9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر سلیم خان
بابری مسجد کی کھدائی کی گئی تاکہ اس میں سے مندر کے آثار نکلیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عدالت عظمیٰ کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ ان شواہد سے مطمئن نہیں ہے جو مندر کے حق میں پیش کیے جارہے ہیں ورنہ کب کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ جہاں تک عقیدے کی بنیاد پر عدلیہ کے فیصلے کا تعلق ہے تو اس کے لیے کوئی چمتکار ہی درکار ہے۔ مثل مشہور ہے ’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘ لیکن اس بار رام مندر تحریک کے اندر سے مرا ہوا چوہا بھی نہیں نکلا جو طاعون کی پیشن گوئی کرتا ہے۔ اسی لیے وی ایچ پی نے اپنے چار ماہ پرانے الٹی میٹم سے یو ٹرن لیتے ہوئے ۴ ماہ کے لیے احتجاج ملتوی کردیا ہے۔ توقع تو یہ تھی کہ پہلے چار مہینوں میں فرقہ واریت کے شعلوں کو خوب دہکایا جائے گا اور آگےکے چار مہینوں میں انتخابی مہم کے دوران سیاسی روٹیاں سینکی جائیں گے۔ لیکن وشوہندو پریشد نے ۵ فروری ۲۰۱۹ کو یہ اعلان کرکے کہ ایودھیا میں رام مندر تعمیر کی مہم عام انتخابات کے اخاتںم تک روک دی گئی ہے سیاسی مبصرین کو چونکا دیا ۔ اس کی اس حرکت پر علامہ اقبال کا یہ مصرع (ترمیم کے ساتھ) صادق آتا ہے؎
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے اصنامِ مندر پر
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت پرنام آیا
اس انقلابی فیصلے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وشو ہندو پریشد رام مندر کو انتخابی مدعا بنےت دینا نہیں چاہتا۔کیا وی ایچ پی کے عالمی صدر آلوک کمار کو چار ماہ قبل یہ اندازہ نہیں تھا کہ’ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر تک ہندو چین سے نہیں بیٹھیںگے اور نہ ہی دوسروں کو چین سے بیٹھنے دیںگے‘ کا مطلب ہی اسے انتخابی مدعا بنانا تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ انتخاب کے وقت یہ تحریک اور رام مندر تعمیر کی مطالبہ سیاست میں الجھکر محض انتخابی مدعا بنکر رہ جائے گا۔ اس لیے اگلے چار مہینوں تک اس کو سیاست سے بچانا چاہیے۔ وی ایچ پی کے بین الاقوامی جنرل سکریٹری سریندر جین نے بھی کہا کہ آئندہ انتخابات کے مدنظر چار مہینے تک رام مندر تحریک پر روک لگائی گئی ہےتا کہ کوئی یہ الزام نہ لگا پائے کہ ان کی تنظیم کسی خاص پارٹی کو فائدہ پہنچانے کی سعی کرتی ہے۔ سریندر جین نے یہ بھی کہا کہ ملک کی سیاسی فضا صاف رہے اس لیےیہ فیصلہ لیا گیا ہے۔ اس طرح انہوں نے تسلیم کرلیا کہ اس مسئلہ پر فضا مکدرّ ہوتی ہےلیکن یہ کھیل تو ۱۹۸۴ سے لگاتار کھیلا جارہا ہے۔ ان احمقوں کو اگر ۳۵ سال قبل یہ بات سمجھ میں آجاتی تو ملک میں اتنا خون خرابہ نہ ہوتا اور نہ بابری مسجد شہید ہوتی۔ بقول غالب ؎
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
آگے بڑھنے سے قبل رام مندر کے نام پر ہونے والی سفاکانہ سیاست پر ایک نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ جنتا پارٹی سے تین طلاق کے بعد ۱۹۸۰ میں گاندھیائی سوشلزم کی بنیاد پر بی جے پی کاقایم عمل میں آیا لیکن ۱۹۸۴ کے اندر منعقد ہونے والے انتخاب میں راجیولہر نے اسے ملیا میٹ کر دیا ۔ جنتا پارٹی کے دورِ میں اقتدار کی ساجھی دار جن سنگھ اپنے پونر جنم کے بعد دو نشستوں پر سمٹ گئی۔ اس کے بعد لال کرشن اڈوانی نے اٹل جی کو کنارے کرکے شدت پسند ہندوتوا کا علم اٹھا یا اورآگے بڑھے ۔ وہیں سے وی ایچ پی نے رام مندر کی تعمیر کے نام پر ان کی راہ ہموار کرنے کا کام شروع کردیا ۔ ۳۴ سالوں تک کسی معاملے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے بعد اس کو سیاست سے الگ کرنا سنگھ کے بس کی بات نہیں ہے۔ رام مندر کا سیاسی استعمال بی جے پی ،شیوسینا اور کانگریس سب نے کیا ہے ۔ راجیو گاندھی ایک ناتجربہ کار سیاستداں تھے اور ان کےمشیر بھی ارون نہرو اور ارون سنگھ جیسے ناپختہ لوگ تھے جو بلاوجہ رام مندر کی تحریک سے خوفزدہ ہوگئے ۔ان لوگوں نے گھبرا کر ۱۹۸۶ میں بابری مسجد کا تالا کھلوا دیا۔ اس کامیابی سے بی جے پی کے منہ کو خون لگ گیا اور اس نے رام مندر کی تحریک تیز تر کردی تو راجیو گاندھی نے رام مندر کے شیلانیاس کی اجازت دے دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۴۰۲ سیٹ جیت کر اپنے نانا کا ریکارڈ توڑنے والے راجیوگاندھی کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔
کانگریس پارٹی نے پہلی بار رام مندر کی سیاست کی اور اقتدار سے محروم ہوگئی لیکن بی جے پی ۲ سے ۸۹ پر پہنچ گئی۔ بوفورس کے مسئلہ پر کانگریس سے بغاوت کرنے والے وی پی سنگھ کانگریس کو شکست دینے کے بعد حکومت سازی کے لیے بی جے پی کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۹۹۰ تا ۱۹۹۱ کے دوران پہلی بار بی جے پی یو پی سمیت مدھہز پردیش، راجستھان اور ہماچل پردیش کے اندر اقتدار مںی آئی۔ کانگریس پارٹی کا شمالی ہندوستان میں صفایا اسی رام مندر کے چکر میں ہوا۔ پرنب مکرجی نے اپنی سوانح حیات میں راجیو گاندھی کی اس غلطی کا اعتراف کیا ہے۔ وی پی سنگھ نے منڈل کارڈ کھیلا تو اس کا توڑ کر نے کے لیے اڈوانی کے پاس رام مندر کے کمنڈل تھامنا پڑا ۔ اس وقت ریزرویشن کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے مندر کا سہارا لیا گیا اور اب مندر کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر معاشی بنیادوں پر ریزرویشن دیا گیا۔ یہ دونوں موضوعات خالص سیاسی خوشنودی کے سوا کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ۱۹۹۱ کے عام انتخابات سے آٹھ ماہ قبل اڈوانی جی نے گجرات سے ایودھا تک رتھ یاترا نکالنے کا فیصلہ کیا تو وشوہندو پریشد کے سادھو سنت اس کے آگے جھاڑو لگا رہے تھے۔ تین ماہ تک ملک بھر میں فرقہ واریت کی آگ لگانے کے بعد اکتوبر مںن اسے لالو نے لگام لگائی اور اڈوانی کوگرفتار کر لات۔ ایک ہفتے بعد ایودھا مں ملائم سنگھ یادو کے حکم پر فائرنگ میں کچھ کارسیوک ہلاک ہوئے ۔ اس کو ۱۹۹۱ کے انتخاب میں خوب بھنایا گیا اور بی جے پی مرتے پڑتے ۱۲۰ پر پہنچ کر حزب اختلاف کی پارٹی بن گئی۔ اس وقت تک لال کرشن اڈوانی اس خوش فہمی کا شکارگئے کہ رام للاّ انہیں وزیراعظم بنادیں گے اس لیے انہوں نے رام مندر کی تحریک جاری رکھی ۔ اترپردیش میں اقتدار حاصل ہوجانے کے بعد ان کے حوصلے اور بلند ہوچکے تھے۔ اسی کے چلتے کلیان سنگھ نے عدالت عظمیٰ سے بدعہدی کا ارتکاب کیا اور ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد شہیدکر دی گئی ۔
کانگریس کی نرسمہا راو حکومت نے اول تو بی جے پی کو ڈھیل دی پھر اس کا سیاسی فائدہ اٹھا تے ہوئے بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کوبرخاست کر دیا۔ پرنب مکرجی کو نرسمھا راو نے ۱۹۹۱ میں پلاننگ کمیشن کا سربراہ بنایا تھا اور آگے چل کر وزیر خارجہ کا قلمدان بھی سونپااس لیے وہ ان حالات کے قریبی مشاہد تھے ۔ پرنب دا نے اپنی سوانح عمری میں بابری مسجد کو بچانے میں ناکامی پر نرسمھا راو کی تنقید کی اور اسے ہندوستانی تاریخ و ثقافت کا ناقابلِ تلافی نقصان قرار دیا۔ کانگریس اس کے ذریعہ بی جے پی کو کمزور کرنے کی کوشش تو کی مگر کامیاب نہ ہوسکی ۔ ۱۹۹۶ کے قومی انتخاب میں ملک کے عوام نے راجیو گاندھی کی طرح بابری مسجد کی شہادت میں شریک کار نرسمہا راو کی بھی چھٹی کردی ۔
بی جے پی بابری مسجد کے انہدام کو بھنانے کی لاکھ کوشش کے باوجود ۱۹۹۳ کے صوبائی انتخابات مںن راجستھان کے علاوہ تنا صوبوں میں ہار گئی۔ اس وقت بی جے پی کی سمجھ میں آگیا کہرام مندر میں اب دم خم نہیں ہے ۔ ۱۹۹۶ میں بی جے پی ۱۶۱ نشستوں پر کامیاب ہوکر ایوان پارلیمان کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی تورام مندر کے رتھ یاتری کو ہٹا کر اٹل جی کو وزیراعظم بنایا گیا مگر وہ حربہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوا ۔ بابری مسجد کے کلنک نے کسی جماعت کو اس کے قریب پھٹکنے نہیں دیااور ۱۳ دن بعد اٹل جی بھاگ کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اس طرح بی جے پی کے لیے رام مندر کی سیاست کا خاتمہ ہوگیا ۔ بی جے پی نے ۱۹۹۸ انتخاب سے قبل رام مندر کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ جنتا دل کی حکومت جب آپسی رنجش کے سبب منہ کے بل گری تو پھر سے بی جے پی ۱۸۲ سیٹ جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن گئی اور اسے حلیف بھی میسر آگئے ۔ رام مندر کے آسیب نے اڈوانی جی کے آڑے آگیا ۔ مارگ درشک منڈل میں بے یارو مددگار اڈوانی جی آج تک اس دن کو کوس رہے ہیں جب انہوں نے رام مندر کا مسئلہ اٹھانے کی بھول کی تھی۔
۱۹۹۹ میں جئے للتا نے سرکار گرائی تو اٹل جی نے کارگل کے سہارے انتخاب میں کامیابی حاصل کی اور ۲۰۰۴ میں شائننگ انڈیا کے نام پر الیکشن لڑا مگر ناکام رہے ۔ اس دوران بھول کر بھی کسی کی زبان پر رام مندر کا نام نہیں آیا۔ کانگریس کے اقتدار میں آجانے کے بعد۲۰۰۵ میں اڈوانی جی نےاپنی شبیہ سدھارنے کے لیے قائد اعظم محمدعلی جناح کو خراج عقیدت پیش کردیا ۔ اس کے باوجود وہ ۲۰۰۹ میں کانگریس کو ہرانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ۲۰۱۴ میں بی جے پی نے اڈوانی جی کو کنارے کرکے نریندر مودی کو وزیراعظم کا امیدوار بنایا ۔ وشوہندو پریشد والے توقع کررہے تھے کم ازکم اب ان کی جانب توجہ ہوگی مگر مودی جی بھی رام مندر کے بجائے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کا نعرہ لگا کر وزیراعظم بن گئے ۔ مودی جی نےپردھان منتری بننے کے بعد ساری دنیا کی سیر کی مگر ایودھیا کے قریب پھٹکنے کی غلطی نہیں کی بعید نہیں کہ ۲۰۱۹ کا انتخاب ہارنے کے بعد وہ رام مندر کا رخ کریں ۔
وی ایچ پی ہمیشہ سے رام مندر کا مسئلہ اٹھا تی رہی مگر بی جے پی اس سے کنیّ کاٹتے رہی۔ موہن بھاگوت نے ۲۰۱۲ کے اواخر میں بی جے پی کو اقتدار میں لانے کی خاطر رام مندر کا نعرہ لگایا تھا لیکن مودی جی نے اسے قابل اعتناء نہیں سمجھا ۔ بھاگوت جی ان کا اشارہ سمجھ گئے اور ۲۰۱۳ میں وجئے دشمی کے موقع پر بدعنوانی کو اپنی تقریر کا مرکزی موضوع بنایا ۔ ۲۰۱۷ تک سنگھ کو رام مندر کی یاد نہیں آئی ر ۲۰۱۹ میں خستہ حال بی جے پی کو بچانے کے لیے ۲۰۱۸ میں دسہرہ کے موقع پر موہن بھاگوت نے رام مندر کا جاپ شروع کیا ۔ سنگھ کے سکریٹری جنرل بھیا جی جوشی نے کورٹ پر نزلہ اتار کر آرڈیننس کا راگ الاپا ۔ وشو ہندو پریشد نے نہ صرف سرکار کو دھمکی دی بلکہ رام مندر کی تعمیر کے لیے فضا استوار کرنے کا لمبا چوڑا منصوبہ بنا ڈالا۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں بلکہ چار ماہ قبل ۵ اکتوبر کا معاملہ ہے۔ ا اس منصوبے پر ایک نظر ڈال لینا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔
عدلیہ پر دھونس جمانے کی ناکام کوشش کے بعد یہ منصوبہ بنایا گیا تھا۔اس کے پہلے مرحلے میں ۱۵۳ پارلیمانی حلقوں کے رام مندر کے لیے عظیم الشان عوامی جلسوں کا فیصلہ تھا مگر تین بڑے اجتماعات ناگپور، بنگلورو اور ایودھیا میں ہونے تھے ۔ ان میں سے ایک قابل ذکرریلی شیوسینا کی مخالفت میں ایودھیا کے اندر یوگی جی کی لاکھ حمایت کے باوجود ناکام رہی بقیہ دونوں کی خبر تک نہیں بنی ۔ دوسرا مرحلہ ارکین پارلیمان ، وزیراعظم اور صدر مملکت سے ملاقات کا مگر ان لوگوں نے توجہ نہیں دی۔ آرڈیننس تو دور پرائیویٹ بل کی تجویز بھی آئی گئی ہوگئی۔ تیسرے مرحلے میں جن عوامی جلسوں کا منصوبہ تھا ان میں سے ایک دہلی میں منعقدہوا۔ اس کو کامیاب کرنے کے لیے دہلی کے اطراف سے لوگ جمع نہیں ہوئے تو دور دور سے لوگوں کو لانا پڑا۔ چوتھے مرحلے میں جوپوجا اور ہون کا ارادہ تھا وہ سب کمبھ کے میلے میں بہہ گیا ۔
وی ایچ پی والے جب سارے محاذ پر ناکام ہوگئے تو ۲۰ جنوری ۲۰۱۹ کو کانگریس پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ وشو ہندو پریشد کے کارگزارصدرآلوک ورما نے اخبار نویسوں کے سامنے رام مندرتعمیرکے لئے قانون نہ بنانے پربی جے پی حکومت کوآڑے ہاتھوں لے لیا۔ انہوں نے کہا “ہمیں توقع تھی کہ حکومت قانون بنائے گی اسی لیے ہم نے گزارش بھی کی اورحکومت کو قانون لانا چاہئے تھا، لکن اب لگتا ہے کہ حکومت کم ازکم اس میعاد مںق تو قانون نہںئ لائے گی “۔ اس سوال پر کہ کام پھرالکشن مںو وہ بی جے پی کوہی حمایت دیں گے؟ انہوں نے کہا یہ سنت ہی طے کریں گے۔ ہم یکم فروری کو ‘دھرم سنسد منگ پوری صورتحال اور دیگر متبادل سنتوں کے سامنے رکھیں گے ۔ آلوک کمار سے پوچھا گیا کہ کاو آپ لوگ کانگریس کے ساتھ بھی جاسکتے ہںں؟ تو انہوں نے کہا کہ پہلے وہ اپنے دروازے توہمارے لئے کھولںس۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرکانگریس اپنے انتخابی منشورمںص رام مندرکی تعمرتکوشامل کرتی ہے توہم غورکریں گے۔
سنگھ کے اس مایا جال میں کانگریس کے جنرل سکریٹری ہریش راوت پھنس گئے اور انہوں نے کہہ دیا کہ، ’’بی جے پی بےایمان لوگوں کی پارٹی ہے، جن کو نہ تو پالیسی کی پرواہ ہے اور نہ مریادہ کی، وہ مریادہ پرشوتم رام کے بھکت کیسے ہو سکتے ہیں۔ہم لوگ پالیسی اور آئین میں یقین رکھتے ہیں۔ کانگریس جب اقتدار میں آئےگی تبھی ایودھیا میں رام مندر بن پائےگا ۔ یہ پکی بات ہے‘‘۔ اس موقع پر اگر راہل گاندھی وہی غلطی کردیتے جو ان کے والد نے ۳۰ سال قبل کی تھی توسارے کیے کرائے پر یکلخت پانی پھرِ جاتا لیکن انہوں نےرام مندر کو پوری طرح نظر انداز کرتے ہوئے رافیل ، کسانوں اور بیروزگاروں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی کو غیر متنازع زمین واپس لینے کے لیے عدالت میں جانے کا ناٹک کرنا پڑا اور جب وہ دال بھی نہیں گلی تو پہلے بھیا جی نے رام مندر کو ۲۰۲۵ تک ٹالا اور پھر موہن بھاگوت نے تحریک کو منجمد کردیا ۔ اسی وجہ سے وی ایچ پی نے احتجاج ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ التواء انتخاب کے بعد سرکار کی تبدیلی کا اعتراف ہے اس لیے کہ بی جے پی دورحکومت میں سنگھ احتجاج نہیں کرتا۔
بی جے پی نے وی ایچ پی پر تو نکیل ڈال دی لیکن یہ مسئلہ اتنی آسانی سے قابو میں آنے والا نہیں ہے۔ ۳۰جنوری کو ایودھیا میں سادھوسَنتوں کا پرم دھرم سنسد منعقد کر کے سوامی سوروپانند سرسوتی نے ۲۱ فروری ۲۰۱۹ کو ایودھا مںن مندر کا سنگ بنااد رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اس کام سے روکے جانے پر گولی کھانے کی تامری دکھائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سوامی سوروپانند کے چیلنج سے ۲۴ گھنٹوں میں ایودھیا کا مسئلہ حل کرنے کی ڈینگ مارنے والے یوگی جی کے ساتھ کیسے نمٹتے ہیں؟ ان کا دھرم سنکٹ یہ ہے کہ وہ سنگھ اورسوامی سوروپ آنندمیں سے کسی کو ناراض نہیں کرسکتے۔ مودی جی کا دوسرا سر درد پروین توگڑیا ہیں جو ہندوستان نرمان پارٹی بناکر گجرات اور اترپردیش سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں اور بذاتِ خود ایودھیا سے انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ویسے توگڑیا انتخاب جیت جائیں اس کا امکان نہیں ہے لیکن بی جے پی کے امیدوار کو ایس پی سے ہرواد یں اس کا قوی امکان ہے۔
ڈاکٹر پروین توگڑیا کا کہنا ہے کہ وہ ااقتدار میں آتے ہی ایک ہفتہ کے اندر رام مندر کے لیے آرڈیننس منظور کر واکر رام مندر کی تعمیر شروع کروادیں گے کیونکہ کانگریس تین طلاق کے قانون کو مسترد کرنا چاہتی ہے۔ ویسے یہ شیخ چلی کا خواب ہے کیونکہ نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔ سنگھ پریوار کے لیے شرم کی بات ہے رام مندر کے لیے کانگریس تو دور بی جے پی بھی آرڈیننس لانے کا وعدہ کرنے کیجرأت نہیں کرسکی جبکہ تین طلاق کے قانون کو معطل کرنے کا اعلان کانگریس نے کردیا۔ اس سے محسوس ہوتا ہے مسلمانوں سے زیادہ سیاسی حاشیے پر سنگھ پریوار اور وی ایچ پی ہے۔ ویسے توگڑیا بھی رام مندر کے بجائے نوٹ بندی، جی ایس ٹی اورٹیکس کے غیر عادلانہ نظام پر تنقید کرنے کے بعد بیروزگاری و صحت کے شعبے پر اپنی توجہات مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ انہیں خود رام مندر کے مدعا پر کامیابی کا یقین نہیں ہے۔اس صورتحال میں علامہ اقبال کا شعر جوانہوں نے مغرب کے لیے کہا تھا ان فسطائیوں پر بھی صادق آتا ہے؎
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
٭٭٭