9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
سیدہ جنیفررضوی
بیسویں صدی میں مرشدآباد کی ادبی تاریخ کا جائزہ اگر لیا جائے تو سید نواب جانی میرزا محشرؔ مرشدآبادی کی شخصیت نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے ۔ بقول سید واثق بہادر
’’ سید نواب جانی میرزا کا نام مرشدآباد والوں کیلئے محتاج تعارف نہیں وہ ایک عزت دار اور پر خلوص انسان تھے ایسا تو ہر کوئی کہتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ ان کا عزت دار ہونا صرف ان کی ذات تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ ان کی ذات سے خاندان نظامت کی عزت تھی یا یوں کہوں کہ وہ خاندان کی عزت تھے‘‘۔
سید نواب جانی میرزا کا تعلق عالم انسانیت کے ان باکمال اور با عزت لوگوں میں سے ہے جنہوں نے اپنی حیات کو ایک ایسی مثال بنا کر پیش کیا جس کی نظیر مرشدآباد میں نظر نہیں آتی۔ یہ سر زمین مرشدآباد کی ایک ایسی شخصیت تھے جو بیک وقت ہمہ گیر صلاحیتوں اور خوبیوں کے مالک تھے ان کی ذات سے سماج کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہا کبھی وہ فنِ موسیقی کے ماہر کی حیثیت سے سامنے آئے تو کبھی سیاستداں کی حیثیت سے لوگوں کے دلوں میں حکمرانی کی تو کبھی ادب نوازی کے میدان میں کھرے اترے تو کبھی مذہبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا تو کبھی قوم کی اصلاح کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے ۔ تقسیم ہند کے بعد مرشدآباد کی ادبی فضا میں خاموشی کی لہر یں دوڑ رہی تھیں۔ اس وقت وہ اپنے ہم عصروں کے ساتھ مل کر ادب کی اس خاموش لہر کو روکنے کیلئے مشاعرے و محافل منعقد کیں تو کبھی ڈرامے اسٹیج کرکے ادبی ماحول کو جلا بخشی ۔
آپ کا پورا نام سید دوستدار حسین علی میرزا تھا ۔عرفیت نواب جانی تھی اور تخلص محشرؔ تھا مگر آپ نواب جانی میرزا کے نام سے دنیائے ادب وسیاست میں مشہور ہوئے ۔ ۵ جنوری ۱۹۳۰ ء کو قلعہ نظامت مرشدآباد میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام سید محمد نقی علی میرزا عرف سید رئیس میرزا تھا اور والدہ کا نام سیدہ حسن آرا بیگم تھا ۔ آپ اپنے والدین کے اولاد اکبر تھے اسلئے جب ولادت ہوئی اور والد کو پتہ چلا کہ بیٹا پیدا ہوا ہے تو انہوں نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے خود اپنی ذاتی بندوق سے دس فائر کئے ۔
آپ کے دو بھائی اور دو بہنیں تھیں صرف ایک چھوٹے بھائی سید امیر میرزا حیات ہیں ۔ حسب روایت آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر سید کاظم حسین کے سائے عافیت میں ہوئی پھر نواب بہادر اسکول میں تعلیم حاصل کی ۔آپ بچپن سے ہی ذہین تھے ۔ادب و تہذیب آپ کو ورثہ میں ملی تھی ۔ آپ کا گھرانہ تعلیم یافتہ تھا ۔ ۷ سال کی عمر میں ۱۵ جنوری ۱۹۳۷ ء میں آپ کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ ۱۸ سال کے ہوئے تو والدہ بھی داغ مفارقت دے گئیں ۔ والد کے انتقال کے بعد چچا سید جہانگیر علی میرزا آپ کے سر پرست ہوئے اور والدہ کے گزر جانے کے بعد نانی کے سائے میں پرورش پائی ۔ اردو اور انگریزی میں اچھی مہارت رکھتے تھے ۔ فارسی اور عربی بھی تھوڑی بہت جانتے تھے آپ کھیل کود میں بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے ۔ لڑکپن اور نیم جوانی کے دنوں میں بیڈمنٹن کھیلا کرتے تھے ۔ فٹ بال انکی پسندیدہ کھیل میں سے ایک تھا ۔ آپ کی شادی ۳۷ ؍سال کی عمر میں نجمہ بیگم (تب ان کی عمر ۱۵ سال تھی) سے ہوئی آپ کی اولادوں میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ۔
محشر مرشدآبادی کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے پہلا موسیقی ، دوسرا سیاسی اور تیسرا ادبی۔ فن موسیقی میں آپ کا کوئی جواب نہیں اس میدان میں آپ نے جن بلندیوں کو چھوا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔آپ کو فن موسیقی کے سارے راگ راگنیوں سے ایسی وافقیت ہو گئ تھی کہ سرُ تال کے معاملے میں اپنے استاد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ایک ہلکی سی آواز کا بھی پورا گرامر بتا دیتے تھے ۔ مرشدآباد سے انکی شہرت کلکتہ پہنچی تو وہاں بھی خوب پذیرائی ہوئی بھارتیہ سنگیت سنگھ کلکتہ سے جڑ گئے ۔ بھارتیہ سنگیت سنگھ نے ان کی موسیقی کی بیکراں صلاحیت اور کمال کی تصدیق کرتے ہوئے آپ کو ’’سرگم ساگر‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ پھر اس کے بعد ہندوستان کے مختلف شہروں خصوصاً دلی ، ممبئی ، کلکتہ ، حیدرآباد ، مسوری ، شانتی نکیتن وغیرہ میں ہونے والے کلاسکی میوزک پروگراموں میں جج بن کر جایا کرتے تھے ۔ لیکن آپ نے اس کو ذریعہ معاش نہیں بنایا۔ بنگالی سنیما کے موسیقی کار اور گلوکاروں سے ان کے بڑے اچھے تعلقات تھے ۔ سلیل چودھری ، مناڈے وغیرہ ان کی کوٹھی میں آیا کرتے تھے ۔ ہندوستان کا مشہور ادارہ شانکیتن بول پور نے ان کو ’’ ڈاکٹر آف میوزک ‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا حیدرآباد کے ایک کنسرٹ میںآپ کو ’’ موسیقارِ اعظم ‘‘ کا خطاب ملا ۔ کلا سیکی راگوں کی بھی آپ کو اچھی جانکاری تھی اسی بنا پر آپ کو بنارس میوزیکل کانفرنس میں ’’ مو سیقی کار ہند‘‘ کے خطاب سے نوازہ گیا۔ اس طرح فنِ موسیقی میں انہوں نے بہت نام کمایا اور ان کے اس فن نے سوز خوانی کو ایک نیا طرز بخشا اور اس میں جدت پیدا کی۔
دراصل مرشدآباد کی مجلس عزا میں سوز خوانی کو ایک اہم مقام حاصل ہے اس سر زمین نے بڑے پائے کے سوز خان پیدا کئے ہیں جن میں سیدمحمدی حسین ، حسین علی میرزا اور آفاق مرزا وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں لیکن آپ نے مرشدآباد کی سوز خوانی کے روایتی انداز سے ہٹ کر ایک نیا انداز اختیار کیا ۔ آپ نے نئے طرز کی کلاسیکی دھنیں بنائی ۔ زیادہ تر اپنے استاد سید فتح علی میرزا بیدلؔ مرشدآبادی ، میر انیسؔ ، اور جوش ملیح آبادی کی رثائی کلام کو مختلف راگ کی خوبصورت دھنوں سے آراستہ کیا ۔ بھیم پلاس ، یمن اڑانا ، مالکوس ، درباں پوربی ، بھیروی ، باگ سرتی آپ کے پسندیدہ راگ تھے۔
ایک موسیقار کی حیثیت سے آپ بہت کامیاب انسان رہے۔ لیکن بنیادی طور پر آپ ایک سیاست داں تھے ۔ خاندانِ نظامت کے لوگوں نے ہمیشہ سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ہے اسی نسبت سے سیاست میں آنے کا جذبہ فطری تھا۔ ۱۹۶۰ء میں مرشدآباد میونیسیپلٹی میں ٓزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑے اور تمام پارٹیوں کے امیدواروں کو پیچھے چھوڑ کر کامیابی حاصل کر لی لگ بھگ ۲۵ سال مرشدآباد کے میوینسپل میں کمشنر رہے ۔ پھر بعد میں (D.S.P) Democratic Socialist Party جسے بعد میں ( West Bengal Socialist (W.B.S کے نام سے جانا گیا اسی پارٹی کی طرف سے آپ نے الیکشن لڑا اور کامیاب بھی ہوئے۔ ۱۹۶۵ ء میں ودھان سبھا ٹوٹا تو Democratic Socialist Party کی طرف سے کھڑے ہوئے مگر اس وقت آپ کو نا کامی کا سامنا کرنا پڑا ۔پر اس نا کامیابی میں کہیں نہ کہیں آپ کی جیت چھپی ہوئی تھی کیونکہ اب آپ کی شناخت دیکھتے ہی دیکھتے بحیثیت لیڈر ہونے لگی پھر اس کے بعد کئی بار لڑے مگر ہار گئے ۔ ۱۹۸۷ ء میں بھگوان گولہ انتخابی حلقہ سے W.B.S.P کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے اور اپنے قریبی حریف کو شکست دی اس کے بعد ۱۹۹۱ ء میں دوسری بار پھر بھگوان گولہ سے کھڑے ہوئے اور بڑی کامیابی حاصل کی ۔ ۱۹۹۶ ء میں تیسری بار وہیں سے کھڑے ہوئے لیکن اس بار نا کامی ہاتھ آئی اور ۸۰۰ وٹوں سے ہار گئے ۔ بہر حال آپ اس کے بعد ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی سے منسلک ہوئے اور زندگی کے آخیری ایام تک اسی پارٹی سے منسلک رہے ۔ آپ کی سیاسی زندگی بالکل شفاف پانی کی طرح تھی کیونکہ آپ نے کبھی اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کیا ۔ آپ ایک سچّے انسان تھے آپ نے ایک روپئے کی بھی بے ایمانی نہیں کی لوگ ایسے عہدے ملتے ہی اپنی جیبیں بھرنے لگتے ہیں ۔ اس عہدے سے آپ نے اپنے لئے یا اپنے بچوں کیلئے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ا گر آپ چاہتے تو اوروں کی طرح لاکھوں کڑوروں کما لیتے مگر آپ کی سچّائی اور ایمانداری نے آپ کو ایسا کرنے نہیں دیا اس ایما پر لوگوں کا کہنا تھا کہ آپ ایک بے وقوف انسان تھے بہر کیف ایک لمبے عرصے تک آپ سیاست سے منسلک رہے سیاست سے سبک دوش ہو جانے کے بعد بھی بنگال کی سیاسی دنیا میں آپ کی عزت ویسے ہی رہی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی ۔ آپ حکومت مغربی بنگال سے ایم۔ ایل ۔ اے (M.L.A) کی پینشن پاتے رہے آپ کے بعد یہ پینشن آپ کی اہلیہ پاتی ہیں۔
دبستان مرشدآباد کی ادبی دنیا آپ کے تذکرہ کے بغیر ادھوری ہے ۔ مذکورہ بالا بے پناہ مصروفیت کے باوجود آپ نے اردو زبان و ادب کی خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں برتی ۔ اپنی عزیز مادری زبان کی خدمت کرنا ، اس کی آبیاری کرنا آپ اپنا فرض اوّلین سمجھتے تھے ۔ ان گراں قدر خدمات کے عوض مرشدآباد کے ادبی حلقے میں آپ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔ آپ نے مرشدآباد کی پر رونق فضا میں آنکھیں کھولی تھیں ۔ بچپن ہی سے شعر و شاعری کا ماحول اپنے اردگرد پایا ابتدا میں آپ اپنے کلام میں شمس سے اصلاح لیتے تھے ۱۹۵۹ ء میںشمس لکھنو واپس چلے گئے پھر آپ نے اپنے چچا سید فتح علی میرزا بیدلؔ مرشدآبادی کی شاگردی اختیار کی۔
آپ نے دبستان مرشدآباد کی ادبی دنیا میں جو آبیاری کی ہے وہ سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے آپ نے شاعری کی تمام اضاف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن آپ کی محبوب ترین صنف ’’ گیت ‘‘ ہے اور آپ نے اس میں فنی صلاحیتوں کے عمدہ نمونے پیش کئے ہیں ۔ نمونے کے طور پر چند اشعار آپ کے گیت کے پیش ہیں:۔
ساجن آ جا دل میں سما جا دل میں سما جا
آکاش کے ہستے ہیں تا رے
چاند کرتا ہے مجھے اشارے
بادل بن کر آ ہی جاوے
دنیا سدنیا چھا ہی جا وے
پردیس میں پیتم رہتے ہو
آفت من پہ ڈھا تے ہو
آ ؤ با لم دور نگر سے
رم جھم رم جھم با دل بر سے
کو ئی کر تا جا تا ہو جیسے اشارے
چمکتے ہوں جیسے پا نی میں ستا رے
ہیں سر شار و بد مست سارے نظارے
وہ آ نے کو ہیں آج دریا کنارے
آپ کا شعری کمال یہ ہے کہ آپ نے اردو شاعری میں ہندی الفاظ کا استعمال نہایت سلیقے سے کیا ہے جس سے آپ کے کلام کا حسن دو با لا ہو گیا ہے:۔
اے کربل کے بلوان بلیدان کے بھگوان
آج بھی سارے جگ میں اونچا تیرا بلیدان
اے ایشور پریمی پریم کے سورج پرمیت تیری مہمان
ست پریم کی خاطر کردیا تونے اپنا سب قربان
تو ہے موجد تو ہے بانی انقلاب عام کا
رہتی دنیا تک رہے گا چرچا تیرا کام کا
تو محافظ بن کے آیا سمت دھرم اسلام کا
بجتا رہے گا دونوں جہاں میں ڈنکا تیرے نام کا
جگمگ جگمگ کرتا رہے گا تیرے لہو کا دان
اے کربل کے بلوان بلیدان کے بھگوان
جب ہاتھ کو تیرے باطل نے ہاتھ میں اپنے مانگا تھا
انکار کا تھپڑ منہ پر اس کے ایسا تو نے مارا
گھوم گیا سر باطل کا ایسا وہ چکرایا
سر کو تیرے کاٹ لیا پر ہاتھ نہ تیرا پایا
چھن سکا نہ ظالم باطل کربلا کا میدان
آپ نے گیت کے علاوہ غزلوں پر بھی طبع آزمائی کی ان کی غزلوں میں روایتی رنگ نمایاںنظر آتا ہے:۔
بڑے بے وفا تھے ، وفا بن گئے تم
میرے دل سے پوچھو کہ کیا بن گئے تم
نظر میں ہے شئے سہانی سہا نی
ان آنکھوں کی رنگین ضیا بن گئے تم
دل مضطرب ہے آ نکھ ہے گریاں تیرے بغیر
بیٹھا ہوا ہوں سر با گریباں تیرے بغیر
گلے میں ان کے ہار ہے شمیم خوشگوار ہے
شباب خود بہار ہے بہار پر بہار ہے
شباب کی ہیں شاہیاں سبھی کچھ اختیا ر ہے
تمہاری ہی خزاں بھی ہے تمہاری ہی بہار ہے
دونوں میں معرکہ ہے آفت میں روح و جاں ہے
قاتل بھی نوجواں ہے بسمل بھی نوجواں ہے
آپ نے فن شاعری کی صنف رباعی میں بھی کمال دکھا یا ہے لیکن آپ کی زیادہ تر رباعی اہلبیتؑ کی شان میں ہیں۔
٭٭٭
Syeda Jenifar Rezvi
phn: 7872873542
Email Id : [email protected]
Also read