سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی
دنیا میں جس طرف دیکھئے ہر میدان میں ایک بھیڑ نظر آتی ہے۔چاہے سائنس کا میدان ہو فلسفے کا معرکہ ہو یا ادب کی وادی ہو ہر جگہ ایک جم غفیر نظر آتا ہے اور ہر مردِ مجاہد اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتا ہے۔اس کی یہ فکر ہوتی ہے کہ لوگ اس کی خاطر خواہ پزیرائی کریں اور اس کی کاوشوں کو سراہیں لیکن اہلِ نقد و نظر کو متاثر کرنا آسان نہیں۔یعنی کسی سے دادِ ہنر حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مرادف ہے۔خصوصاً ادب میں کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہرادب کا معاملہ اتنا عجیب و غریب ہے کہ ہر صاحبِ نظر خود کو نقاد سمجھنے لگتا ہے اور ہر مبتدی شاعر یا ادیب اپنے آپ کو علامہ سمجھ بیٹھتا ہے سوائے چندایک کے کیونکہ ہر دور میں منکسر المزاج شخصیتیں بھی رہی ہیں اور حق بیاں افراد بھی جو بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کتنے پانی میں ہیں یا ان کے سامنے جو فن پارہ ہے اس کی عظمت و منزلت کیا ہے۔انصاف پرست فطرت ہمیشہ تنقیدی نقطۂ نظر کے تحت اپنے تاثرات کا اظہار کرتی ہے نہ کہ تعلقات یا کسی مصلحت کا پاس رکھتے ہوئے یا پھر بغض و حسد کا شکار ہوکر۔لیکن یہ بات بھی حق ہے کہ سچا اور اچھا فنکار دیر سویر اپنے فن کی داد حاصل کرکے ہی دم لیتا ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ فنکار کے فن کو پرکھنے کے لئے مثلاً کسی شعری فن پارے کو تنقید کی کسوٹی پر جاچنے کے لئے اسلوب کی اہمیت زیادہ ہے یا ڈکشن کی۔اس سلسلے سے صاحبانِ نقد و نظر کے اپنے اپنے خیالات ہوتے ہیں لیکن حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے توثابت ہوگا کہ اس سلسلے سے اسلوب کی زیادہ اہمیت ہے۔کیونکہ ہم قدیم ،کلاسیکل ،ترقی پسند ادب ،جدید ادب یا مابعد جدید ادب میں اسلوب کی وجہ سے ہی شعراء یا ادیبوں میں امتیاز دیکھتے ہیں ورنہ ہماری زبان میں جو الفاظ ہیں برسوں سے وہی ہیں یہ الگ بعد کہ جدید دور میں زبان کو وسعت بھی حاصل ہوئی لیکن جو وسعت حاصل ہوئی ہے یا ہماری زبان میں جو دوسری زبانوں کے الفاظ شامل ہوئے ہیں وہ تعداد میں زیادہ نہیں۔ فن پارے کی عظمت کا تعین الفاظ کے صحیح اور بر محل استعمال پر ہی ہو سکتا ہے یعنی اسلوب کی اہمیت واضح ہے۔
عصرِ حاصر میں بہت سے شعراء جو مابعد جدید لب و لہجے کا پرچم سنبھالے ہوئے عالمِ رنگ و بو میں ادب کی دنیا کو جنت بنائے ہوئے ہیں ان میں بھی امتیاز اسلوب ہی کی بنا پر ممکن ہے۔ہر شاعر کا اپنا اپنا ایک مخصوص رنگ ہے جسے ہم اسلوب کہتے ہیں۔خالد جمال ؔجن کا تعلق بنارس سے ہے ان کا بھی ایک مخصوص لب و لہجہ ہے جو انھیں شعراء کی بھیڑ میں منفرد و ممتاز کرتا ہے۔ان کا تازہ مجموعۂ کلام’’شریکِ حرف‘‘ اس بات کا شاہد ہے کہ انھیں قدرت کی طرف سے مخصوص و منفرد اسلوب ملا ہے۔ بعض لوگوں نے ان کی شاعری کو آمد و آورد کے آئینہ خانے میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ساتھ ہی اپنا موقف بھی پیش کیا ہے کہ وہ آورد کے شاعر ہیں ،لیکن میرا ماننا ہے کہ آمد و آورد کی بحثیں اس زمانے میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ہمیں در اصل یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ شعر آمدکا ہے یا آورد کا۔ یہ تو نقاد کی قیاس آرائی ہوتی ہے اگر کوئی شعر اس کو پسند آیا تو اس کی تعریف میں آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے اور اس کو آمد سے بڑھا کر القاء تک لے جاتا ہے او ر اگر کوئی شعر اس کے معیارِ علم پر یا اس کے مخصوص زاویۂ نگاہ میں پورا نہیں اترتا تو اسے آورد کہہ کر بعض مرتبہ اس کی خوبیاں نظر اندازکرکے آگے بڑھ جاتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ دیکھنا چاہئے کہ شعر کا اسلوب کیا ہے اور کس صورت میں کیا مضمون پیش کیا گیا ہے اب چاہے اس پر آمد کا گمان ہو یا آورد کا یقین۔میں سمجھتا ہوں خالدجمالؔ صاحب کی شاعری آمد و آورد کی بحث سے مبرا ہے مثلاً کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے اور اندازہ لگائیے کہ یہ اشعار آمد کے ہیں یا آورد کے؟۔
شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتے بہت مایوس ہیں
ایک چنگاری سہی ان کا بھی اب کوئی تو ہو
شعاعِ مہر نے بوسہ لیا ہے پھولوں کا
نسیمِ صبح ذرا رنگ و بو بکھرنے دے
کھینچ لی تونے بھی دیوارِ ہوس
اب یہ آنگن نہیں آنگن جیسا
میں تیز تیز چل کے ترے پاس آگیا
محروم رہ نہ جائوں ترے انتخاب سے
نہیں ناراضگی تم سے نہیں ہے
ہم اپنے آپ سے الجھے ہوئے ہیں
کتابیںدھول میں لپٹی پڑی ہیں
اندھیروں میں اجالا کھو گیا ہے
مندرجہ بالا اشعار سے کون اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ آمد کے اشعار ہیں یا آورد کے؟۔میرے خیال میں اگر کوئی اس سلسلے سے حتمی فیصلہ کرتا ہے تو اس کی نگاہِ انصاف پر شک کیا جا سکتا ہے۔ہمیں تو یہ دیکھا ہوگا کہ ان اشعارمیں کیااتنی طاقت ہے کہ نہ صرف نقاد بلکہ کیا ایک عام قاری بھی ان اشعار سے متاثر ہو سکتا ہے؟۔یقیناً یہ اسلوب ہی ہے جو نقاد یا عام قاری سے داد وصول کرتا ہے۔اور ان اشعار کی روشنی میں بلا تردد کہاجا سکتا ہے کہ خالد جمالؔ محدود راستوں یا منزلوں کے شاعر نہیں بلکہ ان کی فکر کا افق نہایت وسیع اور روشن ہے۔
چونکہ ان کی ذہنی پرواز بلند ہے اور ان کا مطالعہ بھی اچھا خاصہ ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح شعر کو قابلِ داد بنایا جاتا ہے۔ اس سلسلے سے خاص بات یہ ہے کہ ان کے یہاں جو تراکیب آئی ہیں وہ دلکش معلوم ہوتی ہیں مثلاً کچھ اشعار دیکھیں:
سفر تمام ہوا گردِ جستجو بھی گئی
تری تلاش میں نکلی تو آرزو بھی گئی
کتنا گلنار ہے امروز چمن زارِ خیال
کون سانسوں میں اتر آیا ہے خوشبو کی طرح
اس دیارِ کن میں آخر کوئی ہم جیسا بھی ہو
ڈھونڈتے رہیے زمیں تا آسماں کوئی نہیں
کچھ دیر اور یوں ہی کریں خود کلامیاں
شورِ سکوتِ شام ابھی درمیاں نہیں
غبارِ ابر سے مہتابِ جاں ابھرنے لگے
عروسِ شب کو ذرا دیر تو سنورنے دے
وہ منتظر ہے تو اس کو صدائیں دیتا جا
ہوائے ہجر کو لیکن تو بین کرنے دے
کبھی کبھی جو امیدیں سنورنے لگتی ہیں
رخِ یقیں پہ لکیریں ابھرنے لگتی ہیں
شب کے صحرا کا سفر ختم ہوا
مجھ پہ امکانِ ہنر ختم ہوا
فریبِ رشتۂ جاں کے اثر سے نکلو تو
نظر نواز اشارے ہیں گھر سے نکلو تو
غبارِ راہِ تمنا سوا ہی چاہتا ہے
کوئی تو ہے جو مری کج کلاہی چاہتا ہے
وہ شب نژاد تعلق جدا ہی چاہتا ہے
چراغِ قریۂ جاں کی گواہی چاہتا ہے
ہمارے ذوقِ ہنر کی طلب کو کیا کہیے
درِ خیالِ نگاراں کھلا ہی چاہتا ہے
کہتے تھے روشنی کا گزر کر دے کردیا
دیوارِ شب نظام میں در کر دے کر دیا
گردِ جستجو،چمن زارِ خیال،دیارِ کن ،شورِ سکوتِ شام،غبارِ ابر،مہتابِ جاں،عروسِ شب،ہوائے ہجر،رخِ یقیں،امکانِ ہنر،فریبِ رشتۂ جاں،غبارِ راہِ تمنا،شب نژاد،چراغِ قریۂ جاں،درِ خیالِ نگاراں اوردیوارِ شب نظام مندرجہ بالا اشعار میں ایسی تراکیب ہیں جوبا فہم قاری یا پُر خلوص ناقد کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔
موصوف کی شاعری کو پڑھ کر یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کوزے میں سمندر بھرنے کا ہنر جانتے ہیں یہ بات اہلِ ذوق پر واضح ہے کہ مختصر بحروں اور چھوٹی زمینوں میں اپنے مافی الضمیرکی گل کاری کرنا کتنا مشکل عمل ہے۔بڑے بڑے اساتذہ مختصر بحروں اورچھوٹی زمینوں سے اس لئے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ چھوٹی زمین میں اپنے جوہر مکمل طور پر نہیں دکھا سکتے لیکن خالد جمالؔ کا خاصہ یہ ہے کہ انھیں چھوٹی زمینیں عزیز ہیں اور انھوں نے ان میں طبع آزمائی شعوری طور پر کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ صلاحیتیں کسی مخصوص قالب کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ وہ پانی کی طرح رقیق ہوتی ہیں اور کسی بھی ظرف میں اپنا مقام حاصل کرکے اپنے اسلوب کے تموج سے لوگوں کے دلوں میں اترنے کا فن جانتی ہیں۔موصوف کے کچھ اشعار چھوٹی زمینوں میںدیکھیں اور اندازہ کریں کہ ان کی شعری صلاحیت کس بامِ عروج پر ہے:
رات ٹوٹ کر برسی
نازشِ ادا اٹھی
فلک کیا دیکھتے ہو
زمیں سرکی ہوئی ہے
پہلے میری سن تو لے
پھر اپنی من مانی کر
نئی کتابیں لایا ہوں
لے جا انھیں پرانی کر
رات میرے گھر آیا
چاند کتنا شرمایا
آج پھر اسے دیکھا
کچھ نیا نیا سا ہے
زخم زخم ہونٹوں پر
پیاس کا دیا روشن
آئینہ ہے آئینہ
آئینے کی حیرت کیا
مندرجہ بالا اشعار مختصر بحروں میں ہونے کے باوجود اپنے مخصوص اسلوب کی وجہ سے شاعری کے حوالے سے منفرد نظر آتے ہیں۔اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ فنکار جس کو قدرت کی طرف سے کوئی ہنر عطا کیا جاتا ہے وہ کس طرح اسے بروئے کار لاکر انفرادیت پیدا کر سکتا ہے۔
خالد جمالؔ جہاں عصرِ حاضر میں اپنے لہجے کی جدت کا پاس رکھتے ہیں وہیں کلاسیکی ادب سے بھی ان کا کہیں نہ کہیں رابطہ ضرور رہتا ہے اب یہ الگ بات کہ اس کی پاسداری کا اسلوب زمانے کے تقاضے پر کھرا اترتا ہے مثلاً ہماری کلاسیکی شاعری میں تلمیحات کا استعمال جس انداز میں یا جس طور ہوتا تھا وہ آج کی شاعری میں نہیں لیکن وہ شعراء جو تلمیحات کو عصرِ حاضر کے لئے بھی استعارہ یا علامت بناکر پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں انھیں بخوبی معلوم ہے کہ ادب کو کس کس رُخ سے پیش کیا جاسکتا ہے اور انسان کی نفسیات کی عکاسی کس کس انداز میں ہو سکتی ہے۔مثلاً:
کوئی تو آئے کہ بازار کی رونق لوٹے
وہ زلیخا نہ سہی کوئی خریدار سہی
کھینچ لینا تھا ہمیں شہر اماں پر اک فصیل
پھر رہا ہے ہر گلی ہر موڑ پر راون کھلا
پہلے شعر میں اسلامی تلمیح ہے اور دوسرے میں دیو مالائی تلمیح ان دونوں تلمیحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر ادب کے تقاضوں پر کھرا اترتے ہوئے کس طرح اس بات کاخیال رکھتا ہے کہ کس طرح دو مختلف رنگوںکو ایک کیا جاتا ہے۔ دو مختلف رنگوں کو ایک کرنے کا ایک یہ بھی طریقہ ہوتا ہے کہ دو زبانوں کے الفاظ ایک ساتھ خوبصورتی کے ساتھ استعمال کئے جائیں اور اپنی وسعتِ نگاہ کا ثبوت دیا جائے مثال کے لئے ایک شعر پیش کرتا ہوں:
دیکھا تو چاروں’’ اور‘‘ سے اٹھتا غبار تھا
تو کیا زمیں سے اب کے خدا لے گیا کوئی
شعر میں ہندی لفظ’’اور‘‘کا استعمال دیکھنے کے قابل ہے حالانکہ یہاں لفظ’’سمت‘‘ بھی استعمال کیا جا سکتا تھا لیکن’’اور‘‘ کا استعمال شاعر کے اس مزاج کی دلیل ہے کہ وہ اپنی فکر کو کسی مخصوص زبان کا پیر و کار نہیں بنانا چاہتا۔یہی نہیں شاعر کے یہاں ایسے الفاظ بھی آگئے ہیں کہ جو بظاہر اہلِ ادب کو اٹ پٹے معلوم ہو سکتے ہیں لیکن ان کے استعمال پر جب غور کیا جائے گا تو پتہ لگے گا کہ شاعر گرے پڑے الفاظ یا عام گلیوں میں بولی جانے والی بولی کے الفاظ کو بھی عظمت دینے کی کوشش کرتا ہے۔مثلاً:
اگے ہیں خواب زاروں میں مناظر سر تراشی کے
سہانی وادیوں میں’’ باولے ‘‘لشکر نکل آئے
تنہائیوں کے ساز پہ گاتا رہا مگر
نادان ’’چھوکرے ‘‘تھے پریشا ن کر گئے
یعنی ’’باولے‘‘ اور ’’چھوکرے‘‘ جیسے الفاظ قابلِ توجہ ہیں یہ وہ الفاظ ہیں جو ہماری عام بولی سے ماخوذ ہیں لیکن ان کے یہاں استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا اور نہ ہی کوئی عیب لگتا ہے لیکن ان کا استعمال ممکن ہے کسی بڑے نقاد کو یہ بات سوچنے کے لئے آمادہ کردے کہ خالد جمالؔ کی شاعری میں وہ کیاکیا چیزیں ہو سکتی ہیں جو ان کوادبی نقد و نظر کا معتوب بنا سکتی ہیں۔
چونکہ یہ آج کی شاعری کا مزاج ہے کہ وہ بہت سی ایسی باتوں یا قوانین کا خیال نہیں رکھتی جو پچھلے شعراء میں زیادہ سختی کے ساتھ برتے جاتے تھے۔مثلاً:
یہ برگ و بار کہاں جاذبِ نظر ٹھہرے
تمہارے بعد تو پھولوں سے’’ رنگ و بو‘‘ بھی گئی
شعر میں ’’رنگ و بو‘‘کے لئے واحد کا صیغہ ’’گئی‘‘ آیا ہے جب کہ ’’گئے‘‘ آنا چاہئے تھا مگر چونکہ یہ ردیف ہے اس لئے اس پر صرف یہ گفتگو کرکے آگے بڑھا جا سکتا ہے کہ شاعر نے شعوری طور پر یہ عمل انجام دیا ہے۔ایک اور شعر دیکھیں:
شکست و فتح کے بارے میں سوچتے ،ہم بھی
مگر وہ جنگ لڑی ہے جو بے جواز ہوئی
شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ ’’سوچتے‘‘ماضی کی دلالت کرتا ہے یعنی ماضی کے اس خیال کی طرف اشارہ کرتا ہے جو عمل میں نہ آسکا جب کہ دوسرا مصرع حال کا ذکر کرتا ہے اس لئے شعر میں شتر گربۂ زمانی در آیا ہے ۔اسی طرح پچھلے شعراء اس بات پر زیادہ دھیان دیتے تھے کہ ردیف فرار نہ ہونے پائے اور ساتھ ہی اجتمائے ردیفین نہ ہونے پائے لیکن عصرِ حاضر کے شعراء اس اصول سے گریزاں نظر آتے ہیں اور اجتمائے ردیفین پر دھیان نہیں دیتے ۔خالد کمالؔ صاحب نے بھی اس طرف زیادہ غور نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں اجتمائے ردیفین جزوی و کلی دونوں نظر آتے ہیں ۔مثال کے لئے اجتمائے ردیفین کلی کے کچھ اشعار ان کے مجموعے سے اخذ کئے جا سکتے ہیں:
ابھی حالات بھی معمول پر ہیں
ہمارے بال بھی سلجھے ہوئے ہیں
پسینے چھوٹ رہے ہیں امس کا موسم ہے
سنا ہے موسمِ گل اپنی سمت مائل ہے
خاموش ہوتے ساز کو آواز دے گئے
تارِ نفس کو چھیڑ کے حیران کر گئے
ہمیں بھی منبر و محراب سے اترنا ہے
ہمارے آگے تماشائے کم نگاہی ہے
کسی آواز کا جادو نہیں ہے
ہوا بے باک ہوتی جا رہی ہے
مندرجہ بالا اشعار میں بے شک اجتمائے ردیفین ہے لیکن ہم ان اشعار میں بھی ان کے مخصوص و منفرد اسلوب کی بہاریں دیکھتے ہیں جو ان کی ستائش کی طرف مائل کرتی ہیں۔
خالدجمالؔ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوہراتے نہیں ۔عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ شعراء ایک مخصوص لہجہ حاصل کرنے کے بعد یا بعض اوقات اپنی فکری پرواز کی سستی و پستی کی وجہ سے انھیں مضامین کو ملتے جلتے اسلوب میں بار بار پیش کرنے لگتے ہیں جو ان کے یہاں پہلے آچکے ہوتے ہیں ۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض شعراء کے پاس چند مخصوص الفاظ ہوتے ہیں جنھیں وہ بطورِ علامت اپنی شاعری میں دوہراتے رہتے ہیں اور نئی فضامیں سانس ہی لینا نہیں چاہتے،لیکن خالدجمالؔ کے یہاں یہ عیب نہیں ہے انھوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ آزاد رکھا نہ وہ مخصوص علامتوںمیں مقید ہوئے اور نہ انھوں نے بار بار اپنے مضامین کا اعادہ کیا۔مختصر یہ کہ ان کے مجموعے کلام’’شریکِ حرف‘‘ کا مطالعہ کرکے یہ کہا جا سکتا ہے کہ خالد جمالؔ کی شاعری اہلِ نقد و نظر کو اپنے مخصوص اسلوبیاتی نظام کے سبب متاثر کرتی رہے گی اور نئی آنے والی ادبی نسلیں ان کی شاعری کے چراغوں سے اپنے فکری چراغ روشن کریں گی۔
Mob:9219782014