9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمد علیم اسماعیل
حمید ادیبیؔ ناندوروی بیک وقت ناول نگار، افسانہ نگار، مضمون نگار اور شاعر بھی ہیں۔ 3 جولائی 1938 میں ناندورہ پیدا ہوئے۔ اب تک ان کی سات کتابیں منظرِ عام آ چکی ہیں۔ جس میں، پھول کھل گئے (ناول) 1986، جہاں چاہ وہاں راہ (افسانے) 2000، ہمیں انصاف چاہیے (تنقیدی مضامین) 2004، میں شاعری اور مشاعرہ (مزاحیہ مضامین) 2008، کامیابی کا راز (مضامین) 2016، تاثرات (شعری مجموعہ) 2017 اور خون کے آنسو (شعری مجموعہ) 2019 شامل ہیں۔ ابھی ایک افسانوی مجموعہ زیرِ ترتیب ہے۔
وہ بڑے ہی سیدھے سادے اور سچے دل کے انسان ہیں۔ تصنیف و تالیف ان کا شوق ہے۔ روزگار کے سلسلے میں 1958 میں ممبئی چلے گئے تھے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان کا دل آج بھی ناندورہ میں ہی بستا ہے۔وطن سے دوری نے ان کے ہاتھوں میں قلم تھما دیا، اس پر ممبئی کے علمی و ادبی ماحول نے چھُپے ہوئے قلمکار کو جگانے کا کام کیا۔
اشفاق انجم (مالیگاؤں) لکھتے ہیں:
”حمید ادیبی صاحب کی ساری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ نامساعد حالات میں پرورش و تعلیم پائی اور روزی روٹی کی تلاش نے ترکِ وطن کرنے پر مجبور کردیا۔ یہ اور کسی عظیم صدمے سے کم نہیں ہوتا کہ انسان سے اس کا وطن چھوٹ جائے۔ رزقِ مقسوم آپ کو ممبئی کھینچ لایا، جہاں آپ کو ایک باعزت ملازمت مل گئی۔ وطن سے دوری، عزیزوں سے مفارقت، ممبئی جیسا شہر، نیا ماحول، نئے لوگ، کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں، ایسے عالم میں ایک شاعر و ادیب اپنا دردِ دل کتنا اور کس طرح چھپائے؟ اگر زبان پر تالے لگا بھی لے تو قلم بولنے لگتا ہے۔“
وہ عمر کی بیاسی بہاریں دیکھ چکے ہیں اور آج بھی اُن کا قلم رواں دواں ہے۔ پیشے سے اسٹینو گرافر ہیں۔ اردو، انگریزی، ہندی اور مراٹھی زبانیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات، ان کی پانچویں کتاب ”کامیابی کا راز“ کے رسم اجرا کے موقع پر، 22 مئی 2016 کو ناندورہ میں ہی ہوئی تھی۔ آج بیاسی برس کی عمر میں بھی وہ بڑی مصروف ترین زندگی گزارتے ہیں۔ گھر سے آپ فیس اور آفس سے گھر کا سفر پیدل ہی طے کرتے ہیں۔ صبح گھر سے آفس کے لیے نکلتے ہیں اور دیر رات لوٹتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ وہ لکھنے لکھانے کا کام کب کرتے ہوں گے، خدا جانے۔ اونچے پورے، لمبے لچکے، دبلے پتلے، سانولی رنگت والے حمید ادیبیؔ ممبئی کی گلیوں میں اتنی تیز رفتار سے تڑنگ ٹڑنگ پیدل چلتے ہیں کہ نوجوان کی سانسیں اکھڑ جائے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ سنہ 1986 میں ان کی پہلی تصنیف ”پھول کھل گئے“ ناول کی شکل میں منظرِ عام آئی۔ یہ ایک یتیم لڑکی کی کہانی ہے۔ لفظ یتیم ہی اپنے آپ میں ایک دکھ اور درد سمیٹے ہوئے ہوتا ہے، بھلے چاہے کتنے ہی عیش و عشرت میسر ہو۔ یہ یتیم لڑکی شمیم ہے، جو شرم و حیا کا پیکر ہے۔ لیکن اپنے سینے میں ایک دھڑکتا دل بھی رکھتی ہے۔ یہ دل اس وقت مزید دھڑکنے لگتا ہے جب اس کی نگاہِ انتخاب خالد پے جا ٹکتی ہے۔ خالد بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ خالد اس کے محسن کا لڑکا ہے۔ جہاں شمیم پلی اور بڑھی ہے۔ شمیم چونکہ بے سہارا اور یتیم ہے اور زیرِ احسان بھی، اس لیے وہ اظہارِ محبت نہیں کرتی۔ کیونکہ اسے اپنے محسن کی رسوائی کا ڈر ہے۔ خالد اس سے بے پناہ محبت کرنے لگتا ہے، اور اظہارِ محبت بھی کر دیتا ہے۔لیکن وہ ہر بار انکار ہی کرتی ہے۔ اس طرح ان کی محبت ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ حمید ادیبیؔ نے محبت کی اس کشمکش کا اس ہنر مندی سے نقشہ کھینچا ہے کہ قاری بھی کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ناول عشقیہ ہے لیکن کہیں بھی جنسیات کا بے باکانہ بیان نہیں۔
ناول کے بعد ان کی دوسری تصنیف ”جہاں چاہ وہاں راہ“ جو سنہ 2000 میں منظرِ عام آئی، صنفِ افسانہ سے تعلق رکھتی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے موضوعات آس پاس کے ماحول سے ہی منتخب کیے ہیں، اور زندگی کی چھوٹی موٹی باتوں کو بنیاد بنا کر کہانیاں لکھی ہیں۔ غریب طبقہ، امیر طبقہ حالانکہ اپنے گھر کے حالات کو بھی انھوں نے موضوع بنایا ہے۔ اس مجموعے میں کل 22 افسانے شامل ہیں۔ جس کے عناوین اس طرح ہیں: پہلا زخم، سچی عید، تحفہ، ہیرامحل، جہیز کے نام پر، سراب، انتظار، بلیک میل، بغاوت، حل، زخمی آنچل، حسنِ انتقام، تاش کے پتوں کا محل، انمول موتی، سفر بے نام منزل کا، انسانیت کی معراج، کہیں دیپ جلے کہیں دل، شیش محل، جہاں چاہ وہاں راہ، یادگارعید، تلاش، زندگی کا ساز۔
ان کی کہانیوں کے کردار ہمارے سماج کے جیتے جاگتے، چلتے پھرتے حقیقی کردار معلوم ہوتے ہیں، جو کہیں نہ کہیں ہم سے ضرور ٹکرائے ہیں۔ سادہ بیانیہ اسلوب میں لکھی گئیں ان کہانیوں میں زبان نہایت ہی صاف ستھری ہے۔ زبان میں براری رنگ کی جھلک نظر آتی ہے۔ تحریر میں روانی اس قدر ہے کہ قاری یوں محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی اونچے ٹیلے پر سے بڑی تیزی سے نیچے کی جانب پھسل رہا ہے۔
بات اگر مضامین کی جائے تو، وہاں بھی حمید ادیبیؔ کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔ وہ اپنے مضامین میں بات کو سمجھانے کے لیے مثالیں پیش کرتے ہیں، حوالے دیتے ہیں اور کہانیاں سناتے ہیں۔ ان کی زنبیل میں طرح طرح کا مال موجود ہیں، جس میں بھانت بھانت کے محاورے، کہاوتیں اور کہانیاں شامل ہیں۔ جس نے ان کی تحریر کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ ان کے مضامین کا مجموعہ ”کامیابی کا راز“ نہایت ہی مفید کتاب ہے۔ 202 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کل 35 مضامین شامل ہیں۔ سبھی مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کتاب قیمتی پھولوں کے ایک حسین گلدستے کے مانند ہے۔ خاص کر نوجوانوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اسکول اور کالج کی تعلیم میں محض معلومات حاصل کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ جس میں اصل تعلیم کہیں کھو جاتی ہے۔ تعلیمی اقدار کیا ہے؟ تعلیم کا اصل مقصد کیا ہے؟ یہ ہمیں معلوم ہی نہیں پڑتا۔ اس کتاب کے متعلق میں یوں کہوں گا کہ دودھ میں سے گھی نکال کر ہمارے ہاتھ تھما دیا گیا ہے۔ پروفیسر محمد سعد اللہ اس کتاب کے متعلق فرماتے ہیں:
”کامیابی کا راز، صرف ایک کتاب ہی نہیں، عجیب و غریب، حیرت انگیز اور دلچسپ معلومات کا خزانہ ہے۔ یہ ایک رہبر بھی ہے جو زندگی کے ہر موڈ پر آدمی کی رہنمائی کرتی نظر آتی ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ مصنف کی زندگی کا نچوڑ معلوم ہوتا ہے۔ اس میں پیش کیے گئے مضامین گو کہ انفرادی حیثیت رکھتے ہیں مگر سب کا متن ’کامیابی‘ ہے۔“
ضضض