رہینِ ادب مضامین کا مجموعہ

0
271

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

منظور پروانہ

مہذب اور تہذیب یافتہ معاشرے میں خواتین کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے۔ اس لحاظ سے معاشرے کی ہر عورت قابل احترام ہے۔ مگر ہماری ستائش کی زیادہ حقدار وہ خواتین ہیں جو اپنی تمام تر ذمہ داریوں اور مصروفیات کے باوجود اپنی تخلیقات کے ذریعہ معاشرے میں بیداری اور ادبی و علمی اقدار کے فروغ کے لئے ہمہ وقت مصروف کار ہیں۔ ایسی ہی خواتین میں ایک نام ہے زیر تبصرہ کتاب ’’رہینِ ادب‘‘ کی مصنفہ ڈاکٹر جہاں آرا سلیم کا۔
ڈاکٹر جہاں آرا سلیم کا قلمی سفر جو ان کی طالب علمی کے زمانے سے شروع ہوا وہ برابر جاری ہے انھوں نے اپنی تمام تر خانگی ذمہ داریوں کے ساتھ ہی اپنے قلمی سفر کو جاری رکھا۔ اپنے ادبی ذوق اور اردو سے محبت رکھنے کی وجہ سے انھیں ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور دانشوروں سے ملاقات کرنے کے مواقع ملے۔ یہ مواقع انھیں ادبی نشستوں ، سیمیناروں اور دوسرے پروگرام میں شرکت کرنے اور اپنے دولت کدہ پر ایسی تقریبات کرنے سے حاصل ہوئے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’رہینِ ادب‘‘ ڈاکٹر جہاں آرا سلیم کی نثری تخلیقات پر مشتمل پہلی کتاب ہے یہ کتاب کل ۲۳؍مضامین پر مشتمل ہے اور یہ مضامین ان ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور دانشوروں پر ہیں جن سے مصنفہ نے ان کی حیات میں ملاقات کی۔ اس کتاب میں شامل مضامین کے سلسلے میں ڈاکٹر جہاں آرا سلیم ’’اپنی بات‘‘ کے عنوان سے تحریر اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں کہ ’’زیر تبصرہ کتاب’ رہینِ ادب‘ میں شامل مضامین زیادہ تر مختلف رسائل و جرائد میں مختلف اوقات میں شائع ہو چکے ہیں۔ کچھ مضامین رسائل کے لئے لکھے گئے اور کچھ کے لکھنے کی تحریک متعلقہ شخصیت کی قلمی کاوشوں سے ملی۔‘‘
تخلیقی عمل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وہ اپنے اسی مضمون میں تحریر کرتی ہیں کہ ’’کچھ لوگوں کا خیال ہے تخلیقی عملی الہامی ہوتا ہے۔ ممکن ہے اس میں کچھ سچائی ہو لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مطالعہ کے بغیر ادب کی دنیا میں تازہ کار بنے رہنا ممکن نہیں۔‘‘
’’قلم کی روشنائی کا بہتر استعمال‘‘ یہ عنوان ہے رضوان احمد فاروقی کے مضمون کا جو زیر تبصرہ کتاب میں مقدمہ کے طور پر شامل ہے۔ اس مضمون میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’مصنفہ نے ہر کس و ناکس پر یا ہر بڑے سمجھے جانے والے قلم کار پر، صفحات کی تعداد بڑھانے کی غرض سے قلم نہیں چلایا بلکہ جن کو بہ چشم خود دیکھا، سمجھا، پر کھا یا متاثر ہوئیں، انھیں پر قلم کی روشنائی کا بہتر استعمال کیا۔‘‘
زیر تبصرہ کتاب میں شامل تمام مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ تمام مضامین ذاتی تجربات اور ذاتی مشاہدات کی روشنی میں تحریر کئے گئے ہیں۔ یہ مضامین تاثراتی بھی ہیں اور تجزیاتی بھی۔ تمام مضامین میں علمی، ادبی، تہذیبی نیز ثقافتی حقائق کے احاطہ کی کوشش کی گئی ہے۔ چونکہ یہ تمام مضامین ذاتی مشاہدات پر مبنی ہیں اس لئے ان میں کچھ ایسے حقائق سے آگاہی ہوتی ہے جو عام طورپر ہمارے علم میں نہیں تھے۔ اس مجموعہ میں شامل کچھ مضامین مین ایسے بھی ہیں جن کو خاکہ نگاری سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
حسن واصف عثمانی، صرف ایک غیر معمولی صحافی ہی نہ تھے بلکہ وہ کئی زبانوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے اچھے مترجم اور ناول نگار کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت رکھتے تھے۔ حسن واصف عثمانی سے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جہاں آرا سلیم اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں کہ ’’تاریخ، اسلامی علوم، تصوف اور ادب بھی ان کے دلچسپ موضوع تھے۔ یہ تمام باتیں میرے علم میں اس وقت آئیں۔ جب ان کی شفقت اور انکساری سے متاثر ہوکر میں اکثر ان سے ملنے آفس پہونچ جایا کرتی تھی۔‘‘
اپنے اسی مضمون میں وہ یہ بھی تحریر کرتی ہیں کہ ’’انہیں کھانسی کی شکایت تھی پختہ حوالوں سے انکشاف ہوا کہ انھیں پائپ کا شوق تھا۔ انگلیوں میںپائپ دباکر بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ فلسفیانہ گفتگو کرتے تھے۔‘‘
پختہ حوالوں کی بات اپنی جگہ مگر حسن واصف عثمانی سگار کے کتنے شوقین تھے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بے تکلف دوست انھیں سگار عثمانی کے نام سے یاد کرتے تھے۔
منظر سلیم کا نام سنتے ہی ہمارے سامنے ایک ایسی شخصیت کا ہیولا سامنے آجا تا ہے جو نہ صر ف شاعر تھا بلکہ ایک باوقار صحافی اور بہترین مترجم اور ناول نگار بھی تھا۔ دانش محل امین آباد میں ان کے ساتھ بیٹھنے والوں کو ان کا یہ جملہ آج بھی یاد آتا ہوگا۔ جو وہ دانش محل میں داخل ہوتے ہوئے کہتے تھے یعنی کوئی ’’نیا اسکینڈل ‘‘ منظر سلیم کے سلسلے میں ڈاکٹر جہاں آرا سلیم اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں کہ ’’وہ تمام قلم کار جو ترقی پسند نظریات اور تحریک سے اپنے تمام فکری توازن کے جڑے رہے لیکن کبھی انتہا پسندی کا شکار نہیں ہوئے۔ ان قلم کاروں میں ایک نام منظر سلیم بھی نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ شاعری ہو کہ تنقید، ناول نگاری یا صحافت، اظہار و ابلاغ کے تمام شعبوں میں انھوں نے اپنے ذہنی و فکری توازن کا مظاہرہ کیا۔ ‘‘
ملک زادہ منظور احمد کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر جہاں آرا سلیم یوں رقم طراز ہیں کہ ’’منظور صاحب کی شخصیت میں درویشانہ صفت بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔ وہ کل کی فکر سے آزاد رہتے تھے اور کہا کرتے تھے، اپنے حال میں خوش رہنے کی عادت ڈالو۔ کل کی فکر میں خود کو پریشان کرنے سے کوئی فائدہ ! انھوں نے اپنا کوئی گروپ نہیں بنایا۔ وہ سب کے ساتھ تھے۔‘‘
وارث علوی کا نام تنقید کے حوالے سے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ وارث علوی کے تنقیدی نظریات پر ڈاکٹر جہاں آرا سلیم نے وارث علوی کے خیال کو اس طرح پیش کیا ہے کہ ’’وارث علوی کا خیال تھا کہ ایک تنقید نگار کو ہمیشہ قاری رہنا چاہئے۔ تبھی وہ ادب کی تنقید کے ساتھ انصاف کر پائے گا۔ اسے اپنے اندر کے قاری کو کبھی مرنے نہیں دینا چاہئے۔‘‘
عابد سہیل فکشن، فکشن کی تنقید اور صحافت کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ جہاں آرا سلیم نے عابد سہیل کے فن اور شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے کہ ’’عابد سہیل کے افسانوں کی خوبی یہ ہے کہ ایک معمولی واقعہ کو ہنر مندی کے ساتھ بڑے افسانے میں منتقل کر دیتے تھے۔ ان کے افسانوں میں دریا کی طغیانی نہیں بلکہ دریا کی روانی پائی جاتی ہے۔‘‘
اسی مضمون میں وہ یہ بھی تحریر کرتی ہیں کہ ’’وہ قابل تو تھے ہی لیکن انھیں خود بھی اپنی برتری کا احساس تھا اور اس احساس کو دوسروں پر عیاں کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔‘‘
سلمان عباسی کی درد مندی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر جہاں آرا سلیم رقم طراز ہیں کہ ’’ وہ حساس دل کے مالک تھے۔ صرف اپنے متعلق ہی فکر مند نہیں رہتے تھے۔ انھیں دوسروں کی بھی فکر رہتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک موقع پر انھیں لکچر ر شپ کا موقع ملا تو انھوںنے شبنم نوری صاحب کو دے دیا کہ وہ ان کی نظر میں زیادہ ضرورت مند تھے۔‘‘
’’رہین ادب‘‘ کا مطالعہ کرتے وقت ایک اور بات سامنے آتی ہے کہ ڈاکٹر جہاں آرا سلیم نے مضامین میں کہیں مصلحت پسندی سے کام نہیں لیا ہے۔ بلکہ صاف گوئی کو اختیار کیا ہے۔ جس کے ثبوت میں یہ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
’’لکھنؤ چونکہ اترپردیش کی راجدھانی رہا ہے، اس لئے یہاں سرکاری شعراء کی روایت کافی مضبوط رہی ہے اور جب تک وہ اپنے عہدوں پر فائز رہے ان کے مداحوں کی تعداد بھی اچھی خاصی رہی ۔ مگر جب وہ ریٹائر ہوئے یا تبدیل ہوکر دوسرے شہروں کو گئے تو ان کی شہرت بھی ان کے ساتھ ساتھ روانہ ہو گئی۔ ان میں یقینا کچھ تو ایسے تھے جن کے اشعارکی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔ مگر زیادہ تر وہ تھے کہ لوگوں نے جن کی شاعری کی قدر و قیمت کا تعین ان کے کلام سے نہیں بلکہ ان کے عہدوں سے کیا۔‘‘
اسی مضمون میں وہ آگے تحریر کرتی ہیں کہ ’’شمس الرحمان فاروقی ہمارے ان دانشوروں میں ہیں جنھوں نے ہماری ادبی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اگر ان کی نثری تصنیفات سے قطع نظر کر لیا جائے تو ان کی شاعری ان کے قد کو بڑھانے کے بجائے کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔‘‘
کتاب کا آخری مضمون ایک رپورتاژ ہے۔ اس مضمون کو پڑھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کیونکہ یہ مضمون کتاب میں شامل تمام مضامین سے بالکل مختلف ہے ۔ اس کا اسلوب ہی نہیں لفظیات بھی الگ رنگ کی ہیں۔ مثال کے طور یہ اقتباس پیش ہیں:
’’مہمانوں کے سامنے ایک بڑی سی میز اجلی چادر سے ستر پوشی کئے ہوئے ۔۔۔۔‘‘ اس پر ایک بونا سا گلدان، اس میں ایک ربرپلانٹ کی ٹہنی، چند منی پلانٹ کی ٹہنیاں، کچھ بوگن ولا کے گچھے، اور کچھ گیندے کے پھول ، اگر اس گلدان کی بابت کچھ کہا جائے تو یہ لکھنوی نفاست یا کسی کے پھولوں کے شوق کا مظہر ہے تو قطعی قابل قبول نہ ہوگا، گلے میں ہڈی بن کر پھنس جائے گی یہ بات۔۔۔۔۔۔۔، آپ چاہیں تو اس کو بھانو متی کا پٹارا نام دے سکتے ہیں اسے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔‘‘
مندرجہ بالامضامین کے علاوہ زیرتبصرہ کتاب ’’رہینِ ادب‘‘ میں احمد فراز، عرفان صدیقی، غلام رضوی گردش، والی آسی، انور ندیم، انور جلال پوری،نظیر اکبر آبادی، جوش ملیح آبادی اور فیاض علی وغیرہ پر کارآمد اور معلوماتی مضامین شامل ہیں۔ ان تمام مضامین سے یہ بات بالکل صاف ہے کہ ڈاکٹر جہاں آرا سلیم کی تحریر میں کوئی ابہام نہیں۔ آسان اور سادہ زبان کا استعمال ہے جس سے تحریر گنجلک پن کے عیب سے پاک ہے اسی لئے مفہوم کی ترسیل کا مسئلہ بھی نہیں اٹھتا۔
بہر حال مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک مفید اور معلوماتی کتاب ہے۔ قیمت مناسب ہی نہیں کم ہے، کتابت اغلاط سے پاک اور طباعت روشن ہے امید ہے کہ باذوق قارئین اسے خرید کر اس کا مطالعہ کر اپنے ادبی ذوق کو سیراب کریں گے۔
ضضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here