9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر امام اعظم
مصرعۂ اقبال ’’ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہاں گیری‘‘ اگر کسی پر صادق آتا ہے ، تو وہ تھے سید فخر الدین بلّے صاحب جن کے ذوقِ جدت سے کبھی ترکیب پایاتھا مزاجِ روزگار— روایت ہے کہ سلطان الاولیاء خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اپنے صاحبزادہ فخر الدین کو پیار سے ’بلّے‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ہاپوڑ ضلع میرٹھ کے ایک خانوادۂ چشتیہ میں ۶؍ اپریل ۱۹۳۰ء کو جو لڑکا تولد ہوا، اس کے والد سید غلام معین الدین چشتی نے اپنے جدامجد کی روایت تازہ کرتے ہوئے اپنے بچے کا نام سید فخر الدین رکھا اور ’بلّے‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ لہٰذا بلّے ان کے نام کا جزو لاینفک ہوگیا۔ حضرت خواجہؒ سے خوش عقیدگی کی اس نسبت نے سید فخر الدین بلّے کا دنیائے علم و ادب، ثقافت و صحافت اور ایوانِ اقتدار تک میں ’’بلّے بلّے‘‘ کردیا۔ ہاپوڑ دو چیزوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے؛ ایک پاپڑ اور دوسرے بابائے اردو مولوی عبدالحق لیکن بلّے صاحب کے لازوال کارناموں نے بھی ہاپوڑ کے دامنِ شہرت میں ایک تیسرا ستارہ ٹانک دیا۔
بلّے صاحب نے مقامی اسکول کے ذریعہ ۱۹۴۲ء میں الٰہ آباد سیکنڈری بورڈ سے میٹرک کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے جہاں سے ۱۹۵۲ء تک تعلیم حاصل کرکے ایم ۔ایس ۔سی (جیالوجی) اور جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل کیا۔تقسیم ہند کے قبل تحریک پاکستان کی آندھی چلی، اس میں بلّے صاحب ایسے بہے کہ تحریک پاکستان کے اجتماعات میں مقبول چائلڈ اسپیکر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ پھر آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سکریٹری کی حیثیت سے تحریک کو تقویت دیتے رہے اور فراغتِ تعلیم کے بعد ۱۷؍نومبر ۱۹۵۲ء کو ہجرت کرکے کراچی، پاکستان پہنچ گئے۔ ۱۹۵۳ء میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے آفیسر کی حیثیت سے بہاولپور میں پہلی پوسٹنگ ہوئی۔ یوں تو عہدہ جاتی تبادلوں اور ترقی نے انہیں محکمہ در محکمہ گھمایا یہاں تک کہ مقتدر اعلیٰ کے درباروں تک پہنچایا مگر شہرِ اولیاء ملتان انہیں زیادہ بھایا۔ اس لئے ۱۹۹۰ء میں سبکدوشیٔ ملازمت کے بعد یہیں مقیم رہے اور ۲۸؍جنوری ۲۰۰۴ء کو انتقال کیا لیکن پہلی سکونت گاہ بہاولپور ہی ان کی آخری قیام گاہ ٹھہرا اور یہیں مدفون ہوئے۔
موصوف کا تعلق خانوادۂ صوفیا سے ہے اس لیے تصوف کا درک موروثی تھا۔ ان کا خانوادہ سرسید تحریک اور پھر آزادی کی تحریک میں بھی پیش پیش رہا لہٰذا انہیں بچپن سے زعمائے ملت و قوم اور ادباء و شعراء مثلاً مولانا ابولاکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا حسرت موہانی، بابائے اردو مولوی عبدالحق، پروفیسر رشید احمد صدیقی، جگر مرادآبادی، تلوک چند محروم، علامہ نیاز فتح پوری، علامہ سیماب اکبرآبادی، سر شاہ نواز بھٹو ، مولانا عبدالسلام نیازی سمیت نامور و قد آور شخصیات کی صحبتوں میں بیٹھنے اور ان سے فیض پانے کے مواقع ملے۔ اس وجہ سے سائنس کے طالب علم ہونے کے باوجود ان کے مطالعے کا دائرہ علم و ادب و فنون لطیفہ کے متعدد شعبوں میں محیط تھا اور ان کے تفنن طبع نے بھی شوقِ مطالعہ کو تنوع بخشا۔ اس لئے ان کو تقریر و تحریر دونوں پر ایسی قدرت حاصل ہوئی کہ طلبا، اساتذہ اور اکابرین کے طبقے میں مقبول رہے۔ اس بابت ممتاز ناقد ڈاکٹر وزیرآغانے جو تحریر ثبت کی اس پر کہیں بھی انگلی رکھنا ممکن نہیں کہ:
’’قدرت نے انہیں اعلیٰ ذوقِ نظر ہی عطا نہیں کیا، دل کی بات کو لفظوں میں ڈھالنے کا گُر بھی سکھایا ہے۔ ان کی نثر اتنی پختہ ، نین نقش کی اتنی صحیح اور لفظوں کے انتخاب کے معاملے میں اس قدر سخت مزاج ہے کہ کسی فقرے پر تو کجا ، ان کے استعمال کردہ لفظ پر بھی انگلی رکھنا بہت مشکل ہے۔ اس پر مستزاد ان کا وسیع مطالعہ ہے۔ انہوں نے کتابوں کو خود پر لادا نہیں بلکہ انہیں کو ہضم کیا ہے اور پھر ان کے مطالبہ کو اپنی سوچ سے ہم آہنگ کرکے بڑے خوبصورت انداز میں لفظوں کے حوالے کردیا ہے۔‘‘
خوش مزاجی اور خوش لباسی انہیں باوقار اور پُرتمکنت بناتی تھی تو ان کی خوش گفتاری ایسی تھی کہ جو ان سے ملتا گرویدہ ہوجاتا، جس اسٹیج سے خطاب کرتے مجمع کو مسحور کردیتے، تواضع ان کا خاصّہ اور مروّت و رواداری ان کا شعار رہی۔ اس طور فعال و باغ و بہار زندگی انھوں نے گذاری۔
بیت بازی کے چسکے نے شعری شعور پیدا کیا تو ۱۹۴۴ء سے شاعری شروع کردی۔ شعری مقابلوں اور مشاعرہ میں پُرجوش شرکت کی مشق میں تخلیقی جوہر کھلے تو مروجہ تمام شعری اصناف پر مشقِ سخن کیا اور خوب کیا۔ ریاضت نے فنی ترفع عطا کیا تو سات سو سال بعد امیر خسروؒ کی مروجہ دو صنف ’’قول‘‘ اور ’’رنگ‘‘ کی تجدید کی اور عصری شاعری کو ’’نیاقول‘‘ اور ’’نیارنگ‘‘ دیا۔ صوفیانہ قوالی میں ’’قول‘‘سے قوالی کا آغاز ہوتا ہے اور ’’رنگ‘‘ پر اختتام ہوتا ہے۔ بلّے صاحب نے اپنی جدّتِ طبع سے حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے عرس میں گائی جانے والی قوالیوں کو نئے رنگ و آہنگ سے آراستہ کیا۔ اپنے عہد کے خاصے پرگو شاعر تھے۔ صوفیت کے خمیر نے ان سے خاصی قوالیاں ، قطعات، حمد، نعت اور مناقب بھی لکھوائیں۔ ان کے علاوہ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے ’’سوچ سفر‘‘۔ اس مجموعہ میں خوشگوار،پرزور اور پردرد نظمیں ہیں۔ کلاسیکی اور نئے آہنگ و رنگ کی نظمیں ہیں تو آزاد نظمیں اور ہائیکو بھی ہیں۔ انہوںنے شاہکار نظمیں بھی دی ہیں جیسے پابند نظموں میں ’’بھیگی صبح‘‘۔ اس میں ملتان کی تاریخی حیثیت کو دلکش انداز میںاجاگر کیا ہے۔ نظم ’’یارانِ کرم‘‘ کوئٹہ کی برف باری سے متاثرہوکر لکھی۔ اس میں منظر نگاری اور روانی و نغمگی غضب کی ملتی ہے۔ اس نظم کے آخری چار مصرعے دیکھیں:
یہ برف ہے یا مرگ و قیامت کی نشانی
ہے رنگ، ہو جیسے کسی بیوہ کی جوانی
واللہ کہ ایمان لرزتا ہے دلوں میں
آتش کدے آباد مساجد میں گھروں میں
اس سے ہی اس نظم کے تیور کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی آزاد نظموں میں ’’تسخیر‘‘ بھی ہے۔ ان کی نظمیں پابند ہوں یاآزاد، ان میںلفظ و خیال کا رچائو ایسا ہوتا ہے کہ قلب و ذہن کو مسخر کرلیتا ہے۔نظم ’’نزول قرآن‘‘ اس کی تابندہ مثال ہے۔
ایسے ہی عنوان پر مبنی ان کی غزلوںکا مجموعہ ’سوچ رنگ‘‘ بھی ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ بقول بلّے صاحب:
سوچ کے آسماں سے اتری ہے
دل کے آنگن میں چاندنی چپ چاپ
ان کی غزلوں میں عشق مجازی، عشق حقیقی ،ناز وغمزے، مسائل تصوف، مسائل روزگار، کشمکش حیات کی ترنگیں، عصری حسّیت کی لہریں، بدلتے اقدار اور تہذیبی تصادم کی عکسیں قدیم و جدید دونوں رنگوں میں جلوہ گر ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے ۱۹۷۹ء میں سرگودھا سے ان کے تبادلہ پر منائی گئی ایک شام میں پڑھے مضمون میں لکھاتھا:
’’پچھلے دنوں مجھے ان کی بیاض دیکھنے کا اتفاق ہوا تو میں ان کے رنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا لیکن میں چونکہ جدیدیت کا والہ و شیدا ہوں اس لئے میں ان کی جدید رنگ کی غزلوں پر سر دُھنتا رہا۔ ابھی تک میں اُن کی غزلوں کے سحرسے باہر نہیں آسکا۔‘‘
(جاری)
بلّے صاحب کا اشہب قلم اتنا برق رفتار تھا کہ تصوف، تخلیق، تنقید، صحافت و کالم نگاری، تمثیل نگاری اور اسٹیج آرٹ کے میدانوں کو سر کرتا چلا گیا۔ ڈیڑھ سو سے زائد ان کی تصنیفات و تالیفات ہیں۔ روحانی بزرگوں پر مدون کتابیں اور مذہبی موضوعات و فنون لطیفہ پر مقالات انھیں تصوف پر اتھاریٹی اور معتبر ادیب ثابت کرتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم‘‘ مستند تحقیقی علمی سرمایہ تسلیم کی جاتی ہے۔ ان کی تصنیف ’’اسلام اور فنون لطیفہ‘‘ کو فکرانگیز اور اہم قرار دیاگیا ہے۔ انہوں نے متعدد مضامین میں اردو اور قائد اعظم محمد علی جناح کو جن تحقیقی شواہد کی بنیاد پر ملتانی قرار دیا ہے اس کی ابھی تک نکیر نہیں کی جاسکی ہے۔موصوف گہری سیاسی بصیرت رکھتے تھے جس کے گواہ ان کے قطعات ہی نہیں بلکہ وہ بے شمار تقریریں بھی ہیں جو انہوںنے پاکستان کے صدور، وزرائے اعظم، صوبائی گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے لئے لکھی تھیں۔ اسی پر بس نہیں رہا یہ اپنے متعلقین کو بھی صاحبِ تالیف و تصنیف بنانے میں بڑے فیاض تھے۔
صحافت سے یہ دورانِ تعلیم علی گڑھ میں ہی وابستہ ہوگئے تھے۔ پندرہ روزہ ’’دی یونین علی گڑھ‘‘ کے ایڈیٹر شپ سے آغاز کیا تو بانی ایڈیٹر ماہنامہ ’’جھلک ‘‘علی گڑھ، جوائنٹ ایڈیٹر روزنامہ ’’نوروز‘‘ کراچی، جوائنٹ ایڈیٹر ’’بہاولپور ریویو‘‘، ایڈیٹر ماہنامہ ’’لاہور افیرز‘‘، ایڈیٹر ہفت روزہ ’’استقلال‘‘ لاہور، ایڈیٹر ماہنامہ ’’ویسٹ پاکستان‘‘ لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ’’فلاح ‘‘ لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنا مہ ’’اوقاف‘‘ اسلام آباد، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’’ہم وطن‘‘ اسلام آباد، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’’یارانِ وطن‘‘ اسلام آباد، بانی چیف ایڈیٹر پندرہ روزہ ’’مسلم لیگ نیوز‘‘ لاہور، بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’نوائے بلدیات لاہور‘‘ اور بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’’ہمارا ملتان‘‘ رہے۔ جن شعبوں،اداروں اور محکموں سے وابستہ رہے ان کے کتابچے، سوینیرز اور بروشرز ان پر مستزاد ہیں۔
انہوں نے پرفارمنگ آرٹس پر قابل توجہ اور اہم کام کیا ہے۔ انہیں تمثیل نگاری اور ڈرامے سے ایسی دلچسپی تھی کہ جب آرٹس کونسل کے سربراہ تھے تو انہوںنے ۱۹۸۷ء میں ۱۵؍روزہ ملتانی جشن تمثیل کا انعقاد کیا اور اس میں روزانہ نئی ٹیم، نئی اسکرپٹ اور نئے سیٹ پر مختلف قسم اور طرز کے ڈرامے پیش کئے۔ اس جشن کی بین الاقوامی طور پر شہرت ہوئی۔ اسے جس نے دیکھا اس کو تھیٹر کی دنیا کا عجوبہ قرار دیا۔ اس عظیم الشان کارنامے کے صلہ میں انہیں’محسنِ فن‘ اور ’مین آف دی اسٹیج‘ کا خطاب دیاگیا۔ درگاہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے سجادہ نشیں اور پاکستان کے مرکزی وزارت میں شامل رہے شاہ محمود قریشی نے کہا تھا:
’’سید فخر الدین بلّے نے ملتان میں ایسی بہت سی چیزوں کی بنیاد رکھی جس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ ان کے علاوہ انہوں نے ۲۵؍روزہ جشنِ تمثیل کا دھماکہ کرکے اسٹیج کی دنیا کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ فنون و ثقافت کے دلدادگان کو بھی چونکا دیا۔ ان کی خدمات کو دنیا کے لوگ اور ملتان فراموش نہیں کرسکتے۔‘‘
موصوف حد درجہ تعمیری ذہن کے حامل تھے۔ انہوں نے تخلیق کاروں، فنکاروں، شاعروں، ادیبوں، دانشوروں کی ایک تنظیم ’’قافلہ‘‘ کے نام سے بنائی تھی جس کی نشستیں لاہور اور ملتان میں خود کی اقامت گاہ پر اور بہاولپور میں تابش الوری کی رہائش گاہ پر ہوا کرتی تھیں۔ سرائیکی ویب کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ، فنکاروں کی حوصلہ افزائی، مختلف شعبوں میں ’’جوہر قابل‘‘ کی دریافت اور پذیرائی کے لئے ’’پنجند اکادمی‘‘ بنائی۔ اس کے قیام پر جو کتابچہ شائع کیا اس کی ایک ایک سطر میں بلّے صاحب کے خواب دکھائی دیتے ہیں۔غیر معروف قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا جس کا نام اپنے بزرگوں سے منسوب کرکے ’’معین اکادمی‘‘ رکھا اور اس کے تحت متعدد ادیبوں کی کتابیں شائع کیں۔
لہٰذا بلّے صاحب کا شمار بلند و بالا علمی و ادبی شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان کی شخصیت کے متعدد رخ تھے اور ہررخ روشن اور اہم تھا۔وہ ممتاز شاعر، قلمکار، صحافی، ماہر تصوف، ماہر اقبالیات، ماہر ارضیات اور بیوروکریٹ بھی تھے۔ انہوں نے علم، ادب، صحافت اور ثقافت کے میدانوں میں انمٹ نقوش ثبت کئے۔ جہاں رہے، جس مقام اور عہدہ پر رہے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ ایسی شخصیتیں زمانے میں خال خال پیدا ہوتی ہیں جو اپنے کارناموں کی بدولت مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہیں۔ لہٰذا موصوف خود اپنے اس شعر کی مصداق ہیں:
الفاظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
……٭……
ریجنل ڈائریکٹر (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ) ، کولکاتا ریجنل سینٹر
۱-اے/۱،چھاتو بابو لین ، (محسن ہال ) ، تیسری منزل کولکاتا-۱۴ موبائل
: 08902496545 / 9431085816
ای میل : [email protected] بلاگ : drimamazam.blogspot.com