[email protected]
9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
منظور پروانہ
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ اشخاص کی بھیڑ میں اپنی الگ شناخت بنانا بہت مشکل کام ہے۔ یہ کام وہی لوگ انجام دیتے ہیں جن میں عزم ہوتا ہے اور حوصلہ بھی۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی فکر نہ خام ہوتی ہے اور نہ سطحی۔ وہ دنیا کو صرف آنکھوں سے دیکھنے کا کام انجام نہیں دیتے بلکہ بصیرت سے اس کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت کا نام ہے ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ۔
ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ کی شخصیت قطعاً محتاجِ تعارف نہیں ہے جس شخص کو نثر و نظم پر یکساں قدرت حاصل ہو۔ اسی کے ساتھ تحریر و تقریر پر بھی دسترس حاصل ہو۔ وہ شخصیت محتاجِ تعارف کیسے ہو سکتی ہے۔ ایسی شخصیت کا بھی ذکر خیر نہ کیا جائے تو کس کا ذکرِ خیر کیا جائے۔ فی زمانہ یہ روش عام ہے کہ نامور شخصیات سے تعلق ظاہر کر اپنا قد بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر میں اس روش خام کا ماننے والا نہیں۔ میر ااپنا ماننا ہے کہ مجھ جیسے لکھنے والوں پر یہ فرض ہے کہ ہم اپنے عہد کی اہم شخصیات کو یاد کریں۔
اس وقت میرے مطالعہ میں ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ کا شعری مجموعہ ’’آہٹ پانچویں موسم کی‘‘ ہے۔ یہ مجموعہ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ اس شعری مجموعے میں تین نثر پارے بھی شامل ہیں جن کے عنوان ہیں۔’’دریچہ‘‘’’کرب تخلیق کی سرشاری‘‘ اور ’’شناخت‘‘ عباس رضا نیرؔ کے ان نثر پاروں کے سلسلے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ عباس رضا نیرؔ نے ان نثر پاروں میں اپنے قلم کی جولانی کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ ان نثر پاروں کو پڑھتے وقت قاری، قاری نہ رہ کر سامع بن جاتا ہے۔ اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی ماہر خطیب سے خطاب سن رہا ہے۔ سب سے پہلا مضمون ہے۔ ’’دریچہ ‘‘۔ اس مضمون میں عباس رضا نیرؔ رقم طراز ہیں کہ :
نانا مرے مجھ سے کہا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔
’’اے مرے لال! کہوں کیا؟۔۔۔۔۔۔کہ مری کتنی کتابیں ہوئیں نیلام ہوا کے ہاتھوں، اب یہ دو ایک کتابوں کا اثاثہ جو ابھی باقی ہے، ہو سکے تو انھیں چھپوا دینا۔۔۔۔۔۔چونکہ جس شخص کے افکار ہوں زندہ۔۔۔۔۔۔اسے کہہ سکتا نہیں کوئی کبھی بھی مردہ۔۔۔۔۔۔۔ کرنے لگ جاتی تھیں دم نادِ علیؓ، تب مری ماں مجھ پر، اور ابا بھی مرے کہتے تھے۔۔۔۔۔۔’’میرے فرزند ، مرے نورِ نظر، جب بڑے ہونا تو تم خوب کتابیں لکھنا اور نئی نسل کی خاطر انہیں چھپوانا بھی۔‘‘
ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ نے اپنے نانا کی کتابیں شائع کرائیں یا نہیں مجھ کم مطالعہ کو اس کا علم نہیں مگر انھوں نے اپنے والد کی خواہش یا یوں کہئے کہ حکم کو بجا طور پر پورا کیا اور خوب کیا انھوں نے خود کو فعال تخلیق کار کے طور پر متحرک رکھ کر دن رات ادب کی آبیاری کا فرض انجام دیتے ہوئے کتابیں تحریر کیں اور ان کو نئی نسل کے لئے شائع بھی کرایا۔ مگر ا ن کا مقصد اس سے بھی اہم ہے جس کا راستہ کا نٹوں سے بھرا ہے۔ اس سلسلے میں وہ ’’شناخت‘‘ نامی مضمون میں رقم طراز ہیں کہ ’’ ابھی میرے دکھوں کا انت مت ڈھونڈو۔ محل تعمیرہوں گے اور قیامت تک چنی جائیں گی میرے خوں سے دیواریں ، ستم کا جشن ہوگا اور جلائے جائیں گے میرے کتب خانے، مرے خیمے، مری آنکھیں، مجھے ہر شام، صحرائے غریباں میں لہو کی راکھ سے سپنوں کے اکھوے ڈھونڈنا ہے۔ صبح انجانے دمشقوں سے گذرنا ہے۔لہو کے کینوس میں آنسوؤں کا رنگ بھرنا ہے کہ سورج آتشی ہے اور دریا سرخ، ساحل سرمئی ہے،کتھئی ہے مرا مشکیزہ، مگر اب بھی مرا پرچم تو دھانی ہے اسی پرچم سے میں ایک اور عہد سبز لاؤں گا۔۔۔ابھی میرے دکھوں کا انت مت ڈھونڈو۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباس کے حوالے سے میں صرف اتنا عرض کر نا چاہوں گا کہ اس کی حقیقت تک پہونچنے کے لئے قارئین کو اپنی فکر کے طائر کو وسعت آسمانی سے ہم کنار کرنا پڑے گا تب ان کو اس عزم کا صحیح ادراک ہو سکے گا کہ ’’مگر اب بھی مرا پرچم دھانی ہے اسی پر چم سے میں اک روز عہد سبز لاؤں گا۔‘‘
مندرجہ بالا خیالات اور انہیں عزائم یعنی انھیں خواب اور اس کی تعبیر سے مملو ہے عباس رضا نیرؔ کی شاعری۔ان کی شاعری میں پاکیزہ جذبوں کے چراغ جلتے ہیں اور وہ نفس کی طہارت سے روشن ہے۔
کتاب کا انتساب آزاد نظم کی شکل میںہے۔ نظم آزاد ہو پایا بند، جہاں تک نظم گوئی کا سوال ہے ، نظم گوئی بہت ریاضت چاہتی ہے۔ عباس رضا نیرؔ نے یقینا ریاض کر یہ مقام حاصل کیا ہے۔ انتساب میں بھی آپ کو وہی جذبہ، وہی طہارت ملے گی جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ ملا حظہ ہو:
’’اداسیوں کی کہانی رقم کروں کیسے؟ /قلم اٹھاؤں تو کیوں کر /کہ روشنائی نہیں/سیاہیوں نے کبھی نور تو نہیں لکھا/یہ سوچتا ہوں کہ آنسو گراؤں کاغذ پر/جو ایک نام اجالا ہے رونمائی کا/جو ایک نام حوالہ ہے روشنائی کا/متاع لوح و قلم اس کی امانت ہے/سو جان و دل کی عبارت اسی کے نام کریں/یہ آنسوؤں کا عریضہ /قبول ہو مولا۔‘‘
چونکہ انتساب آزاد نظم کے روپ میں ہے۔ تو آئیے پہلے’’آہٹ پانچویں موسم کی‘‘ نظموں کے حوالے سے بات شروع کی جائے۔ آزاد نظم کا مطالعہ کرتے وقت عام قاری کے ذہن میں یہ بات عام طور پر آتی ہے کہ یہ چھوٹی بڑی سطروں والی شاعری توبہت آسان ہوگی۔ اسے تو کوئی بھی لکھ سکتا ہے۔ لیکن جو لوگ اس فن سے واقفیت رکھتے ہیں ان کو اس بات کا علم ہے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پوری نظم کسی ایک عنوان کے محور پر ٹکی ہوتی ہے اور اس کا حق کیسے ادا ہو، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ شاعر کو اس پر کتنی قدرت ہے۔ اس مجموعے میں شامل نظموں کے مطالعے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ عباس رضا نیرؔ کی نظموں میں زندگی کے حالات اور مختلف واقعات کی بہترین ترجمانی ملتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ شاعری چونکہ اپنے ماحول کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس لئے عباس رضا نیر نے اس بات کو نظر میں رکھتے ہوئے مختلف عنوانات، واقعات پر نظموں کا جادو جگایا ہے۔ جو لائق تحسین بھی ہے اور قابل تعریف بھی۔ عباس رضا نیرؔ کی نظموں میں مختلف کیفیات ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر چند نظموں کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں جس میں مذہبی فکر ملتی ہے:
٭وقت کی سازشوں کو سمجھنا تو مشکل ہے/آسان نہیں ہے /مگر اتنا تو کر لو/کہ اس راستے پر قدم بڑھانے سے پہلے/ذرا پھر سے آیت تو پڑھ لو/’’صراط الذین۔۔۔۔‘‘(راستے)
٭مگر عدم سے /فرار حاصل جو کر رہا ہے/اس آدمی کو پتہ کہاں ہے/میانِ ہست و عدم ہے جو کچھ/وہ امتحان ہے۔(میان، ہست و عدم)
٭سوچوں میںاک کعبہ لے کر /ذہن میں ایک مدینہ لے کر/منظر میں اک وجلہ لے کر/پس منظر میں کوفہ لے کر/سجدوں کو تابندہ کرنے/مردہ قدریں زندہ کرنے/دشتِ جفا میں کون آیا ہے؟ /کرب و بلا میں کون آیا ہے؟۔(اک ٹھہرے ہوئے لمحے کا سوال)
٭جلتی دھرتی کے سینے پر/میری ساڑھے تین برس کی ننھی بچی/اپنا سایہ /قدموں سے کیوں روند رہی ہے/ابھی ابھی یہ /ٹھنڈا پانی/جلتے توے پر ڈال رہی تھی/یہ مجلس سے واپس آکر/اکثر ایسا کیوں کرتی ہے/یا تو یہ نادان بہت ہے/یا اس کو عرفان بہت ہے۔(عرفان)
٭کوفۂ عصر/مرے حرفوں کی تعزیر میں ہر بار زباں داغنا چاہے میری/مری سانسوں میں الجھتی ہوئی یہ پھانس ذراکم کر دے/میری آواز کو پرچم کر دے/شعلۂ کرب کو شبنم کر دے /مرے حرفوں کو مرے زخموں کا مرہم کر دے۔(مناجات مٹی سے)
مندرجہ بالا اقتباسات کے بعد اب دوسرے رنگ کے بھی چند اقتباسات پیش ہیں جو اس بات کا بین ثبوت میں کہ ان کی نظموں میں یکسانیت نہیں بلکہ وہ مختلف حالات اور مختلف واقعات اور رجحان کی ترجمان ہیں:
٭پھر محبت ہوئی ہے روایت شکن/اس کی آنکھوں نے پھر کہہ دیا ہے کہ اب /ہم جدا ہو کے اس سے نہ رہ پائیں گے/ یہ ہماری محبت کا اعلان ہے /اور محبت بغاوت کا اعلان ہے/ہاں یہ اعلان بھی کیسا اعلان ہے/ زخم خوردہ اناکتنی حیران ہے/موج خاموش ہے/اور یہی خامشی/اس کی رخصت کا اعلان ہے۔(اعلانِ رخصت)
٭دل اور آنکھوں/میں یہ کیسا ناطہ ہے/دل ٹوٹے تو/آنسو بن کر/آنکھوں میں آجاتا ہے۔(تعلق)
٭یہ دالان کے کیکٹس/جن میں شاخیں نہیں/سبز پتے نہیں/صرف کا نٹے ہی کانٹے ہیں/پھر بھی چلو ان سے کچھ دیر/اپنے زخموں کی باتیں کریں۔(کیکٹس)
٭کبھی نہ پوجا کرنے والی /لڑکی کو مندر میں دیکھ کے/اس نے پوچھا/آج یہاں/تم ؟ /کس سے ملنے آئی ہو۔؟(سوال)
٭وہ سب چھوٹے ہوئے ٹوٹے ہوئے رشتے اٹھا لاؤں/وہی رشتے /جو چھوٹے تھے تری خاطر/جو ٹوٹے تھے تری خاطر/مگر دل کے کسی کونے میں اک امید زندہ ہے/کہ شاید تو پلٹ آئے(جاگتے سپنے)
٭وہ جو اک خوبصورت سی لڑکی ہے ناں/بس وہ لڑکی ہی ہے نسخۂ کیمیا/ایک مدت سے یہ نسخۂ کیمیا/روشنی کی طرح/بھولی بھالی سیاست کے چالاک ہاتھوں میں ہے/تم کو معلوم ہے/اس چمکتی ہوئی روشنی کے سبب/کتنے ہی شب مزاجوں کے سورج چمکنے لگے/واسنا کے کٹورے چھلکنے لگے(اسمبلی کے گیت نمبر تین پر)
٭مگر اب کچھ دنوں سے/میری باتوں میں/تجھے بھی کوئی دلچسپی نہیں لگتی/سو میں بھی آج کل چپ چاپ سا رہتا ہوں/کہ شاید خود کلامی کا ہنر آنے لگا مجھ کو(خود کلامی)
مذکورہ بالا نظموں میں جتنا تنوع ہے اس کا اندازہ تو ہو ہی گیا۔ مگر ڈاکٹر عباس رضا نیر نے جو پابند نظمیں کہیں ہیں ان میں بھی وہ تمام محاکات موجود ہیں جو ایک اچھی شاعری کے لئے ناگزیر ہیں۔ کسی دانش درکا قول ہے کہ فنکار وہ چاہے ادیب ہو، شاعر ہو، مصور ہو اسے ایماندار اور دیانت دار ہونا چاہئے۔ ایماندار اور دیانت دار ہونے کی وجہ سے تخلیق کار اپنے مشاہدات و تجربات کو ایمانداری کے ساتھ اپنی تخلیق میں پیش کرے گا۔ اس کام کو عباس رضا نیرؔ نے بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ ان کی ایک پابند نظم ’’خواب کیوں راستے بدلتے ہیں‘‘ کے یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
فاصلوں میںیہ قربتیں کیسی
قربتوں میں یہ فاصلے کیسے
وصل میںہجر کی یہ آلائش
ہجر میں وصل کی یہ آسائش
دونوں لیٹے ہیں ایک بستر پر
پھر بھی یہ فاصلہ قیامت ہے
تم سے بچھڑے ہوئے زمانہ ہوا
پھر بھی تم کیوں بچھڑ نہیں جاتے
ذہن جب کر وٹیں بدلتے ہیں
خواب کیوں راستہ بدلتے ہیں
عباس رضا نیرؔ نے اپنے مضمون ’’دریچہ‘‘ میں جو اپنا سفرنامہ ٔ آرائش جان تحریر کیا ہے اس کے مطالعہ کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ عباس رضا نیرؔ کا یہ سفر جو دشوار ضرور تھا مگر اس کے باوجود انھوں نے خود کلامی کو کبھی ترک نہیں کیا۔ اور یہ مولا کا کرم ہے کہ وہ اس عارضے میں اس بری طرح گرفتار ہوئے کہ انھیں احساس ہی نہ ہوا کہ وہ اس خود کلامی کے ذریعہ ادب کی آبیاری کر رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آخرش وہ ایک سحر انگیز شاعر کے روپ میں ہمارے سامنے آگئے۔
عباس رضا نیرؔ ایک درد مند انسان ہیں اور درد مند انسان جب اپنی ذات سے نکل کر دنیا درست کرنا چاہتا ہے تو وہ کارِ پیمبری کرتا ہے جسے شاعری بھی کہا جاتا ہے اور اپنی شاعری سے وہ اپنی آواز کو عالم گیری قوت بخشتا ہے۔ کیا غزل میں یہ سب ممکن ہے۔؟ ہاں مگر یہ کام وہ ہی تخلیق کار کر سکتا ہے جو اپنے عمیق تجربوں، مشاہدوں، مطالعوں اور پیہم ریاضتوں کے سہارے اپنی داخلی اور خارجی کیفیتوں کے مسلسل تصادم سے گذرتے ہوئے تخلیقی عمل کو انجام دیتا ہے۔ اس طرح وہ تخلیق آفاقی اور الہامی تخلیق کا درجہ پاتی ہے۔
جہاں تک عباس رضا نیرؔ کی غزلیہ شاعری کا سوال ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی غزلیہ شاعری بھی اس درجہ پر فائز ہے جہاں پر اس کے حوالے سے ان کے شعری کمالات پر مقالے لکھے جا سکتے ہیں اور بحث کی جا سکتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں نہ صرف زبان دانی اور مخصوص طرز بیانی سے کام لیا ہے بلکہ اس میں تحسینی اور تنقیدی دلچسپیوں کا خوب خوب مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی شاعری میں اصلاحی و اخلاقی اقدار پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور یہ سب دین ہے مذہبی فکر کی چند مثالیں پیش ہیں:
کوئی تو نہیں جو مرا حق مجھ کو دلائے
دنیا کو عداوت ہے مرے باغ فدک سے
پر کھاجاتا ہے ہمیں شمع بجھا کر نیرؔ
خواہش سلطنتِ کوفہ ورے کوئی نہیں
اپنے اللہ سے لڑتے کیوں ہیں
ہار جائیں گے زمانے والے
سوچے کوئی کیا چیز ہے احساسِ تقدس
قرآن کے صفحے کبھی موڑے نہیں جاتے
کتنے پردے ہٹا لیے لیکن
وہ چھپاہی رہا حجابوں میں
خنجروں کے ہجوم میں نیرؔ
کربلا راستہ دکھائے گی
زیرِ خنجر کوئی سجدا ہوجائے
دشت و دریا میں اجالا ہو جائے
یہ کن غلاموں کے سر ہیں سرِ امام کے ساتھ
یہ کون ہیں جو صفِ انبیاء میں زندہ ہیں
عزیزو آؤ تیمم ہی خاک پر کر لیں
زوالِ عصر ہے پانی پئے وضو بھی نہیں
تیروں سے مرا سچ کبھی چھلنی نہیں ہوگا
انکار مرا میرے لئے ڈھال بہت ہے
نفس اگر اللہ کے ہاتھوں بک جائے تو
ٹھوکر بھی مردے کو زندہ کر سکتی ہے
مذہبی فکراپنی جگہ پر، مگر چونکہ شاعری تو اپنے ماحول کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عصری مسائل کی جھلک اس میں نہ دکھائی دے۔ عباس رضا نیرؔ کی شاعری بھی اس سے اچھوتی نہیں ہے۔ ان کی غزلوں میں عصری حسیت اور عصری آگہی کی بھر پور عکاسی ملتی ہے۔ سماج و معاشرے کے مسائل، کرب و انتشار اور ناخوشگوار حالات کا درد ہی اصل میں ان کی شاعری میں تجربوں کی لکھائی، جذبوں کی روشنائی اور زبان کی خوش نمائی کے ساتھ غزل کے لہجے میں ملتا ہے چند شعر مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں:
کیا عجب زہر ہیں یہ ساس بہو کے جھگڑے
سل کے نیچے سے نکل کر کئی بچھو آئے
کتنی شکلیں ہیں سرابوں کی کوئی کیا جانے
ہینڈ پائپ سے بھی پانی نہیں بالو آئے
پھر آج وقت سے دفتر پہنچنا مشکل ہے
وہ دیکھو کٹ گئی بجلی، یہ لوگیا پانی
دیکھ لیا کل شہر میں کیسا ہنگامہ تھا
ماچس کی اک تیلی کیا کیا کر سکتی ہے
سیاہ کار یاں گم ہیں سفید پوشی میں
یہ راہزن بھی تو لگتا ہے رہنما جیسا
آرزو بیوی کی، بچوں کی ضدیں، ماں کی دوا
کتنے خانوں میں بٹا رہتا ہے تنہا آدمی
مشینی زندگی کا یہ عذاب آیا ہے غربت پر
جنھیں اسکول جانا تھا گئے وہ کارخانوں میں
ڈسا ہے مجھ کو بہت آستیں کے سانپوں نے
سو اب میں زہر ہلاہل سے ڈر نہیں سکتا
اپنے تعلیمی دور میں داکٹر عباس رضا نیرؔ کو ریاضی سے کس قدررغبت تھی یا نہیں اس کا علم تو مجھے نہیں مگر ان کی شاعری میں یہ حساب کتاب موجود ہے ملاحظہ ہو یہ شعر:
کتنا کھویا ہے کتنا پایا ہے
ہم نہیں پڑتے ان حسابوں میں
جوڑتا ہوں میں تیرا نام ہر اکائی میں
ہاں مگر کبھی خود کو کب شمار کرتا ہوں
میں کئی صفر لگاؤں ترے دائیں جانب
اور فہرست بنا کر تجھے اوّل کر دوں
صفرکو رکھ کے داہنی جانب
بائیں جانب کوئی اکائی دے
عورت کا بہترین روپ ماں کا ہے۔ ماں کی ہستی ایک ایسی ہستی ہے جس کا ذکر ہر زبان کے ادب میں ہے اور کیوں نہ ہو۔ ماں قدرت کا ایک ایسا شاہکار ہے جس سے انکا رممکن نہیں۔ اردو کے زیادہ تر شعراء نے ماں کے حوالے سے شعر کہے ہیں ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ نے بھی ماں کے حوالے سے اپنے خیالات کو شعری پیکر میں ڈھالا ہے۔ ملاحظہ ہوں چند اشعار:
گھر کی دہلیز پہ بیٹھی ہوئی اک بوڑھی ماں
راہ تکتے ہوئے بینائی گنوا دیتی ہے
ہے اس کے پیار کا احساس بھی خدا جیسا
زمیں پہ کچھ بھی نہیں ماں کی مامتا جیسا
پار کرنا پڑتا ہے روز ایک دریا کو
مامتا دعاؤں کے روز پل بناتی ہے
خوشا نصیب جواں لال قتل گاہ میں ہے
یہ میری ماں سے کوئی کہہ دے طاق بھر آئے
ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ کی غزلیہ شاعری میں مذہبی فکر، عصری مسائل اور ماں جیسے موضوعات کے علاوہ رومانیت کے ساتھ زندگی کے خارجی اور داخلی تجربات و مشاہدات کے ساتھ مقصدیت والے اشعار بھی ملتے ہیں۔ آئیے ایک نظر ایسے اشعار پر بھی ڈالی جائے اور دیکھا جائے کہ انھوں نے خلوت جاناں کی روایت کو کس ہنر مندی سے اپنی شاعری میں برتا ہے:
جیسے ہوتی ہے دھوپ میں بارش
یوں پسینے میں وہ نہائی تھی
کسی کی جھیل سی آنکھوں کا آسرا پاکر
ہمارے خواب سفینے سنبھلتے ہیں
ہمارے سامنے کی چھت پہ چاندنی تھی بہت
تمام رات رہا ماہتاب جیسا کچھ
تیر انداز نگاہوں کو سنبھال
زخم دل اور نہ گہرا ہو جائے
نیرؔ یہ تعویز گلے میں ڈالے رہنا
ورنہ وہ پھر جادو ٹونا کر سکتی ہے
اس کی خوشبو رہتی ہے
اکثر رات کی رانی میں
خوشبو اس کی باتوں میں
لہجے میں پھلواری ہے
جناب عشق ہزاروں ولی ہیں دنیا میں
مگر میں آپ کی بیعت میں رہنا چاہتا ہوں
ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ کی غزلیہ شاعری کے مندرجہ بالا اشعار پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کی غزلیں حقیقت پر مبنی ہیں۔ ان میں مافوق البشر واقعات کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری زندگی میں ملنے والے تجربات سے مزین ہے۔ ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ نے اپنے تجربات کی روشنی میں اپنی شاعری کے ذریعہ کچھ کار آمد مشورے بھی دئیے ہیں۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں وہ مشورے:
جلد بجھا دو ٹھیک نہیں نفرت کی آگ
گلشن کو لمحوں میں صحرا کر سکتی ہے
چلتے رہنا زندگی ہے بیٹھ جانا موت ہے
مان لو یہ مشورہ چلتے رہو چلتے رہو
مسئلے نرم کلامی سے ہی حل ہوتے ہیں
مسئلے حل نہیں ہوتے کبھی تکرار کے ساتھ
تاروں سے تو نظر ملا، کرنوں کو ہم سفر بنا
دنیا کی تیز دوڑ میں کچھوے کی چال چھوڑ دے
توڑ ڈالے گا چوڑیاں تیری
کسی پتھر کو مت کلائی دے
ظلم سہو خاموش رہو
یہ تو اک بیماری ہے
روح بھی پتھروں میں ہے کہ نہیں
دیکھ لیتے ہیں دیوتا کر کے
مندرجہ بالا مفید اور کار آمد مشوروں سے نوازنے والے عباس رضا نیرؔ کی شاعری کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں سے سحر انگیز ردیفوں کا ایک متحرک سمندر ہے۔ ’’آہٹ پانچویں موسم کی‘‘ کے خالق کی شاعری میں ایک بات اور متاثر کرتی ہے ۔ چھوٹی بحروں میں شعر کہنا۔ حالانکہ چھوٹی بحروں میں شعر کہنا کوزے میں دریا بھرنے کے مترادف ہے۔ مگر اس مشکل کام کو عباس رضا نیرؔ نے اپنی مشاقی سے آسان بنا لیا ہے۔
’’آہٹ پانچویں موسم کی‘‘ میں کچھ شعر ایسے بھی ہیں جن کو میں کسی خاص ’’خانے‘‘ میں قید نہ کر سکا۔ آپ بھی وہ شعر پڑھئے اورلطف اندوز ہوئیے:
مانا کہ بہت سرد ہیں موسم کی ہوائیں
تو ساتھ اگر ہے تو یہی شال بہت ہے
ہمارا کام ہے دنیا کو آئینہ دکھا دینا
جو بے چہرہ ہیں اپنے آپ ہی جھنجھلائے جاتے ہیں
آپ کیوں برا مانے میں تو ایک شاعر ہوں
میرا کام دنیا کو آئینہ دکھانا ہے
یہ سوچ کر کہ کوئی آنکھ بھر نہ آئے کہیں
کسی کے سامنے ہم نے خلال بھی نہ کیا
کہتی ہے جسے رہائی دنیا
زنجیر کی دوسری کڑی ہے
کچھ ردیفیں بھی چپ ہی رہتی ہیں
جب تلک قافیہ نہیں کھلتا
پھر ’’نٹ‘‘ پہ میں بیٹھا ہوں ’’کی بورڈ‘‘ لئے نیرؔ
شیشے کی کتابیں ہیں عنوان ہے مٹی کا
دنیا کو اپنی شاعری سے آئینہ دکھانے والے ڈاکٹر عباس رضا نیرؔ کی شاعری میں معنی کی تہہ داری کے ساتھ فکر کی جولانی بھی ہے۔ روایت کی پاسداری کے ساتھ جدید یت کی آبیاری بھی ہے۔ ’’آہٹ پانچویں موسم کی‘‘ کا بغور مطالعہ کرنے پر یہ راز بھی کھلتا ہے کہ عباس رضا نیرؔ کی شاعری میں جو درد نہاں ہے یہ درد خود ان کا بھی ہے اور سماج کا بھی۔ یعنی ان کی شاعری آپ بیتی اور جگ بیتی کا مرقع ہے۔
چونکہ ڈاکٹر عباس رضا نیر کا یہ سفر برابر جاری ہے۔ امید ہے کہ ڈاکٹر نیرؔ ادب کی آبیاری کے اس عمل کو برابر جاری و ساری رکھیں گے۔ اور پھر انہیںیہ کہنے کی ضرورت نہ پیش آئے گی کہ ’’مجھ سے سرگوشیاں کرتی ہیں ادھوری نظمیٰں اور غزلوں کا ہے اصرار کہ میں ان کو کسی طور مکمل کر دوں۔‘‘
qqq
منظور پروانہؔ
چکن شاپی، نظیر آباد، لکھنؤ۔226018
موبائل:9452482159
Email : [email protected]
Also read