9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
احمد رضا قادری
میرا یہ سفر ہر طریقوں سے کامیاب رہا،،،،،۔۔۔
ذہن و دماغ میں ہزاروں باطل خدشات کے طوفان اٹھتے رہے ۔ نہ جانے کتنے شیطانی وسوسو ں اور طاغوتی طاقتوں نے میری ہمت اور عزم و استقلال کو توڑنے کی کوشش کی لیکن۔۔۔جس کو خدا رکھے اس کو کون چکھے۔۔۔۔
، کبھی شیطان نے ذہن میں یہ بات ڈالی تم اس لائق نہیں ، کبھی سستی اور غفلت کی چادر اوڑھانے کی کوشش کی۔ کبھی راحت اور چین و سکون کا سبز باغ دیکھانے کی کوشش کی، تو کبھی شیطان رجیم نے ورغلایا۔۔ لیکن اس راندہ بارگاہ کو کیا معلوم جس نے دائمی رذالت کا طوق اس کے گردن میں ڈالا وہی رب العزت اپنے اس گنہگار بندے کو اپنے محبوب بندے کے پاس بھیج رہا ہے تو بھلا شیطان کے دام فریب میں کیسے پھنس سکتا تھا۔
اس کے باوجود شیطان رجیم نے ایسے راستے پر مجھےلا کھڑا کیا جہاں سے تین راستے نکلتے تھے یعنی میری ٹرین چھوٹ گئی، ایک راستہ اس شہر کو جاتا تھا جہاں میں مقیم ہوں۔۔ ایک واپسی گھر کو۔ اور ایک میرے پیرو مرشد کے شہر کو ۔۔ ایک بار پھر شیطانی وسوسوں اور طوفانی خیالوں میں گھر گیا ، لیکن۔۔۔۔۔ ہمت مردا مدد خدا۔۔۔ خدا کی غیبی طاقت نے مدد کی ، مردود شیطان رُسوا ہوا، اور میں دوسری ٹرین پکڑ کر شہر مراد یعنی مرادآباد پہنچا اور میری پہلی نگاہ اس عمارت پر پڑی جن کو خانقاہ کہا جاتا ہے، خانقاہ کے دروازے کے قریب ایک شخص کو دیکھا جو سائیکل لیے کھڑا ہے اور سر پر کٹھی رنگ کا عمامہ شریف باندھے ہوئے ہیں جو کھیتوں میں فصلوں پر کھاد چھینٹ کر آئے ہوئے تھے، ان کی رہنمائی میں مسافر روم تک پہنچا یعنی وہ کمرہ جو خانقاہ میں مسافروں کے لیے مخصوص ہے، ان کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ یہ بڑے سرکار کے بھائی ہیں،پھر چھوٹے حضرت سے ملاقات ہوئی ۔ جن کے لطف و عنایت سے محظوظ ہوئے، اور ساتھ میں ملکر ہم سبھوں نے کھانا کھایا ۔اور پھر جلدی سے دستر خوان سے فارغ ہوکر اپنے پیرو مرشد صوفی با صفا *حضرت العلام الشاه الصوفی ظہیر القادری مد ظلہ العالی والنورانی* سے ملاقات کا شرف حاصل کیا، بڑے سرکار کسی وکیل سے دینی بات پر محوِ گفتگو تھے ایسے میں مجھے وہاں شاید جانا مناسب نہ تھا پھر بھی گیا اور اپنے دل کی بات حضور کے سامنے رکھی، اور الحمدللہ بڑے سرکار خاموشی سے سنتے رہے،، پھر بڑے سرکار نے جو ارشاد فرمایا وہ ہمارے لیے قابل رشک تھا ۔۔ وہ ادارہ جن کو خانقاہ کہا جاتا ہے یہاں سے لا تعداد لوگ شفا اور فیض پا رہے ہیں یہاں کا ہر طالب علم ایک سالک، یہاں ہر لا علاج کا علاج ، اور ہر مرض کی دوا ہے ۔ میری نگاہوں سے کینسر تک کے مریض بھی گزرے ہیں ،، یہی نہیں بلکہ ایمس دلّی کے ریفرڈ مریض بھی یہاں موجود ہیں ۔۔ اور شفا پا رہیں ہیں۔ واقعی پورا علاقہ فیضیاب ہو رہا ہے ۔ ادارے کا ماحول خالص دینی فکر اور خلوص و للہیت پر مبنی ہے جس میں عصری تعلیم بھی زورو شور سے دی جا رہی ہے تاکہ طالب علم دینی اور عصری تعلیم سے آرستہ ہوکر باہر جب نکلے تو زمانے کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے ۔۔ اور ملکی ترقی میں تیزی سے معاون بن سکے ۔۔ بڑے سرکار کے ما تحت کافی تعداد میں اسکول وغیرہ چل رہے ہیں جن میں اپنا نصاب لاگو ہے یا عنقریب ہونے والا ہے ۔۔ آپ کے ما تحت ہندالولی،،، اکیڈمی چلایا جاتا ہے جس میں UPSC ، ssc ، army۔۔ وغیرہ کی تیاری کروائی جاتی ہے گویا کہ ملکی تعمیر میں بڑے سرکار کی حصے داری کافی زوروں پر ہے ۔۔
اس کے علاوہ اور بھی مثلاً عربک انگلش میڈیم ادارے میں نصاب کا نفاذ، عوام کی خاطر تعلیمی خدمات کے لیے زمین کا وقف کرنا، طالب علم کی عصری و دینی تربیت، اگر واقعی کسی فرد کو دینی و ملی اور سنت سے پرنور ماحول دیکھنا ہو تو وہ چاند پور مرادآباد چلا جائے،
ایسے دینی و ملی اور عصری خدمات اور بھی ہیں جن کو بہ وجہ طوالت ضبط تحریر نہیں لایا جا رہا ہے۔۔۔آخر میں میں مخلص و محب مفتی شارق اور سید اعجاز صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی رہنمائی میں اپنے مراد کو پہنچا اور شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں دوست محترم مفتی نوشاد صاحب کا جن کی صاف گوئی اور سچی دوستی نے ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیا اور ان تمام سالکین اور خانقاہ کے بچوں کا جن کی محبت نے مجھ کو اپنا بنا لیا۔۔۔
مبارک باد ہے۔ صد قابل مبارک باد ہے