جبریہ طور سے کوریٹائن کئے گئے سبھی افراد کی فائنل رپورٹ صفر

0
170

پر کرب و فتن حالات میں ساٹھ فیصد افراد بھر پیٹ کھانہ کیلئے فکر مند؟
سہارنپور (احمد رضا)آج کے ان پر خطر حالات میں جب ایک وائرس انسان کا دشمن بناہواہے وہیں ایک خاص طبقہ بھی یہاں موجودہیکہ جو انسانیت بلخصوص مسلم طبقہ کا دشمن بنا ہو ا ہے اور ایسے واقعات ہر دن رو نما ہو رہے ہیں کہ جن کے سبب کل انسانیت شرمسار ہو جاتی جارہی ہے ایسے نازک حالات اور نازک وقت میں انسانیت کے ناطے ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مخلو ق خدا کی جہاں تک رسائی ممکن ہو خدمت کریں اور اس اہم انسانی فرض کو بخوبی نبھائیں ہو یہ رہا ہے کہ معاشرہ میں جن طبقات کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے وہ ایک دوسرے پر بیہودہ الزام تراشی میں مصروف ہیں لاچار اور بھوک کے تڑپتے عوام کی کسی کو بھی کچھ فکر نہی ہے ان میں کچھ قو می ٹی وی چینل بھی ہیں کہ جنہوںنے ملک میں انسانوں کے درمیان کھائیاں کھودنیکا کام اپنا مقصد بنا یاہوا ہے صرف تیس لاکھ سے زائد آبادی والے ضلع سہارنپور میں ہندو مسلم اور دلت برادری کے چالیس فیصد گھر ایسے ہیں کہ جنکو آج پیٹ بھر ایک وقت کا کھانہ بھی بہ مشکل میسر ہوپارہاہے مگر ان نادار افراد کی اس بے بسی اور لاچاری پر کوئی ٹی وی چینل کوئی نیوز نہی دکھا رہاہے نیز جن تبلیغی جماعت والوں کو کمشنری کے مختلف علاقوں سے گرفتار کر ۳۰ مارچ تک جبریہ انداز میں کورینٹائن کیا گیاتھا کل دیر شام ان سبھی کی رپورٹ نل( صفر) آگئی ہے سبھی جماعتی اسپتالوں میں خوش وخرم ہیں کسی کو بھی یہ وائرس نہ پہلے تھا اور تیس دن بیت جانیکے بعد م ان سیکڑوں افراد میں کسی بھی طرح کی کچھ بھی علامتیں دس دس ٹیسٹ کرائے جانے کے بعد بھی ظاہر نہی ہو پائی ہیں ضلع سہارنپور کو گزشتہ آٹھ مارچ سے ہاٹ اسپاٹ تسلیم کیا گیاہے لاک ڈائون میں گھر سے ضرورت کیلئے باہر نکلنے والوں کے پولیس نے ہاتھ پیر توڑ رکھے ہیں بربریت کی انتہاء ہوچکی ہے لیکن اب ان سبھی تین سو سے زائد افراد کی فائنل رپورٹ نل آجانیکے بعد کسی کے پاس کوئی جواب نہی ہے سبھی بھاجپائی، ٹی وی چینل اور مسلم افراد پر دونوں ہاتھوں سے لاٹھیاں برسانے والے پولیس والے بھی اب بگلے جھانکنے لگے ہیں افسران بھی چپ رہنا بہتر مان رہے ہیں اگر یہ سہی ہے تو پھر عماعتیوں اور مسلم افراد پر یہ ظلم ستم اور گالی گلوچ کا نازیبا حملہ کیوں اور کس لئے کرایا گیا؟
یہ سچ ہیکہ اندنوں پورے عالم میں کرونا کی وبا کے سبب ہاہاکار مچا ہواہے وہیں تیرہ کروڑ کی آبادی والے اتر پردیش ہی میں ایک اندازہ کے مطابق آج سات کروڑ سے زائد افراد اب ایک وقت روٹی کھانہ پر مجبور ہورہے ہیں سرکاری اور سیاسی افراد کی امداد جن ہزار افراد تک ہی بہ مشکل ایک وقت کا کھانہ پہنچانے کا عزم دکھا پارہی ہے چالیس دن گزرنے جارہے ہیں گھر میں قید کرڑوں افراد کے گھریلو حالات خدا ہی جانتاہے وہی رحم کرنے والاہے انسانوں میں اتنی ہمت کہاں کہ وہ ان غریبوں کو ایک وقت بھی بھر پیٹ کھانہ کھلا سکے کل ملاکر اندنوں حالات بہت نازک ہیںوہیںآج اس نازک گھڑی میں صاحب مال اور جائیداد پورا کا پورا مسلم طبقہ انسانی جذبہ کیساتھ خاموشی سے بے سہارا، لاچار اور بے حال افراد کی مدد کیلئے عمل پیرا ہے کتنی ہی مشقت اٹھانہ پڑے مگر پڑوسیوں اور بے بس افراد کو ہر ممکن مدد پہنچائی جارہی ہے سرکاری دعوے اب کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں مڈل کلاس بھی اب مزدور طبقہ کی مانند ہی تنگ اور پریشان نظر آرہاہے سرکاری مشینری مکمل لاک ڈائون میں لگی ہے لاک ڈائون توڑنیوالے افراد کو دشمنوں اور جانوروں کی طرح مارا پیٹ جارہاہے یہ نہی معلوم کہ پولیس جن مظلومین پر اپنا ڈنڈا گھما رہی ہے وہ کس لاچاری اور مجبوری میں گھر سے نکلا ہے جس طبقہ کے ساٹھ فیصد لوگ پہلے ہی سے روزانہ کمانے اور کھانہ والے ہیں انکی پرواہ کئے بنا ہی ایسے افراد اب پولیس کی بربریت کا شکار بننا پڑ ر ہاہے ہیں نچلے طبقہ کو آس پڑوس کے لوگ کسی حد تک امداد ضرور پہنچا رہے ہیں مگر مڈل کلاس جو عزت کیساتھ جینا چاہتی ہے وہ کس سے مانگے یہاں تو آج پچھلی ۲۲ مارچ سے مکمل لاک ڈائوں ہے سبھی روزی روٹی جمع کرنیکے لئے چپکے چپکے گھر سے باہر نکلتا ہے تو پولیس اس سے اسکی مجبوری پوچھے بناہی اسکو اپنی لاٹھیوں کا شکار بنا دیتی ہے کوئی ایم پی، ممبر اسمبلی یا صاحب حیثیت شخص پولیس جبر کیخلاف منھ کھولنے کو تیار ہی نہی آج آکاس وکاس کالونی میںسابق ریاستی وزیر اور سماجوادی پارٹی کے قائد مرحوم راجندر رانا کے بیٹے رانا کارتییکے سنگھ کے ساتھ بھی پولیس نے کافی زیادتی کی جہاں تک مسلم علاقوں کی بات ہے تو وہاں یہ جبر ہر گھڑی دیکھنے لائق ہے یہاں مسلم ریہڑی والاہو، دودھ والا ہو، پان والاہو یا پھر پھیری والا ان سبھی کو سختی سے لاٹھیاں ماری جاتی ہیں نتیجہ ہاتھ ٹوٹے یا پیر پولیس کو کوئی پرواہ نہی یہاں وہ دشمنوں جیسا سلوک کرتی ہے عام شکایات ہیں کہ مسلم علاقوں میں ضروری اشیاء لانے لیجانے والے افراد کا روٹی کا بندوبست کرنا ہمالیائی چوٹی سر کرنے برابر ہے کوئی ہمدردی نہی صرف گالی یا لاٹھی ان لاچار افراد کا مقدر بنگئی ہے عوام کو جان بوجھ کر بھوکے رہنے پر مجبور کیا جارہاہے لاک ڈائون میں مجبور اور تنائو سے بھرے عوام کیساتھ ہمدردی کے بجائے زور زبردستی کیاجانا غیر انسانی فعل ہے! عوام کو مار مار کر خائف کیا جاسکتاہے اس مار پیٹ سے کرونا ختم نہی ہوگا کرونا کو شکست دینے کیلئے عوام کو بیدار کرنا ہوگا گزشتہ ۱۵ اپریل کے بعدسے تو ہمارا بے بس عوام بھاری تنائو کے بیچ دو وقت کے کھانہ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے اسی دوران اس پر لاٹھیاں برسانا اور اسکے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جانا کسی بھی صورت بہتر اور جمہوری طریقہ نہی ہے سرکار کو اپنے طور طریقوں میں بد لائو لاناہی ہوگا عوام کسی بھی ذات یا مذہب سے تعلق رکھتاہو اسکی مشکل اور تنگی پر بھی نظر ڈالنی ضروری ہے بھوکے پیٹ عوام کو گھروں میں قید رکھنا بھی اچھا عمل نہی!

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here