9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمد اویس سنبھلی
سید ضیاء الحسن(۱۹۴۰۔۲۰۲۰) گذشتہ ایک ماہ سے وہ سخت علیل تھے اور یرا میڈیکل کالج میں بائی پاس سرجری کے بعد سے ہی ICUمیں تھے۔صحت یابی کی کوششیں جاری تھیں مگر آج(۲۸؍مارچ ۲۰۲۰ء) سہ پہر میںان کے داماد برادر بزرگ سہیل قدوائی نے استاد محترم کے انتقال کی اندوہناک خبر دی ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اورقرب کا اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین۔
میرا ان سے بڑا قریبی تعلق رہا۔۲۰۰۴ء میں لکھنؤ آنے کے بعد اپنے عزیز و اقارب کے علاوہ جن لوگوں سے تعلق ہوا ان میں ایک نام استاد گرامی قدر سید ضیاء الحسن صاحب کا تھا۔وہ انتہائی خوش گفتار ، خوش اخلاق اور ملنسار شخصیت کے حامل تھے۔ مضمون نگاری کے ابتدائی دنوں میں مجھے ان کی رہنمائی حاصل رہی۔ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کے ادبی کارناموں پر جب کتاب مرتب کرنے کا ارادہ کیا تو اس سلسلہ میں احمدابراہیم علوی کی رہنمائی پرجن لوگوں سے میری ملاقات ہوئی ان میں عرفان عباسی مرحوم اور ضیاء الحسن صاحب کے نام شامل ہیں۔ضیاالحسن صاحب نے میری درخواست پر سعادت علی صدیقی کے خطوط کے حوالے سے ایک مضمون’’مکتوبات سعادت میں اردو کی فکر‘‘ قلم بند کیا۔ انھوں نے لکھا تھا:
’’سعادت نے واقعی ایسی زندگی گزاری کہ ان کے انتقال کے وقت سب رو رہے تھے اور وہ خوش خوش اپنے مالک حقیقی کے دربار میں حاضر تھے۔ خوشی کا سبب یہ تھا کہ اس نے ایک مقصد کے تحت زندگی گزاری اور اس مقصد کی تکمیل میں جان دے دی یعنی اردو کو اس کا جائز حق دلانے کے لیے زندگی کی آخری سانس تک لڑتا رہے۔‘‘(اعتراف سعادت صفحہ ۱۱۰)
راقم الحروف نے اس کتاب کا نام ’’اعتراف سعادت‘‘ رکھا۔ اس کتاب کی تیاری میں انھوں نے میری سرپرستی فرمائی اور میرے حوصلے کو بھی بڑھایا۔انھوں نے اس کتاب کے بارے میں لکھا کہ ’’عزیزی اویس سنبھلی کی ’’اعتراف سعادت‘‘ نامی اس کتاب میں برادرم سعادتؔ کے اردو سے والہانہ عشق اور ان کی کاوشوں سے متعلق مختلف اہل علم اور اہل قلم کے ایسے مضامین شامل ہیں جن سے سعادتؔ کی خدمات کا اعتراف ہوتا ہے۔ اس مناسبت سے یہ نام موزوں ترین نام ہے‘‘۔
یاد آتا ہے کہ ایک مرتبہ و ہ رابطہ ادب اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے حیدرآباد کے سفر پر جا رہے تھے ، مجھے فون کیا کہ اب تک جو مضامین لکھے ہیں وہ سب مجھے دے دو۔ میں تمام مضامین لے کر گھرپہنچا تو بتایا کے کل صبح حیدرآباد کا سفرہے ، سفرچونکہ طویل ہے اس لیے راستے میں ان مضامین کو دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔ سفر سے واپسی پر مجھے بلایا اور سارے مضامین مجھے واپس کر دیے۔ ان مضامین کو انھوںنے نہ صرف بغور پڑھا بلکہ میرے ٹاٹ جیسے مضامین میں مخمل کے پیوند لگا کر انھیں اس لائق بنا دیا تھا کہ کہیں شائع ہوسکیں۔
وہ ہمیشہ میری رہنمائی اور سرپرستی کرتے رہے۔جب میں نے حضرت داغ دہلوی کے شاگرد خاص باغ سنبھلی کا کلام ترتیب دینا شروع کیا تو اس میں سب سے بڑا مسئلہ اس کے پڑھنے کا تھا۔ سیکڑوں بوسید کاغذوں اور ایک بیاض میں ان کا کل کلام بکھرا پڑا تھا۔ میں نے اس کا ذکر جب استاد گرامی سید ضیا ء الحسن صاحب سے کیا تو انھوں نے ایک منٹ کا وقت بھی نہیں لیا اور کہا کہ آپ وہ سب میرے حوالے کردیں۔پھر تقریباً دو ماہ تک وہ اسی کام میں لگے رہے اور پانچ کاپیوں پر باغ سنبھلی کے مکمل کلام کو انھوں نے نقل کرکے میرے حوالے کردیانیز باغ سنبھلی اور ان کی شاعری پرایک سیر حاصل مضمون لکھا جسے اترپردیش اردو اکادمی کا ترجمان’’اکادمی‘‘ نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ۔ یہ مضمون بعد میںان کے مجموعہ مضامین ’’نقوش پارینہ ‘‘ میں شامل ہوا۔اس کتاب کا پیش لفظ ممتاز صحافی حفیظ نعمانی نے لکھا تھا۔حفیظ نعمانی صاحب نے نقوش پارینہ میں شامل مضامین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھاکہ:
’’نقوش پارینہ‘‘ ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جن میں کم از کم دو مضمون ایسے جن کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے اور تعریف کی جاسکتی ہے۔ دو چار مضامین ایسے ہیں جو رفت گذشت کی فہرست میں آتے ہیں اور کئی مضامین ایسے ہیں کہ اگر موقع ملے تو جی کھول کر ان پر لکھا جائے۔‘‘(نقوش پارینہ صفحہ ۹ ؍ اکتوبر۲۰۱۳ء)
جون۲۰۱۴ء کی بات ہے کہ میں ان سے ملنے پہنچا اور اس بات کا ذکر کیا کہ مجھے کرایے پر مکان کی تلاش ہے اگر آپ کی نظر میں کوئی مکان ہو تو ذہن میں رکھئے گا۔انھوں نے کہا اگر چاہیں تو میری بیٹی زیبا کا مکان (جو ان ہی کے مکان کا ایک حصہ ہے ) خالی ہے ،آپ اس میں رہ سکتے ہیں۔ مجھے اس کی تو توقع بھی نہ تھی۔ میں نے فوراً ہاں کردی۔ مکان دیکھا اور اس میں کچھ کام کراکر میں وہاں شفٹ ہوگیا۔اور تقریباً تین برس تک اسی مکان میں رہا۔ مجھے ان کی شفقت اور محبت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔وہ ایک شفیق باپ کی طرح میری سرپرستی کرتے رہے ۔ تقریباً روز یا ایک دن چھوڑ کر رات میں بیٹھنے آتے اور خیریت دریافت کرتے۔انھوں نے کبھی اس کا احساس نہیں ہونے دیا کہ میں کسی کرایے کے مکان میں رہتا ہوں۔ ہم بڑے ابو اور اماں کی سرپرستی کو اپنے لیے کسی نعمت سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ان کے دونوں بیٹھے رضوان بھائی اور عمران بھائی نے بھی ہمیشہ ایک چھوٹے بھائی کی طرح میرا خیال رکھا، گھر کے دیگر بچے بھی بالکل ایسا ہی تعلق رکھتے تھے۔استاد محترم کے چھوٹے بھائی ،صاحب طرز ادیب سید قمرالحسن صاحب نے بھی ہمیشہ بڑی شفقتوں سے نوازا۔ان کے اخلاق کی بلندی کا عالم یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مجھے ’’اویس بھائی‘‘ کہہ کرپکارتے ہیں۔مجھے بڑی شرمندگی بھی ہوتی لیکن یہ ان کی خاندانی وضع داریاں ہیں جو وراثت میں انھیں اپنے والدین سے حاصل ہوئی ہیں۔قمر بھائی جب بھی ملتے ہیں بڑی محبت سے خیریت دریافت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔
سید ضیاء الحسن صاحب نے زندگی بھر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ قلم سے اپنا رشتہ استوار رکھا۔ اپنے والد ماجد مولانا نورالحسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر ’’حیات نور‘‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی۔ اس کتاب میں مولاناؒ کی حیات مبارکہ پر مختلف اہل قلم کے مضامین شامل ہیں۔اس کے بعد اپنے خالو مصطفی علی اثیر کا کلام مرتب کرکے شائع کیا۔ یہ کتاب ایک کامیاب شاعر کے کلام کا بچا کھچاحصہ ہے۔ خدا مغفرت فرمائے استاد محترم سید ضیاء الحسن صاحب کی کہ انھوں نے اس سرمایہ کو ضائع ہونے سے بچا لیا۔ یہ اور نقوش پارینہ دونوں کتابیں ۲۰۱۳ء میں شائع ہوئیں۔نقوش پارینہ میں کل ۲۰؍ مضامین شامل ہیں۔استاد محترم سید ضیاء الحسن نے مجھے حکم دیا کہ اس کتاب کی پشت پر چند سطرں میں بھی لکھ دوں، یہ میرے لیے بڑا امتحان تھا لیکن انکار کی جرأت نہیں کرسکا اور جوکچھ لکھا تھا اسے آج پھر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں:
’’اپنے مشفق و محترم استاد نیز ان کے مجموعہ مضامین کی بابت کچھ عرض کیا جائے تو کیسے اور نہ عرض کیا جائے تو تاب انکار کہاں سے لائی جائے، ایک عجیب کشمکش ہے جس کا میں گرفتار ہوں لیکن تعمیل حکم کا جذبہ ہے کہ میرے قلم سے کہے جارہا ہے ع
چل میرے خامہ بسم اللہ
اردو لغات میں ایک لفظ ملتا ہے وضع داری، اس کے چلتے پھرتے نمونے اب چند ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ استاد محترم بھی یقینا ان میں سے ایک ہیں۔ اپنے خوردو نوش میں، نشست و برخاست میں، لباس میں، کلام میں غرض اپنی ہر ادا میں وضع داری کا ایک نمونہ نظر آتے ہیں۔ ان کی تحریر بھی ان کے اس وصف کا ایک مظہر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔یہ مجموعہ مضامین’’نقوش پارینہ ‘‘ میرے ہی اصرار کا نتیجہ ہے، اس لیے کچھ زیادہ تو نہیں عرض کرسکتا، لیکن اتنا کہے بغیر بھی نہیں رسکتا کہ اس زبان وا دب کو ملاحظہ کرنے کے بعد ان کا موازنہ آج کل کے ان ’’بابایانِ اردو‘‘ کی نگارشات سے بھی کرلیں جن کے یہاں زبان تو ملتی ہے لیکن ادب مفقود رہتا ہے اور جن کی تحریر مافوق الفطرت قسم کی چند اصطلاحات و تعبیرات سے اتنی بوجھل ہوجاتی ہیں کہ وہ عام قاری کے لیے قابل فہم نہیں رہتیں۔ استاد محترم کی تحریریں ایسے بوجھوں سے آزاد اور ادب کی چاشنی سے بھر پور ہوتی ہیں۔‘‘
نقوش پارینہ کے بعد ان کے مضامین کا ایک اور مجموعہ ’’غبار قلم‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔غبار قلم کا پیش لفظ ڈاکٹرعمیر منظر نے لکھا ہے۔ کتاب میں شامل مضامین اور صاحب کتاب پرتبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عمیر منظر لکھتے ہیں:
’’جناب ضاء الحسن صاحب کی کتاب ’’غبار قلم ‘‘مختلف مضامین کا مجموعہ ہے مگر مختلف مضامین کو اس طرح مجموعہ کی شکل دی گئی ہے کہ اس سے لکھنؤ،اردو تہذیب اور ثقافت کا رنگ نمایاں ہوگیا ہے ۔وہ خود لکھنؤ کے ہیں اور اس سے قبل ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ انھوں نے نصابی ضرورتوں کے تحت بھی کتابیں ترتیب دی ہیں اور بعض تحقیقی کام بھی کیے ہیں ۔فاضل مصنف تصنیفی و تالیفی کوچے کے آشناؤں میں ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ لکھنے کامقصد کیا ہے اور کس طرح اسے لکھا جائے ۔۔۔۔۔۔۔یہ کتاب ان کی یادوں کا مجموعہ کہی جاسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتاب کے مطالعہ سے ضیا ء الحسن صاحب کی منفرد طبیعت اور ہمہ جہت مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے ۔چونکہ وہ ایک عرصہ تک درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں ۔اس لیے بہت سی چیزیں انھوں نے طلبہ کی ضرورتوں کو پیش نظر لکھی ہیں اور ایسے مضامین بھی جو ہمارے ادب کا حصہ ہیں ۔(پیش لفظ ’’غبار قلم‘‘ ۲۰۱۷ء)
ضیاء صاحب تقریباً ۳؍ برس تک اترپردیش اردو کادمی کے ترجمان سہ ماہی ’’اکادمی‘‘ اور ماہنامہ ’’خبر نامہ‘‘ کا اداریہ لکھتے رہے۔اس کے علاوہ بچوں کے لیے انھوں اصلاحی کہانیاںاور اِرم اردو قواعد (تین حصے) بھی لکھیں۔
علم وادب سے ان کا ایک والہانہ اور اٹوٹ رشتہ رتھا۔انھوں نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا کام بھی کیا اور اسی کے ساتھ بے شمار لوگوں کو قلم پکڑنا سکھایا ۔دراصل خود لکھنا اور صاحب قلم ہونا آسان ہے لیکن اپنے بعد کی نسل کو اس لائق بنانا اور ان کی ایسی تربیت کرنا کہ آیندہ وہ علم وادب کے کارواں کو آگے بڑھائیں میرے نزدیک ان کا ایک اہم کارنامہ ہے ۔تہذیبی شائستگی اور ثقافتی قدروں کے پاس دار اور امین تو وہ تھے ہی ۔ساتھ ہی انھیں کبھی نہ اپنے بڑے ہونے کا احساس رہا اور نہ یہ سمجھا کہ لوگ مجھ سے چھوٹے ہیں ۔اپنے تئیں وہ لوگوں کی ترتیب و تہذیب پوری زندگی کرتے رہے ۔ان کی یہی خدمت مجھ جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کو یاد رہے گی ۔
سید ضیاء الحسن صاحب ۱۲؍نومبر ۱۹۴۰ ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ حفظ قرآن کے علاوہ ،منشی ، کامل، عالم، فاضل ادب کرنے کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے(آرنرز)، ایم اے (اردو ، فارسی) کیا نیز جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب ماہر ، ادیب کامل اور معلم اردو کی تعلیم حاصل کی ۔کچھ دن جیلانی کالج الہ آباد میں ملازمت کی اس کے بعد امیرالدولہ اسلامیہ کالج ، لکھنؤ کے شعبۂ ادبیات فارسی و اردو سے وابستہ ہوگئے اور یہیں سے ۲۰۰۲ء میںریٹائر ہوئے۔تقریباً ۸۰؍برس کی بھرپور زندگی گزار کر انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔بعد نماز مغرب مرحوم کی نماز جنازہ ڈاکٹر سید غیاث الدین نے پڑھائی اور تدفین تکیہ تارن شاہ کھدرا میں کی گئی۔افسوس اب صرف یادیں رہ گئیں ہیںجنھیں سمیٹ پانا بھی اس وقت بڑا مشکل ہورہا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کی مغفرت فرمائے ، پسماندگان اور جملہ متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔
ضضض
٭٭٭