9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ن ۔ س پھڑکے
مترجم :محمد اسد اللہ
ٹک ٹک ٹک ۔۔۔ٹک ٹک ٹک ۔۔ٹھن
ٹائپ رائٹر کی یہ ٹک ٹک دنیا کے اختتام تک یا کم از کم اپنی زندگی کے خاتمے تک کبھی ختم نہ ہو گی ،بھاسکر کو اس لمحے محسوس ہوا ۔ اد ھر اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاںٹائپ رائٹر کی کیز پر تیزی سے حرکت کر رہی تھیں اور دوسری طرف اپنی زندگی کی حقارت اور بے معنویت کا احساس اس کے دل و دماغ میں طواف کر رہا تھا۔اس کے آگے پیچھے چاروں طرف ٹائپسٹ بیٹھے تھے اور ہر شخص کولہو کے بیل کی طرح سر جھکائے اپنی انگلیوں سے شور مچا رہا تھا ۔
ٹک ٹک ٹک ۔۔۔ٹک ٹک ٹک ۔۔ٹھن
اہر موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔دوپہر کے دو بجے تھے اور چاروں طرف گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔سالِسٹر کے آفس کے تمام بلب جل رہے تھے لیکن مصنوعی روشنی کتنی ہی کیوں نہ ہو، ظاہر ہے سورج کی روشنی کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ تیز ہوا کے سبب بارش کی بوچھار کھڑکیوں سے ٹکراتی اور پانی اندر تک چلاآتا ۔بلب ہلنے لگتے اور کلرکوں کی پرچھائیاں آڑی ترچھی ہو کر باہم گڈمڈہو نے لگتیںلیکن ان پرچھائیوں کی طرف دیکھنے کی فرصت کسی تھی ؟
ہوا سے پھڑ پھڑانے والے کاغذسنبھالنے کے لئے ہی و ہ رکتے ورنہ ان کے ہاتھ مشینوں پر تیزی سے دوڑرہے تھے ۔کسی کے کاغذپر لاکھوں کی جائداد کا بیان لکھا جارہارہا تھا ،کسی پر طلاق کی عرضی ٹائپ کی جا رہی تھی، کسی پر گود لی ہو ئی اولاد کے دعوے کی تفصیلات درج کی جا رہی تھیں ۔یہ سب مختلف واقعات ان کلرکوں کی نظر میں یکساںتھے۔
ٹک ٹک ٹک ۔۔۔ٹک ٹک ٹک ۔۔ٹھن
بھاسکر کی انگلیوں میں درد ہو نے لگااور وہ آواز اس کے کانوں کے لئے ناقابلِ برداشت ہو تی جارہی تھی ۔اس آواز کے سبب بارش کی آواز بھی سنائی نہ دیتی تھی ۔ ان تمام عمارتوں میںبلکہ اکثر اسے ایسا محسوس ہو ا کر تا گویا پوری دنیا میں وہی ایک آوا ز پھیلی ہو ئی ہے۔اس مخصوص آواز کی یکسانیت سے وہ بیزار ہو چکا تھا۔
اسے محسوس ہوا گویا وہ آواز اس کی زندگی کا خلاصہ ہے ۔وہ بار بار ایک لمحہ کے لئے چونک پڑتااور اپنے دائیں انگوٹھے سے بائیں ہاتھ کی اور بائیں انگوٹھے سے دائیں ہاتھ کی انگلیاں دباتے ہو ئے اپنے آپ سے کہنے لگتا :پتہ نہیں انسان زندہ ہی کیوںہے ؟
تین سال پہلے سالِسٹر کے اس آفس میں اس نے ٹائپسٹ کی نوکری جوائن کی تھی ۔اس کے بعد اسے دو مرتبہ انکریمنٹ کے ساتھ اب پچپن روپئے تنخواہ ملتی تھی ۔وہ ماٹونگا کی ایک چال میں اوپر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہا کرتا تھا اور وہیںایک سستے سے ہو ٹل میںکھانا کھاتا، تاہم اسے ہر ماہ تیس پینتیس روپئوں کی ضرورت پیش آتی ۔ بقیہ رقم اسے ساتارہ میں اپنے ماںباپ، دو بیوہ بہنوں اورچار چھوٹے بھائیوںکو بھجوانا ضروری تھا ۔دس بجے سے چھے بجے تک اس کا وقت ٹائپ رائٹر پر انگلیاںپٹخنے میں گزرتا اور باقی وقت کیسے بیت جاتا،اسے پتہ ہی نہ چلتا۔پورے جسم اور دل و ماغ کے تھکنے تک کچہری میں محنت کرنا ،چند لقمے پیٹ میں ڈال کر ٹھنڈی سانس چھوڑنا،پھر بستر پر چند گھنٹے گزارنے کے بعد دوبارہ کام پر نکل جانا اس سے زیادہ اسے کسی چیز کا ہوش نہ تھا۔
صبح مقررہ وقت پر میڈوز اسٹریٹ کی اس گھٹن بھری عمارت میں داخل ہوتے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔وہ کسی طرح برداشت کرکے ٹائپ رائٹر کا کور ہٹاکر اپنی انگلیوں کو حرکت دینا شروع کر دیتا ۔
ٹک ٹک ٹک ۔۔۔ٹک ٹک ٹک ۔۔ٹھن
کبھی کبھی وہ اپنے ارد گرد بیٹھے ہم پیشہ کلرکوں کو دیکھ کر سوچتا ۔ کیا میری طرح ان کی زندگی بھی ناقابلِ برداشت نہیں؟ان سب کو بھی اتنی ہی تنخواہ ملتی ہے جتنی مجھے حاصل ہو تی ہے ۔ان کے کاندھوں پر بھی زندگی کی کم وبیش وہی ذمہ داریاںہیں،ان کے ہاتھ بھی میرے طرح تھکے ہوئے ہیں۔رات دن محنت و مشقت کے باوجود جونک کی طرح جسم سے چمٹی ہو ئی مفلسی انھیںتڑپاتی ہوگی ہی ۔پھر یہ سارے لوگ جیتے کیسے ہیں؟ایسے حقیر،راحت سے عاری،قابلِ نفریں زندگی پر انھیںغصہ کیوںنہیں آتا ؟یہ بیزار کیوںنہیں ہو تے ؟
کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ،یہ اس کی سوچوں کے سلسلے کا گویا اختتامیہ کلمہ بن گیا تھا۔آج بھی اس نے وہی جملے دہرائے اورلمحہ بھر کے لئے ان تما م لوگوں کوبغوردیکھا۔سب اپنے کاموںمیں مست تھے۔
ٹک ٹک ٹک ۔۔۔ٹک ٹک ٹک ۔۔ٹھن
بھاسکر نے اپنے بچپن میں ایک کپڑا مل دیکھی تھی ۔وہاںہر کرگھے پر مرد اور عورتیںاپنے کاموں میں کھوئے ہو ئے تھے ،اسے وہ منظر اچانک یاد آیا اور اس کے خیالات کی تلخی میں مزید اضافہ ہو گیا ۔
اس کے دل نے کہا۔دوسروں کا جو ہو نا ہے، ہوا کرے ،مجھ سے اب یہ سب برداشت نہیں ہو تا۔میں اپنے آپ کو آ ج ختم کرلوںگا۔خودکشی کے اس خیال میں اسے کسی خطرے کا احسا س نہیں ہوا ۔ شاید اس لئے کہ وہ زندگی سے حد درجہ بیزار ہو چکا تھا ۔
کچھ بھی ہو، بھاسکر نے خود کشی کا ارادہ کیا۔اس نے طے کیا کہ کل اسے اس جہنم میں لو ٹ کر نہیں آنا ہے ۔
عجیب بات یہ کہ دل میں یہ ارادہ کر کے اس نے دوبارہ اپنے ٹیبل پر بکھرے کاغذات کو سمیٹ کر ٹائپ رائٹر پر انکلیوںکو حرکت دینی شروع کی ۔گویا س کی طبیعت اس سے کہہ رہی تھی کہ مر نا کل ہے تو کل ہی دیکھا جا ئے گا۔پھر وہ نہ جانے کتنی دیر تک ٹائپ کر تا رہا ۔ ٹائپ کر تے وقت اس کے ذہن میں خیالا ت کا لامتناہی سلسلہ چلتا رہا ۔جان دینی ہے تو کس طرح دی جائے؟ مجھے تو اس کا کوئی تجربہ نہیں ۔ اس نے سوچا ۔اس وقت تک پڑھی ہو ئی خودکشی کی وارداتیں اسے یاد آ ئیں۔غرقابی،پھانسی ،آگ، زہر کئی ذرائع تھے خود کشی کے، لیکن ان سب پر غور کیا تو کو ئی بھی کام آ سان نہ تھا۔ تنگ آ کر اس نے سوچا۔جانے دو آج کا یہ کام پورا کر لوں پھر سوچوںگا۔ وہ اپنے کام میںمصروف ہو گیا۔آفس کے بعد وہ گھر جانا چاہتا تھالیکن اس کے ٹیبل کے قریب واقع دوسرے ٹیبل پر بیٹھنے والے بینرجی نے اسے ٹوکا : کیا مسٹرچائے پئیں گے ایرانی کی ہوٹل میں ؟
نو تھینکس۔
اچھا آ ئس کریم لو۔
نہیں شکریہ ۔
ارے بھئی آ ج آئس کریم پیش کر رہا ہوں کل بڑی پارٹی دوںگا تمہیں ۔
اچھا سمجھا ۔
مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ہو سکتا ہے کل میں لکھ پتی بن جائوں۔
یعنی؟
ارے ڈربی کا ٹکٹ لیا ہے ۔کل نتیجہ نکلنے والا ہے ،تم کیوں نہیں خرید لیتے ایک آدھ ٹکٹ؟
بھاسکر نے بنرجی کی طرف دیکھا ۔غیر معمولی طور پر ابھری ہو ئی توند ،بھدا جسم ،اپنے پانچ نمبر کے چشمے سے اس کی طرف دیکھ کر اپنے زرد دانتوں کی نمائش کر تے ہو ئے مسکرا رہا تھا۔اس مسکراہٹ کے معنی اس کی سمجھ سے پرے تھے ۔
پھر وہ یکایک کہنے لگا۔ آج لینے والا ہوں میں ایک بڑا ٹکٹ ۔
آج کہاںملے گا تمہیں ٹکٹYor are too late
اس کی ہنسی سے اس کی بڑی سی توند مچلنے لگی ۔اس پر بھاسکر نے عجیب ساچہرہ بنایا اور وہاں سے راہِ فرار اختیار کی ۔
راستے میں وہ اپنے آپ سے کہنے لگا ۔ کیسے مر نا ہے یہ میں خود ہی طے کروں گا، پانی ،پھانسی اور آگ ان میں سے کوئی بھی مصیبت نہیں چلے گی ۔ وہ زہر کے بارے میں سوچنے لگا۔لیکن اس وقت زہریلی دوائیوں کے نام اسے یاد نہ آئے اور جب یاد آ ئے تو یہ پتہ نہ چلا کہ انھیں کیسے حاصل کیاجائے ؟افیون کی دکان میں جاکر افیوں کیسے مانگی جا ئے ؟یا کسی دوائی کی دکان سے زہریلی دوائی کیسے حاصل کی جائے ۔اسے لگا یہ سب کرتے ہو ئے وہ گھبراجائے گااور پکڑا جا ئے گا۔دماغ نے جواب دے دیا۔یہ بات اسے بڑی عجیب سی لگی کہ مرنا اس قدر بھی آ سان نہیں۔اس نے ادھر دیکھا ۔وہ مرنے سے جان چرارہا تھا ۔موٹر ،ٹرام ،گاڑیاں کتنے ہی موت کے فرشتے لوگوں کی زندگیوںسے گزر رہے تھے اور لوگوں نے ان سے کس صفائی کے ساتھ اپنے آپ کو بچا رکھا تھا ۔اس نے دیکھا ۔ایک جذام کے مرض کا شکار ایک بوڑھے نے کسی لاری کے ہارن کی زور دار آ واز سنتے ہی فٹ پاتھ پر چھلانگ لگائی اور بچ گیا ۔اس بد نصیب انسان کو بھی جینے کی کیسی ہوس ہے ۔انسان بھلا کیوں جیتا ہے ؟
یہی سوال جو ہر دن اسے پریشان کیا کر تا تھا ،آج پھر اپنی پوری شدت کے ساتھ اس کے سامنے موجود تھا۔اسے اپنا پرانا مرنے کا ارادہ یاد آ یا او ر وہ سوچنے لگا۔چرچ گیٹ پہنچ کر ٹرین میں بیٹھتے ہی اچانک اس کے ذہن میں یہ خیال آیا ۔اگر ریل کی پٹری پر لیٹ جائوں تو؟ اس میں کچھ خرید نے کی جھنجھٹ نہیں ،نہ اس میں زیادہ اذیت جھیلنا ہے ۔چند لمحوں میں جسم نیست و نابود ۔یہ خیال اسے پسند آ یا اس نے طے کر لیا کہ اسے کس گاڑی کے نیچے جاکرجان دینی ہے ۔وہ جہاں رہتا تھا ۔اس سے پندرہ منٹ کی مسافت پر ایک ریلوے گیٹ تھا۔رات گیارہ بجے ایک لوکل ٹرین وہاں سے گزرتی تھی ۔
بھاسکر نے بہت غور و فکر کے بعد اس گاڑی کو خود کشی کیلئے منتخب کیا ۔آس پاس رہنے والوں کو دیکھا اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کا فیصلہ بہر حال خطرناک ہے۔ ا س کے قریب ایک آ دمی اخبار پڑھتے ہو ئے اپنے ساتھی سے کہنے لگا ، یہ دیکھا تم نے ؟
کیا ہے ؟
جرمنی نے ایک ایسی توپ تیار کی ہے جس کے ذریعے وار کیا جائے تو لندن جیسا شہر دس منٹ میں تباہ کیا جا سکتا ہے ۔
سچ مچ ،ارے باپ رے۔
بھاسکر نے دل ہی دل میں کہا ، جرمنی کے باشندے زندہ باد۔
وہ ماٹونگا اسٹیشن پر اترا تے تو بارش جاری تھی ۔جب وہ اپنی گلی میںداخل ہوا ،وہاں گھٹنوںتک پانی جمع ہو چکا تھا ۔آس پاس کی دکانوں کی روشنیوں میںآنے جانے والوں کی پر چھائیاںتھوڑٰ دیرتک اس پانی میں لہراتی ہو ئی دکھائی دیتی تھیں ،ہوٹلوں سے اشتہا انگیز مہک اٹھ رہی تھی ۔ایک آٹا چکی کے پاس کھڑے بچوں نے چہرے اور بدن پر آٹا مل رکھا تھا ۔ ایک دودھ والے کی دکان میں برتن صاف کر نے والا لڑکا راستے کے درمیان منہ میں بھراتمباکو کاپیک اگل رہا تھا ۔یہ سارے مناظر دیکھ کر بھاسکر نے سوچا جرمنی والے اس جگہ آکر وہ توپ داغ دیںتو کتنا اچھا ہو ۔کیسی مفلسی اور گندگی ہے یہاں! کیا یہی زندگی ہے ؟ کیوں جیتے ہیں بھلا یہ لوگ؟ اگر ان کا جی مر نے کو نہیں چاہتا تو انھیں زبردستی مار ڈالنا چاہیئے ۔
گھر پہنچ کر منھ ہاتھ دھونے کے بعد وہ چٹائی پر لیٹ گیا اور دیر تک بے حرکت پڑا رہا ۔گھنٹہ بھر بعد اس کا جی چاہا کہ ہوٹل جاکر کھانا کھائے ،پھر سوچا ۔ کھاناکھانے یا نہ کھانے سے کیا فرق پڑتا ہے ؟یہ سلسلہ ختم ہو نے میں اب دیر ہی کتنی ہے ؟ پھر نہ جانے اس کے جی میںکیا سمائی کہ اٹھا اور کوٹ پہن کر باہر نکل گیا۔اس نے طے کیا کہ کھانا کھائے اور پھر گھر کی طرف لوٹنے کی بجائے ریلوے پھاٹک کی طرف جائے ۔وہ ہوٹل کے راستے پر ہو لیا ۔ہوٹل کے دروازے پر اس کا پیر ایک مینڈک پرپڑا ۔وہ ذراسا مینڈک اچھل کر چھلانگیں مارتا ہوا قریب کے گڑھے میں غائب ہو گیا۔ اس کا بھی مرنے کا ارادہ نہیں ۔ بھاسکر کو یہ بات عجیب سی لگی ۔ہر طرف جینے کی جدوجہد کیوں جاری ہے ؟وہ سمجھ نہ پایا ۔مشینی انداز میں کھانا کھا کر وہ باہر نکل آ یا ۔
مطلع صاف ہو چکا تھا۔چاندکی روشنی میںآسمان خوشنما نظر آ رہا تھا ۔جس ریلوے پھاٹک پر اسے پہنچنا تھا۔اس کے لئے ایک بستی سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا ۔ دو راستے پار کر نے کے بعد کسی بنگلے کے پاس اسے لوگوںکی بھیڑ نظر آئی ۔قریب گیا تو گانے کی آ واز سارنگی کی آ واز کے درمیان ابھر رہی تھی ۔وہاںجمع بھیڑ میں موجود ایک شخص سے اس نے پوچھا ۔یہ کیا گڑ بڑ ہے ؟
گڑبڑ ! ہونھ
اس آدمی نے بھاسکر کے سوال پر ناگواری کا اظہار کرکے گانے کی آواز پر اپنی توجہ مرکوز کردی ۔اس نے دوسرے شخص سے وہی سوال دہرایا۔شش۔۔ارے بھئی رکو! اس کے بعد اس نے کو ئی جواب نہ دیا۔سار ے لوگ اس گیت کو سننے میں مگن تھے ۔بھاسکر بھی وہاں کھڑا رہا اور جلد ہی اس کی حالت بھی ان ہی لوگوں کی سی ہو گئی جواس گیت سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔اسے گیت سنگیت سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی لیکن گانے والی کی آ واز اسقدر مسحور کن تھی کہ اس پر خود فراموشی کی کیفیت طاری ہو گئی ۔ہر طرف سروں کے فوارے سے چھوٹ رہے تھے ۔ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا کسی باغ میں سینکڑوں پھول کھل اٹھے ہوں۔فضا میں عطر کے گھڑے کسی نے لڑھلکا دئے ہوں اور مسرت کے احساس نے پوری کائنات کو گھیر لیا ہو ۔بھاسکر کو پتہ ہی نہ چلا کہ اسی سرشاری کی کیفیت میں وہ کب تک وہاںکھڑا رہا ۔جب بھیڑ چھٹنے لگی تو اسے یاد آ یا کہ وہ تو خودکشی کرنے نکلا تھا۔بھیڑ میں اسی وقت کسی نے پوچھا ، بھئی کتنے بجے ہیں؟
دوسرے شخص نے جواب دیا ،ساڑھے گیارہ یہ سن کر بھاسکر بری طرح چونکا ۔
ساڑھے گیارہ ، گویا وہ ٹرین کب کی گزرگئی ۔اب کیا کریں ؟ اس سوال سے بظاہرجو بے چینی اسے ہو نی چاہئے نہیں ہو ئی ۔یا شاید اس کے دل سے وہ ارادہ نکل گیا تھا البتہ اس کی شدت ضرور کم ہو گئی تھی ۔اسے محسوس ہوا ،یہ ارادہ اس نے نہیں کسی اور نے برسوں پہلے کیا تھا۔وہ بہت دیر اسی طرح اسی جگہ کھڑا رہا ۔اوپر ایک عمارت کی چھت سے قہقہوںکی آ وا ز سن کر وہ چونکا اور مشینی انداز میں گھر کی طرف چل پڑا ۔
دوسرے دن آب و ہوا بدل گئی تھی ۔بارش کا ہلکا سا شائبہ بھی نہ تھا کائنات سورج کی روشنی میں نہائی ہو ئی تھی ۔ہوا کے خوش گوار جھونکے دھیرے دھیرے چل رہے تھے۔ سامنے کسی پارسی کے گھر سے صندل کی خوشبو پھیل رہی تھی ۔
بھاسکر معمول کے مطابق دس بجے اپنے دفتر پہنچا اور اپنی کر سی پر جا بیٹھا۔ٹائپ رائٹر سے کور ہٹایا ۔اسی دوران ایک ساتھی ٹائپسٹ اس کے قریب آ یا اور بولا، بھاسکر تم نے خبر سنی ؟
کیا ہوا بھئی ؟
ارے اپنا بنرجی مر گیا۔
کور پر ہاتھ اسی طرح رکھے ہو ئے بھاسکر نے پوچھا ،کیا کہہ رہے ہو ؟
کل شام میں تو اچھا بھلا تھا۔بات کی مجھ سے ۔
کون نہیں کہتا ۔
ارے مگر وہ مرا کب ؟
آج صبح ؟
کیا خود کشی کی اس نے ؟
پاگل ہو گئے ہوکیا؟خود کشی کچھ آ سان ہے ۔
پھر کیا ہوا؟
ارے اس نے ڈربی کا ٹکٹ نکالا تھا نا ،اس پر اسے ایک لاکھ روپئے ملنے کی اطلاع ملی ۔ٹیلیگرام کے ذریعے ،آج صبح اور اسے سنتے ہی اس کے دل کی دھڑکن بند ہو گئی۔ پہلے ہی خوب موٹا تھا وہ ،تمہیںتوپتہ ہے ۔
اس کے آگے اس ٹائپسٹ نے کیا کہا بھاسکرکو کچھ خبر نہیں۔اس کا دماغ مائوف ہو چکا تھا ۔جس بنرجی کاجی چاہتا تھا کہ وہ خوب جئے وہ چل بسا ۔ میں نے سوچا تھا کہ جان دے دوں گا اور آج کام پر حاضر ہوں اور اس سے بھی زیادہ مصیبت میں زندگی بسر کر نے والے اور جاندار اپنی جان سے چپکے بیٹھے ہیں۔
انسان مرتا کیوںہے ؟یہ چیز اس کے بس میں نہیں ۔انسان جیتا کیوں ہے ؟ پتہ نہیں کیوں؟
شاید اس لئے کہ یہ سب ہمارے بس میں نہیں ۔۔۔۔کسی گہری پراسرار حوصلہ افزائی کی لہر کے زور پر آگے ڈھکیلے جانے کے سوا اس کے بس میں کچھ بھی نہیں ۔
بھاسکر نے ٹائپ رائٹر کا کور ہٹایا ۔دائیںہاتھ سے کاغذات کو ٹھیک کیا اور اوپر کے صفحہ کی تحریر دیکھ کراس کے ہاتھ کی انگلیاںحرکت کر نے لگیں۔
ٹک ٹک ٹک ۔۔۔ٹک ٹک ٹک ۔۔ٹھن
ناگپور
[email protected]