رمضان ، کورونا، زکوٰۃ اور ہماری ذمہ داری

0
175

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 


پروفیسر اسلم جمشید پوری

ماہِ رمضان شروع ہوئے کئی دن ہو گئے ہیں۔ یہ وہی مہینہ ہے جس کا ایمان والے بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔اس ماہ کو ہم کئی اہم عبادتوں کے لیے یاد کرتے ہیں۔ اس ماہ میں روزہ رکھنا فرض ہے۔ اسی ماہ قرآن کا نزول ہوا۔اسی ماہ تراویح کا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔ شب قدر بھی اس ماہ کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پنہاں ہے۔ اس ماہ ہر نیکی کا اجر ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ شیطان کو بھی قید کر دیا جاتا ہے، یعنی انسان خود شیطانی حرکات نہ کرے تو یہ مہینہ نیکیوں اور رحمتوں کا ہے۔ اس ماہ کو ہم زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے بھی یاد رکھتے ہیں۔زکوٰۃ ، اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میںسے ایک ہے۔
اس برس کا رمضان ، مخصوص حالات میں آیا ہے۔ کورونا وائرس نے خطرناک وبائی مرض کی طرح دنیا کے ایک بڑے حصّے کو گذشتہ کئی ماہ سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ دنیا میں اس بیماری سے متاثرین کی تعداد 29؍ لاکھ سے تجاوز ہو چکی ہے اور دو لاکھ سے زائدا فراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ یہ مرض ایک سے دوسرے میں تیزی سے پھلتا ہے، یہی سبب ہے کہ لوگوں کو گھروں میں خود قید ہونے کی تاکید کی گئی ہے۔ ساری اجتماعی عبادتیں، بھیڑ بھاڑ اورشور و غل کے علاقوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ خانہ کعبۂ ، مسجد نبوی سے لے کر تمام چھوٹی بڑی مساجد نماز اور نمازیوں کے لیے بند کر دی گئی ہیں۔ دوسری طرف دنیا کی ایک بڑی آبادی، جو ضروری اشیاء کے حصول سے محروم ہے۔ غریب بے چارے،جو روز کما کر روز کھانے کے دور سے گذرتے ہیں،ان کے لیے یہ دور بڑا مشکل دور ہے۔ اس پس منظر میں رمضان کے مہینے کی آمد ۔ ایسا لگتا ہے تپتی دھوپ ، آگ برساتا آسمان اور شعلے اگلتی زمین کے درمیان بادل کا ٹکڑا نظر آگیا ہو۔رمضان غربیوں ، یتیموں ، مسکینوں اوردبے کچلے افراد کے لیے ایک بڑی اُمید بن کر آیا ہے۔
رمضان میں زکوٰۃ کے علاوہ صدقات، عطیات، فطرات اور امداد کا سلسلہ بھی دراز ہوتا ہے۔ زکوٰۃ دراصل ہر صاحب نصاب (52تولہ چاندی یا7.5 تولہ سونا یا اس کے برابر دولت کی ملکیت) پر فرض ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ جس طرح بنا وضو کے نماز ادا نہیں ہوتی۔ کلمہ کے بغیر انسان اسلام میں داخل نہیں ہوتا ، روزہ کے طے وقت کے اندربنا کھائے پئے روزہ پورا نہیں ہوتا ٹھیک اسی طرح بنا حساب کتاب کے زکوٰۃ کا فرض ادا نہیں ہوتا۔ ہم میں سے بیشتربنا حساب کتاب کے اندازے سے زکوٰۃ نکال دیتے ہیں۔ زیورات ، بینک اور گھر میں رکھا کیش،استعمال ہونے والے گھر کے علاوہ زمین جائیداد ، دوسروں کو قرض دی گئی رقم، سب کا حساب اس طرح کرنا کہ ایک ایک پائی شامل ہو جائے، یعنی ساری ملکیت کو رقم میں تبدیل کر کے کل پر 2.5%حصّہ زکوٰۃ دینا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس طرح پائی پائی کا حساب لگا کر زکوٰۃ دیتے ہیں۔ مجھے ایسے میں جمشید پور میں اپنے مکان مالک مرحوم اسلام انصاری یا د آرہے ہیں۔ اسلام صاحب شہر آہن کے ایک بڑے بزنس مین کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی شہر کے معروف بازاروں میں رولڈ گولڈ کے زیورات(مصنوعی زیورات) اور عورتوں کی آرائش و زیبائش کے سامان کی تین دکانیں تھیں۔اچھی خاصی روزانہ کی آمد تھی۔ رمضان کے مہینے میں یوں ہوا کرتا تھاکہ وہ دکان میں موجود ہر سامان کی فہرست بنواتے تھے۔پھر اس کی قیمت کا حساب کتاب اوراس طرح زکوٰۃ نکالا کرتے تھے۔ کتنا ضروری ہے زکوٰۃ کے لیے حساب کتاب، یہ دراصل زکوٰۃ کے لیے روح جیسا ہے۔ اس کام کے لیے افسوس ہے کہ ہمارے یہاں اجتماعی طور پر کوئی طریقہ رائج نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں زکوٰۃ کا مصرف کرنے والے مدارس کی ایک طویل فہرست ہے لیکن Zakat Calculation centres نہیں ہیں۔
زکوٰۃ سے متعلق دوسرا اہم مسئلہ ، اس کا مستحقین تک پہنچنا ہے۔ یہاں بھی ہم لوگ اپنی طبعیت کی کسلمندی، سستی ، کاہلی اور بے توجہی کا شکار ہو کر کسی کوبھی رقم دے کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے زکوٰۃ ادا کر دی۔ زکوٰۃ کا مستحقین تک پہنچانا بھی ایک اہم ذمہ داری کا کام ہے ۔یہ مسئلہ موجود ہ عہد میں خصوصاً امسال کورونا جیسی مہلک بیماری کے زمانے میں جب لاکھوں کروڑوں افراد، دانے دانے کو محتاج ہیں۔ کچھ ایک وقت اور دو وقت کھا کر گذارا کر رہیں۔ ایسے میں زکوٰۃکے مستحقین کی تلاش زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ ایسے مسلمان جو اپنے کام کاج کے بند ہو جانے سے فاقے تک پہنچ رہے ہیں، ان تک آپ کا پہنچنا ضروری ہے۔ یتیم ، بیوائیں ، بے سہارا مسلمانوں تک آپ کی زکوٰۃ پہنچ جاتی ہے تو سمجھیں زکوٰۃ کا فرض ادا ہو ا، باقی معاملہ اللہ کا ہے کہ وہ شرف قبولیت بخشے۔
مذکورہ بالا دونوں معاملے یعنی زکوٰۃ کا صحیح حساب کتاب اور ادائیگی کے لیے زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا ، ملک کے بڑے مدارس ، اور بڑی تعلیم گاہوں ( اے۔ ایم۔ یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، جامعہ ہمدرد جیسے ادارے) کو چاہیے کہ وہ ہر شہر میں ایک ایسا مرکز قائم کریں ۔فی الحال آن لائن ہی کرنا ہوگا۔ ا ن مراکز پر لوگ اپنی دولت و جائیداد کا بیورا بتائیں اور مرکز میں ماہرین رِیاضی جو دین کی باریکیوں سے بھی کما حقہ واقف ہوں، وہ سارا حساب لگا کر ڈھائی فی صد کے حساب سے زکوٰۃ
کی رقم بتائیں۔ زکوٰۃ کے مستحقین کے نام پتے بھی بتا دیں۔زکوٰۃ دینے والے پہلے اپنے رشتہ داروں ، اقرباء ،محّلے ، بستی کے حقداروںکو زکوٰۃ دیں۔ بعد میں پورے ملک اور دنیا کے مستحقین افراد کوزکوٰۃ کا حصّہ ادا کریں۔ زکوٰۃنقد اوراشیاء کی شکل میں بھی دی جاسکتی ہے۔ اس کام میں مختلف شہروں کے قاضی حضرات ، پرسنل لا بورڈ کی شرعی عدالتوں کے قاضی، مفتیان کرام بھی اپنا تعاون پیش کر سکتے ہیں۔ ایسے تمام حضرات سے یہ بھی گذارش ہے کہ وہ اپنی اپنی سطح پر لوگوں کو زکوٰۃ صحیح صحیح ادا کرنے کی طرف مائل کریں اور زکوٰۃ کا حساب کتاب بہتر طور پرکروانے کے لیے اپنے موبائل نمبر ، وہاٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعہ مشتہر کریں، تاکہ زکوٰۃ کے ادا کرنے والے افراد ان سے رابطہ کریں اور اسلام کا ایک اہم فریضہ ایمانداری اور دیانت داری سے ادا ہو سکے۔
جہاں تک مستحقین کا معاملہ ہے اس میں ہمارے کچھ غیر سرکاری ادارے NGO’S اس وقت افطار کٹ وغیرہ کا انتظام کر کے، مستحقین تک پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔ زکوٰۃ کی رقم ان اداروں کو بھی دی جاسکتی ہے اور زکوٰۃ دہندہ خود اپنی کوشش سے ایسے افراد کا پتہ لگا کر انہیں زکوٰۃ پہچا دے یہ مزید بہتر کام ہوگا۔
زکوٰۃ کے علاوہ اس ماہ صدقات ،فطرات اور عطیات بھی بڑے پیمانے پر دیے جاتے ہیں۔ یہ رقوم یااشیاء کی شکل میں کسی بھی غریب ، بے سہارا ، یتیم ، فقیر ، بیمار کو دیے جا سکتے ہیں۔ یہ وقت دوسروں کے کام آنے کا ہے۔ ایسے میں ہمیں دیگر برسوں سے زیادہ محنت، ایمانداری اور دیانت داری سے غریبوں کی مدد کرنی چاہیے۔
آخر ی بات کے طور پر یہ کہناچاہتا ہوں کہ ہم میں سے بہت سارے لوگ ماہِ رمضان میں افطار پارٹی کرتے ہیں۔ مساجد میں افطار بھجواتے ہیں۔ دروازے پر آئے غرباء و فقراء کی بھی مدد کرتے ہیں۔ براہ کرام اس برس افطار پارٹی کی رقم کا اندازہ کرتے ہوئے وہ رقم بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں۔ ملک اس وقت جس دور سے گذر رہا ہے، ایسے میں ہمارا متحد ہونا اور جن کے پاس ہے وہ، جن کے پاس نہیں ہے ، کی کھل کر مدد کریں۔ یہ رمضان آپ کے لیے سنہرے موقع کے طور پر آیا ہے ۔اس برس زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کا موقع ہے۔ دوسروں کی مدد کرکے دینی فریضہ بھی ادا کریں اورفی الحال خطرناک بیماری کورونا سے پیدا شدہ حالات میں دنیاوی ذمہ داری بھی ۔ اللہ آپ کو ستر گنا سے بھی زیادہ عطا کرے گا، ساتھ ہی آپ کے مال و دولت کی حفاظت کی بھی صد فی صد ضمانت ہوگی۔
ٔٔٔٔٔ٭٭٭
09456259850
[email protected],
Mob:09456259850

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here