جدید نظم کا فنکاراختر الایمان

0
1111

زائرحسین ثالثی جعفرآباد

اخترالایمان کی ولادت ۱۲؍نومبر۱۹۱۵  ؁ء اترپردیش کے نجیب آبادضلع بجنور ایک گاؤںراؤ کھیری میں ہوئی۔ان کے والد کا نام حافظ فتح محمدتھا۔وہ پیشے کے اعتبار سے مولوی تھے۔ انھوں نے بجنور کی اور بعدمیں پنجاب کی کئی مساجد میں امامت کی اس طرح اختر الایمان کا بچپن کئی قصبوں اور کئی اور گاؤں میں گزرا۔وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں نجیب آباد اپنی ننہال آجاتے تھے۔کم سنی میںانھیںگذراوقات کے لئے دہلی آنا پڑا  اور ’’مویدالاسلام‘‘ یتیم خانہ اسکول میں داخل ہوگئے اورایک عرصے تک کسمپرسی کی زندگی گزارتے رہے۔اخترالایمان نے۱۶،۱۷کی عمرمیں شعر کہنا اور لکھنا شروع کردیاتھا۔ان کے دواستادعبدالصمد اور عبدالواحدتھے۔یہ زمانہ ان کی زندگی کاسب سے تاریک اورتکلیف دہ زمانہ تھامگراسی زمانے میں ایک ایساواقعہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی میں نورونکہت بکھیردی اوراردوکوزبردست شاعر عطاکیا۔اخترالایمان کی ولادت ۱۲؍نومبر۱۹۱۵  ؁ء اترپردیش کے نجیب آبادضلع بجنور ایک گاؤںراؤ کھیری میں ہوئی۔ان کے والد کا نام حافظ فتح محمدتھا۔وہ پیشے کے اعتبار سے مولوی تھے۔ انھوں نے بجنور کی اور بعدمیں پنجاب کی کئی مساجد میں امامت کی اس طرح اختر الایمان کا بچپن کئی قصبوں اور کئی اور گاؤں میں گزرا۔وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں نجیب آباد اپنی ننہال آجاتے تھے۔کم سنی میںانھیںگذراوقات کے لئے دہلی آنا پڑا  اور ’’مویدالاسلام‘‘ یتیم خانہ اسکول میں داخل ہوگئے اورایک عرصے تک کسمپرسی کی زندگی گزارتے رہے۔اخترالایمان نے۱۶،۱۷کی عمرمیں شعر کہنا اور لکھنا شروع کردیاتھا۔ان کے دواستادعبدالصمد اور عبدالواحدتھے۔یہ زمانہ ان کی زندگی کاسب سے تاریک اورتکلیف دہ زمانہ تھامگراسی زمانے میں ایک ایساواقعہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی میں نورونکہت بکھیردی اوراردوکوزبردست شاعر عطاکیا۔دہلی کے گلی کوچوں سے گزرتے وقت اکثرایک اشفاق نام کے آدمی سے سامناہوجاتاتھاجس کے سراورداڑھی کے بال سرخ تھے۔رنگ بہت گوراتھا آواز جھوجری تھی اوردلی کے گلی کوچوں میں اپنی شاعری گاگاکرچار۔چھ صفحات کی کتاب کی شکل میں بیچاکرتاتھا۔اس کاکلام سن کراخترالایمان کوخیال آیاکہ ایسے شعرتو میں بھی کہہ سکتاہوں اوروہ شعرگوئی کی طوف مائل ہوگئے۔اورغزلیں کہنی شروع کردیں اس زمانے کے شاعر استادحیدردہلوی،پنڈت امرناتھ سحر،نواب سائل دہلوی اوراستاد بیخودکے شاگردوں کی ٹولیاں کہیں جامع مسجدکے چوک اورکہیں ایڈورڈپارک میں بیٹھی ادبی رسہ کشی میں مصروف نظرآتی تھیںمصرعوں پرتابڑتوڑگرہ لگانااورفی البدیہہ شعرکہناہی شاعری کی معراج سمجھی جاتی تھی۔اخترالایمان نے یہ کشتیاں بھی خوب دیکھیں۔یتیم خانہ اسکول میں چارسال کاعرصہ گزارکراخترالایمان نے فتح پوری مسلم ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔یہاں بھی دومخلص اورجوہرشناس استادنعمت علی اورمحمدغوث ملے جوان کی خوب خوب حوصلہ افزائی کرتے اوران کے لکھنے پڑھنے کے ذوق وشوق کومہمیزکرتے۔جب یہاں اسکول میگزیزین کااجراہواتو اخترالایمان کواس کامدیر بنایا گیا۔یہاں انھوں نے غزل گوئی ترک کردی اورنظموں کی طرف توجہ کی۔ چنانچہ اس زمانے میں’’ گورغریباں‘‘ لکھی جواسکول میگزین میں شائع ہوئی۔اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اینگلوعربک کالج میں داخلہ لیا اس زمانے میں انھوں نے کچھ افسانے بھی لکھے جوشائع بھی ہوئے۔کالج سے انٹرکرنے کے بعدانھوں نے میرٹھ جاکرساغر نظامی کی میگزین’’ایشیا‘‘کی ادارت بھی کی اوروہیں میرٹھ کالج میں داخلہ لے کرتعلیم کاسلسلہ بھی جاری رکھا۔دہلی البتہ انھیں بہت یادآتی رہی۔وہ دہلی لوٹ آئے اورسپلائی کے محکمے میں ملازم ہوگئے۔مہینہ بھرکے بعدیہ نوکری چھوڑ کرریڈیواسٹیشن سے وابستہ ہوگئے۔انھوں نے دہلی یونیورسٹی سے بی۔اے۔ کیا،اس کے بعد اردو میں ایم۔اے کرنے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردومیں داخلہ لیا مگراسے مکمل نہ کرسکے۔ ۳؍مئی ۱۹۴۷کے ہولناک ماحول میں سلطانہ منصوری سے ان کی شادی ہوئی اورسلطانہ منصوری سلطان ایمان بن گئیں بیگم سلطانہ سے شادی کے قبل ۱۹۴۳میں ان کاپہلا مجموعہ کلام ’’گرداب‘‘شائع ہوچکاتھا۔آخرکار بمبئی چلے گئے وہاں بہت سی فلموں کے لئے مکالمے لکھے جوبے حدپسندکئے گئے لیکن اپنی شاعری کوانھوں نے فلمی دنیاسے الگ رکھا۔ان کاانتقال ۱۹۹۶میں بمبئی میں ہوا۔اورممبئی کیباندرہ قبرستان میں دفن ہوئے۔اخترالایمان جدیدنظم کے ایک فن کارہیں جنھوں نے نظم کی ہیئت میں کامیاب تجربے کئے۔ان کی نظموں کے موضوعات کافی دلکش ہیں اوران کے انتخاب میں بڑی ذہانت سے کام لیاگیاہے۔روح کاکرب،تھکن،اضمحلال اوراپنی ذات میں ڈوب جانے کا عمل ان کی نظموں میں ابھرتاہے اوراس معاملہ میں وہ اپنا خاص امتیاز رکھتے ہیں۔بقول ڈاکٹر یعقوب یاوراخترالایمان کودیگرترقی پسندشاعروں کی طرح ماضی سے وحشت نہیں ہوتی بلکہ وہ ماضی کی عظمت کے ثناخواں ہیں اورموجودہ عہدکی ابتری کواخلاقی زوال کانتیجہ قراردیتے ہیں۔ان کی نظم’’مسجد‘‘اس رجحان کادلکش مرقع ہے۔ایک ویران شکستہ مسجد کاذکراسطرح کرتے ہیں۔دوربرگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش و ملولجس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچےماضی و حال گنہ گار نمازی کی طرحاپنے اعمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکےایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلسپاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہےاور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھیمرثیہ عظمت رفتہ کا پڑھا کرتا ہےاس میں دوسرے مصرعہ کاآخری لفظ ’نیچے‘اورچوتھے مصرعے کاآخری لفظ’چپکے‘صوتی ہم آہنگی ہیںان کے یہاں صوتی اورلفظی دونوں قافیوں کی ہم آہنگی ہے۔ اخترالایمان کے شاعرانہ میلان میں تجربہ پسندی بھی کوٹ کوٹ کربھری ہوئی نظرآتی ہے اوراس میںبے حد آزاداوردوسری بوقلمونی دکھائی دیتی ہے۔انھوں نے پابند،معریٰ، آزاداور دوسری ہئیتوںکی نظمیںبھی کہی ہیں۔انھوں نے قافیوںکے التزام میں،بحرووزن کے التزام میںاوربعض دوسرے پہلوؤں سے بھی جدت طرازیاں کی ہیں۔اخترالایمان کے سرمایۂ سخن میں معریٰ نظموںکے شمارو اعدادسے بھی ان کا انفراد و امتیازنمایاںہوتاہے۔معریٰ نظم کاسیدھاسادہ مطلب ہے غیرمقفیٰ یاقوافی سے عاری نظم۔نظم معریٰ کے میدان میں بھی انھوں نے انوکھے نقش ونگاربنائے۔’’الٹے پاؤں والے لوگ،نیاآہنگ،اورایک لڑکا‘‘اس کی کامیاب مثالیں ہیں۔نظم نیا آہنگ اس کی اصل ہیئت میں دیکھئے۔کراماًکاتبیں اعمال نامہ لکھ کے لے جائیں۔دکھائیں خالق کون ومکاں کواورسمجھائیں۔معانی اورلفظوںمیں وہ رشتہ اب نہیں باقی۔لغت الفاظ کاایک ڈھیرہے،لفظوں یہ مت جانا۔نیاآہنگ ہوتاہے مرتب لفظ ومعنیٰ کا۔مرے حق میںابھی کچھ فیصلہ مادرنہ فرمانا۔میں جس دن آؤں گاتازہ لغت ہمراہ لاؤں گا۔اخترالایمان کے مجموعے’یادیں‘میں شامل ان کی نظم’ایک لڑکا‘ان کی مصروف اوربے حداہم شعری تخلیق ہے،یہ نظم اس دورکی اہم نظموں میںشمارکی جاتی ہے۔یوں تویہ نظم شاعری کی اپنی ذاتی اورشخصی زندگی کے پس منظرسے شروع ہوتی ہے۔نظم میں شاعرکا ہمزاد’ایک لڑکا‘اپنی گزشتہ زندگی کی رودادبیان کرتاہے،اوروہ شاعرسے سوال کرتاہے کہ کیاوہ اخترالایمان تم ہی ہو؟ملاحظہ کیجئے:مجھے اک لڑکا، آوارہ منش، آزاد، سیلانیمجھے اک لڑکا،جیسے تندچشموں کا رواں پانینظر آتا ہے ، یوں لگتا ہے ، جیسے یہ بلائے جاںمرا ہم زاد ہے ، ہر گام پر ، ہر موڑ پر جولاںاسے ہمراہ پاتا ہوں ، یہ سائے کی طرح میراتعاقب کر رہا ہے ، جیسے میں مفرور ملزم ہوںیہ مجھ سے پوچھتا ہے؛اخترالایمان تم ہی ہو؟نظم کے اگلے حصے میں شاعرخدائے بزرگ وبرترکی تمام نعمتوں اوربخششوں کا اعتراف کرتاہے،اوراس کی یہ بخششیں سب انسانوں کے لئے عام ہیں۔لیکن ایک بے نوااورمجبورشاعرجب کسی کے سامنے دست سوال درازکرتاہے تواس کاہمزادیہ سوال کرتاہے کہ اخترالایمان تم ہی ہو؟دراصل اس نظم کے سماجی اورقومی سروکاریہ ہیں کہ یہ نظم سماج کے اورانسانوں کے بنیادی مسائل کی ترجمانی کرتی ہے۔سماج میں دولت کی غیرمساویانہ تقسیم،بے روزگاری،بدعنوانی اورغربت وافلاس جیسے مسائل سے لوگوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔سیاست دانوں کی فریب کاری اورخود غرضانہ حکمت عملی کے سبب بہت سے سماجی مسائل پیداہوتے ہیں،جوعوام الناس کے لئے تکلیف کاسبب بنتے ہیں۔بقول شاعر:معشیت دوسروں کے ہاتھ میں ہے،میرے قبضے میںجزاک ذہنِ رساکچھ بھی نہیں،پھربھی،مگرمجھ کوخروش عمرکے اتمام تک اک بار اٹھانا ہےعناصرمنتشرہو جانے ، نبضیں ڈوب جانے تکنوائے صبح ہو یا نالۂ شب ، کچھ بھی گانا ہےظفرمندوں کے آگے رزق کی تحصیل کی خاطرکبھی اپنا ہی نغمہ ان کا کہہ کر مسکرانا ہےوہ خامہ سوزی،شب بیداریوں کا جو نتیجہ ہےاسے اک کھوٹے سکے کی طرح سب کودکھاناہےاخترالایمان کی کئی نظمیں دوسری جنگ عظیم کاردعمل تھیں ’’قلوپطرہ،خاک وخون،ریت کے محل،ایک سوال(نظم کاپس منظربنگال کاقحط ہے)۔’’نظم آزادی کے بعد‘‘ اور ’’پندرہ اگست‘‘ تقسیم ملک کی پیداوارہیں۔نظم’’پندرہ اگست‘‘آزادی وطن کے موضوع پرلکھی گئی ہے۔ہندوستان کی آزادی اس ملک کے عوام کی طویل جدوجہدکانتیجہ ہے۔ملک کے سب ہی فرقوں نے حصول آزادی کی خاطر برطانوی سامراج سے ٹکرلی تھی۔سب نے حسین خواب دیکھے تھے کہ آزادی کے بعدبرطانوی سامراج کے ظلم وستم سے نجات مل جائے گی اورہندوستان میں خوشحالی اورترقی کادورشروع ہوگاسب امن وامان اورسکون سے رہیں گے۔لیکن یہ حسین خواب اچانک خاک وخون میں ڈوب گئے اورآزادی ملتے ہی تقسیم وطن کے نتیجے میں ہرطرف انسانیت کش فسادات کاسلسلہ شروع ہوا۔لوگوں کواپنی جان کاتحفظ غیریقینی معلوم ہونے لگا۔اس ناگہانی انسانی المیے سے متاثرہوکرنظم ’’پندرہ اگست‘‘ میں اخترالایمان کہتے ہیں:یہی دن ہے جس کے لئے میں نے کاٹی تھیں آنکھوں میں راتیںیہی سیل آب بقا چشمۂ نورہے،جلوہ عطورہے وہ؟اسی کے لئے وہ سہانے مدھر،رس بھرے گیت گائے تھے میں نےیہی ماہ وش نشۂ حسن سے چور،بھرپور،مخمورہے وہ؟سناتھانگاہوں پہ وہ قید آداب محفل نہیں ابوہ پابندیاں دیدہ ودل پہ تھیں جواٹھی جارہی ہیںمجبوریاں اٹھ گئیں،ولوے راہ پانے لگے،مسکوانے لگے ابمحبت کٹھن راستوں سے گزرکرلہکتی مہکتی ہوئی آرہی ہے!وہی کسمپرسی،وہی بے حسی آج بھی ہرطرف کیوں ہے طاریمجھے ایسامحسوس ہوتاہے یہ محنت کاحاصل نہیں ہےابھی تووہی رنگ محفل،وہی جبرہے،ہرطرف زخم خورہ ہے انساںجہاں تم مجھے لے کے آئے ہو یہ وادی رنگ بھی میری منزل نہیں ہےشہیدوں کاخوں اس حسینہ کے چہرے کاغازہ نہیں ہےجسے تم اٹھائے لئے جارہے ہویہ شب کاجنازہ نہیں ہے’’بنت لمحات‘‘ ایک ایسی مختصر نظم ہے جس میں وقت کاتصوراوراس کی جبریت فلسفے کوایسے فنکارانہ اندازمیں نظم کیاگیاہے کہ نظم مختصر ہوتے ہوئے کافی اہمیت کی حامل بن گئی ہے اوروحدت تاثرکابہترین نمونہ بھی:تمھارے لہجے میں جو گرمیٔ حلاوت ہےاسے بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہغنیم نوٗر کا حملہ کہو اندھیروں پردیار درد میں آمد کہو مسیحا کیرواں دواں ہوئے خوشبو کے قافلے ہر سوٗخلائے صبح میں گونجی سحر کی شہنائییہ ایک کہر سی ، یہ دھند سی جو چھائی ہےاس التہاب میں ، اس سر مگیں اجالے میںسوا تمھارے مجھے کچھ نظر نہیں آتاحیات نام ہے یادوں کا ، تلخ اور شیریںبھلا کسی نے کبھی رنگ و بوٗ کو پکڑا ہےشفق کو قید میں رکھا ، صبا کو بند کیاہر ایک لمحہ گریزاں ہے ، جیسے دشمن ہےنہ تم ملو گی نہ میں ، ہم بھی دونوں لمحے ہیںوہ لمحے جا کے جو واپس کبھی نہیں آتےفکری پہلوسے اخترالایمان اپنے ہم عصروں سے بلندہیں اورایک باشعور و پختہ کارشاعرمحسوس ہوتے ہیں۔زندگی اورکائنات کاانھوں نے قریب سے مطالعہ کیا ہے۔ان کاقاری ان کی سرگوشیوں میںشریک اوران کے فنی تجربات میں حصہ دار بن جاتاہے انھوں نے شاعری کونعرہ بازی بننے سے بچائے رکھا۔خلیل الرحمن اعظمی ان کے بارے میں بجاطور پرلکھتے ہیں۔’’ان کے یہاں یاس وامید،اندھیراواجالا،نیکی وبدی،انسانیت اور حیوانیت کی ایک کشمکش اورمستقل پکارملتی ہے جس نے ان کی نظموں کوایک ڈرامائی لب ولہجہ اوراسلوب دیاجس میں بیک وقت گہرائی ،نرمی ومانوسیت ہے۔فنی اعتبارسے اختر الایمان کی نظموں میں پختگی ،صفائی اورتکمیل کااحساس ہوتاہے‘‘۔تقریباً چھ دہائی پرمشتمل ان کے سرمایہ سخن میں کئی نظمیں شاہکاربن گئیں۔ جن میں ’’مسجد،تنہائی،تاریک سیارہ یادیں،ایک لڑکا،غلام روحوں کا،کارواں، باز آمد ،عہدوفا،پیمبرگل،شیشے کاآدمی،یوں نہ کہو،اندوختہ،اذیت پرست،کوزہ گر،بنت لمحات، راستہ کاسوال،کارنامہ،اپاہج گاڑی کاآدمی،ارض ناکس۔زمستاں سردمہری کا،گور غریباں،پرانی فصیل،الٹے پاؤں والے لوگ،نقش پا(اس نظم کامحرک فیروزشاہ کے کوٹلے کے کھڈر)،موت،محرومی،قلوپطرہ،خاک وخون،ریت کے محل، ایک سوال (پس منظربنگال کاقحط)آزادی کے بعد،۱۵؍اگست(تقسیم ملک) ، رویائے صادقہ، کارنامہ،شکست خواب،تجدید،دورکی آواز،لغزش، دوپربت، تجھے کماں ہے،میری گھڑی،زندگی کے دروازے پر،گریز،تلاش کی پہلی اڑان، مناجات، بازگشت، تشخیص ،اخترلایمان کے کل ۹؍مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے تھے،ان کے نام اس طرح ہیں:گرداب ۱۹۴۳سب رنگ۱۹۴۳تاریک سیارہ۱۹۵۲آب جو ۱۹۵۹یادیں۱۹۶۱بنت لمحات۱۹۶۹نیاآہنگ ۱۹۷۷سروسامان۱۹۸۳زمین زمین۱۹۹۰ان کے انتقال کے بعد۱۰؍واں مجموعہ’’زمستاں سردمہری کا‘‘مرتبہ :سلطان ایمان ،بیداربخت۱۹۹۷میں شائع ہواتھا۔اول الذکر۹؍ مجموعے’’کلیات اخترالایمان‘‘کل صفحات۵۶۸ میں شامل ہیں،جس کی اشاعت ایجوکیشنل پبلشگ ہاؤس نے پہلی بار سنہ۲۰۰۰میں کی تھی۔ان کی ایک خودنوشت اس آبادخرابے میں(۱۹۹۶)کے عنوان سے شائع ہوئی تھی جوبہت مقبول ہوئی۔انھیں ان کے شعری مجموعہ’’یادیں‘‘پرساہتیہ اکادمی کااعزاز(ایوارڈ)بھی ملا۔اس کے علاوہ انھیں بہترین مکالمے کے لیے فلم فیئرایوارڈ بھی ملے۔ان کی نظمیہ شاعری کومقبراورمقتدرناقدین نے سراھا ان پرکئی تحقیقی کتابیں شائع ہوچکی ہیں اورکئی رسالوں کے خصوصی نمبربھی شائع ہوئے جن میں’’معیار‘‘نئی دہلی،’’آجکل‘‘نئی دہلی فروری۱۹۹۴’’ایوان اردو‘‘دہلی۔آجکل نومبر۲۰۱۵،اردودنیا نومبر۲۰۱۵،قابل ذکرہیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here