیفہ سے استفادہ کیا اور شاعری شروع کی ۔لیکن بعد میں کسی مصلحت کے تحت شاعری ترک کردی ۔ایک صاحب تخلص شاعر ہیں ۔ان کا ادبی ذوق بہت بلند ہے وہ بڑے سخن شناش ہیں۔شاعری اچھی کرتے ہیںلیکن بعد میں چھوڑ دیا ۔تو ان کے ایک دوستنے پوچھا تو بتایا کہ کون فالتو وقت ضائع کرے اور کلام لکھ لکھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈالے۔جب ہمارے بزرگ شعراء اتنا اچھا سرمایہ چھوڑ گئے ہیںتو وہی ہمارے لئے کافی ہے وہی ادبی تشنگی کو بجھائے گا۔ایک شاعرکا نام بہت طولانی تھا اور وہ اسی نام کو تخلص کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔جس کی وجہ سے نام بحروں کی ہیئت اور مصرع کی وجہ سے صحیح نہیں سٹ ہو پا رہا تھا۔لیکن وہ زبردستی اس کو کھینچ تان کر مثل قبائے تنگ کے پہن لیتے تھے ۔کسی نے کہا کہ ان کو کوئی استاد تخلص کے معنی بتادیں یا خود کوئی تین چار حروف کا اچھا سا تخلص رکھ لیں۔اگر یہ نہیں ہو سکتا تو اردو عربی فارسی کی تمام لغات موجود ہیںان کے لاکھوں الفاظ میں سے کوئی اچھا نام شاعری کے لئے تجویز کرلیں۔لیکن وہ بذات خود استادی کے زعم میں مبتلا تھے۔اور وہ اس کو زبردستی فقیروں کی قبا کے مانند پہن رہے تھے۔اب چاہے کبھی وہ گھٹنوں تک آئے یا کبھی کمر تک ۔
تخلص کے معنی ہی تلخیص یا خلاصہ کے ہیں یعنی شاعر اپنے نام میں سے یا الگ سے تین چار حرف کا ایسا نام تجویز کر کے کہ وہ پڑھنے سننے اور دیکھنے میں بھلا معلوم ہو اور اسی کو کلام کے آخر میں مقطع کے طور پر استعمال کرے۔کچھ شعراء و ادباء ایسے بھی ملیں گے جنھوں نے تخلص سے بھی تخلص نکال لیا۔جیسے ظل حسین انصاری جنھوں نے قلمی نام ظ انصاری رکھا ۔نظر محمد راشد جنھوں نے ن۔م راشد اختیار کیا ش۔ک نظام اورشین مظفر پوری وغیرہ چند نام گنائے جا سکتے ہیں۔
کچھ’’ مذکر شاعر‘‘ ایسے بھی ملیں گے جنھون نے مونث لفظ کا تخلص اختیار کیا ہے۔ایک نقاد نے اس پر دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ ہو سکتا ہے ان کے خمیر میں نسوانی عنصر شامل ہو۔یا ان کے مزاح عادات ،حرکات و سکنات میں خواتین کا انداز ہو یا پھر کسی شاعرہ سے متاثر ہوکر ان کو اپنا نمونہ (IDEAL)مان کر ایسا کیا ہو۔بہر حال یہ اکیسویںصدی کا دور چل رہا ہے۔جب مرد عورتوں کا لباس اور عورتیں مردوں کا لباس پہن سکتی ہیں۔تو تخلص اختیارکرنے میں کیا حرج ہے۔
تخلص کے نام پر اتنے الفاظ استعمال ہو چکے ہیں کہ کوئی لفظ خالی نہیں سب الفاظ ریزرویشن میں ہیں۔اب ایک ایک تخلص کے اتنے شاعر ملیں گے کہ آپ کو شناخت کرنامشکل ہے مثلاً اگر کسی بچے سے امتحان یا انٹریو میںپوچھیں کہ بتائیے آزاد صاحب کا اصل نام اور وطن کیا ہے۔تو آپ کا سوال خود ہی کئی سوالات کو جنم دے گا ۔بچہ خود آپ سے پوچھے گا کہ مولانا محمد حسین آزادؔ، مولانا ابوالکلام آزادؔ،جگن ناتھ آزادؔ،محی الدین آزادؔیا الطاف احمد آزادؔآپ کس کو پوچھ رہے ہیں۔
سرورؔ صاحب کی تاریخ پیدائش و وفات پوچھیں تو آواز آئے گی رجب علی بیگ سرورؔ،آل احمد سرورؔ،درگا سہائے سرورؔیا سرورؔ بارہ بنکوی کس کے متعلق بتائیں۔ یعنی بچہ خود آپ کا امتحان لینے لگے گا۔یعنی اس طرح کی بہت سی مثالیں اور مسئلے ہیں جو تخلص سے پیدا ہوئے ہیں۔یعنی تخلص بھی اب’ اماوٹ‘ کی طرح پرت دار اور تہہ دار ہو گئے ہیں ،گویا ہندی کا ’’شلیش النکار‘‘ہو گئے ہیں۔اب تو شعراء اسی تخلص کا فائدہ اُٹھا کر ملک الموت کودھوکا دے کر اپنی زندگی بھی دوچاردن کے لئے بچا لیتے ہیں۔حکیم راغب ؔ مرادآبادی نے ایک بار یہ فارمولا اپنا کر زندگی بڑھائی تھی۔ اس چالاکی کوانھوں نے چار مصرعوں میں بیان کیا ہے ۔؎
شکست موت نے کھائی ہے آج پہلی بار
خدا کے فصل سے نیچا دکھا دیا میں نے
پلٹ گیا ملک الموت آکے بالیں پر
بجائے نام تخلص بتا دیا میں نے
لقمان حکیم کے متعلق تو سنا تھا کہ انھوں نے آخر وقت میں اپنے ہمشکل کئی مجسمے بنوائے تھے جس کو دیکھ کر ملک الموت بھی دھوکہ کھا گئے۔لیکن جب خدا وند عالم سے پوچھا کہ کیسے روح قبض کروں تو اللہ نے کہا جاؤ سلام کرو جس تصویر سے جواب آئے اسی کی روح قبض کرووہی لقمان حکیم صاحب ہیں۔
بہر حال شعراء کو یہ طریقہ اپناتے پہلی بار دیکھا تو کسی نے کہا آخر راغب صاحب بھی تو حکیم ہیں’’فعل الحکیم لایخلو عن الحکمۃ‘‘حکیموں کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔آپ جس لفظ کو زبان پر لائیں اس تخلص کے شاعر موجود ہیں۔مقفیٰ و مسجع تخلص بھی کثرت سے ملیں گے۔
جب تخلص کی یہ ریل پیل اور ’’ایڈ وانس بکنگ‘‘ دیکھی تو کچھ شعراء نے زندگی بھر کوئی تخلص ہی نہیں رکھا۔ کچھ لوگوں نے ان سے پوچھا تو دلیل دی کہ جس طرح دنیا میں کچھ لوگ بغیر شادی کے پوری زندگی گذار لیتے ہیں تو کیا ہم بغیر تخلص کے نہیں رہ سکتے۔
تخلص جاننے کے لئے لوگ کتنا بے چین رہتے ہیںچاہے شعر بھلے نہ سمجھیں۔بمبئی میں مجاز ؔ کے ایک ماوراڑی دوست جو ان کے کلام کی مقبولیت کی وجہ سے ان کے بہت عاشق تھے ایک بارپوچھامجازؔ صاحب آپ کا تخلص کیا ہے تو مجاز ؔ نے بڑی سادگی سے کہا اسرارالحق ردولوی۔
آج لوگ مساوات کی نئی نئی تعبیریں کر رہے ہیں۔سیکولرزم کی تعریف تلاش کر رہے ہیں ۔ایک محقق جنھوں نے تخلص پر کافی ریسرچ کی ہے۔بلکہ’’اردو میں تخلص‘‘ ہی شایدان کے پی ۔ایچ۔ ڈی۔ کا مقالہ رہا ہے۔ان کا قول ہے کہ سیاست دانوں حکمرانوں کو اگر سیکولرزم کا سبق سیکھنا ہے تواردو ادب سے سیکھیں ۔ فرقہ واریت، تعصب کا خاتمہ،ہندو ،مسلم ،سکھ، عیسائی اتحاد کا نظارہ کرنا ہے تو شاعروں کے تخلص میں دیکھیں۔آپ کو ایسے ایسے نام اور تخلص ملیں گے نام سے ہندولگیں گے تخلص سے مسلمان،تخلص سے ہندونام سے مسلمان،یعنی آدھا بھارت آدھا پاکستان۔جیسے آنند نرائن صاحب پنڈت ہیں لیکن تخلص میں ملّا بنے ہیں۔ پرو فیسر شیام لال کالڑا ہیں لیکن عابد ؔ پیشاوری یعنی عام عابد نہیں بلکہ پیشاور کے عابد ہیں۔رگھوپتی سہائے فراقؔ ہیں تو تربھون ناتھ صاحب ہجرؔہیں ۔کالیداس گپتا رضاؔ ہیں تو راجندر سنگھ بیدی سحرؔ ہیں۔اگر درویش صفت ثناء اللہ ڈار صاحب میراجیؔہوسکتے ہیں تو پدم شری شفیع خاں بیکل اتسا ہی ؔبن سکتے ہیں۔
ویسے اگر آپ چاہیں تو تخلص کے تضاد کو سامنے رکھ کریا ایک ہی قافیے کے تخلص کا ایک مقام پر اجتماع کر کے ان کا دنگل بھی کرواسکتے ہیں یا’’تخلص کا میچ‘‘کے عنوان سے پروگرام کرسکتے ہیں۔
اگر غالبؔ ہیں تو جالبؔ ،راغب،ظالب بھی ہیں۔ناسخ لکھنوی ہیں تو راسخ عظیم آبادی بھی ہیں۔اگر اولاد حسین شاعر ؔو حمایت علی شاعرؔ ہیں تو مسعود حسن رضوی ادیبؔ بھی ہیں۔انیسؔ،نفیسؔ،رئیسؔ،سلیسؔ،جلیسؔ ہیں۔مونس وؔ انس ؔہیں۔ فراقؔ کے مقابلے میں ہجرؔہیں۔جلالؔ، ہلالؔ،جمالؔ،اقبالؔ،ہیں۔مجروحؔ، زخمیؔ، دردؔ، گھائلؔ، پائلؔ،مائلؔ،احمقؔ،پاگل ہیں۔عاشقؔ،ناطقؔ،وامقؔ،صادقؔ،ہیں۔
اگر ولی محمد صاحب شادؔہیں تو ان کے پوتے نقی احمد ارشادؔ ہیں۔دلؔہیںبے دلؔہیں۔میرؔ،اسیرؔ۔آزادؔ،قیدیؔہیں۔نسیمؔ،عظیمؔ،قسیمؔ،شمیمؔ،فہیم ہیںنورؔ،طورؔ،شعور،زورؔہیں۔کیفؔ،کیفیؔ،فناؔ،فانیؔ،مانیؔ،حالیؔ،عالیؔہیں۔
زاہدؔ،عابد ؔ،ساجدؔ،واحدؔ،واجدؔہیں۔شاہ ؔ،وزیرؔ،امیرؔ،فقیرؔ،گداؔ،فداؔ، ادؔا،ثناؔ، جفاؔ ہیں۔سحرؔ، ساحرؔ، اعجازؔ، معجزؔ، عاجزؔ،ذوقؔ، شوقؔ، فوقؔہیں۔پنڈت ہیں، ملّا ہیں۔سوداؔبھی مجنوںؔ بھی قیسؔ، عیشؔ، طیشؔ، بھی۔خادم ؔ و مخدومؔ بھی قاسمؔو قسیمؔ ہیں۔ جوشؔ، ہوشؔ،ابدؔ،خردؔ،مصحفی،ؔانشاءؔ،مضمونؔبھی۔ظفرؔ،جگرؔ،اثرؔ، ثمرؔ،سحرؔ،روشؔ، خلشؔ،تپشؔ ہیں۔کاوشؔ،نازشؔ،تابشؔبھی۔عروجؔ واوجؔ ہیں ،عزیزؔ و رسواؔ ہیں۔اکبرؔ،اصغرؔ،اوسطؔ، رشکؔ،اشکؔبھی،شمسؔ،قمر،نیرؔ،مہرؔ،منیرؔ،سراجؔبھی،حسنؔ،حُسینؔحَسینؔ،محسنؔ بھی گلزار،ؔ علی سردارؔ،جانثارؔ،سیمابؔ،نایابؔ،بیتابؔ بھی،عشقؔ،تعشقؔ تجسّسؔہیں، خلیقؔ،ضاحکؔ، جمیلؔ،شکیلؔ،عقیلؔ،شمیلؔ،کفیلؔ بھی ہیں۔اگر پنڈت برج نرائن چکبستؔ ہیں تو اسرار الحق مجازؔ پی کر مست ہیں۔
بہر حال ہم کوئی تخلص کی دکان نہیں سجائے ہیں کہ آپ کو گناتے رہیں یہ کام آئندہ اگر کسی کو توفیق ہوئی تو وہ ’’تخلص کا انسائیکلوپیڈیا ‘‘مرتب کرے گا جس میں آپ کو سبھی ابتدا سے انتہا تک کے شعراء کی فہرست مل جائے گی۔بہر حال اس ’’مختصر سے مقابلے‘‘ میں جن کانام آگیا ہے وہ خوش فہمی میں مبتلا ہوں۔جن کا نام نہیں آسکا اگر وہ زندہ ہیں تو ان کے جسموںسے اور اگر مرحوم ہوچکے ہیں تو ان کی روحوں سے معذرت کے ساتھ شاعر تخلص کے باب کو یہیں نامعلوم مدت کیلئے بند کیا جا رہا ہے۔خدا حافظ
موبائل 9415581432
Also read