[email protected]
موسی رضا۔۔ 9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
حقانی القاسمی
آباد زمینوں میں چراغ ہمیشہ روشن رہتے ہیں کہ شہر کے باطن کو ان ہی چراغوں سے تابناکی نصیب ہے۔ زمینوں کی عظمتیں تاریخ و ثقافت کے روشن سلسلوں سے مربوط و مشروط ہوتی ہیں۔ یہ سلسلے اندھیروں میں گم ہو جائیں تو ایسے شہروں کو عظمتوں کا سورج نصیب نہیں ہوتا اور شہرتوں کے ستارے بھی روٹھ جاتے ہیں۔
ایٹہ بھی شاید ایسا ہی ایک شہر ہے جو تاریخ و تہذیب کے تحفظ کے باب میں بیدار نہیں ہے اور اس عدم بیداری کی وجہ سے تہذیبی، تخلیقی سطح پر اس شہر سے تنقیدی نوعیت کا رشتہ قائم کر پانا آسان نہیں ہے کہ وہ منظرنامے جو کبھی اس کے طالع بیدار کا حصہ رہے ہوں گے، اب آنکھوں سے اوجھل ہیں جبکہ جن قصبات و مضافات سے اس شہر کی تشکیل ہوئی ہے، ان میں تہذیب و تخلیق کے سلسلے روشن ہیں۔ ایٹہ کی آغوش میں کچھ ایسے علاقے ہیں جو قومی سطح پر شہرت اور شناخت کے حامل ہیں۔ مارہرہ، گنج ڈنڈوارہ، کاس گنج اور جلیسر اپنی تہذیبی وراثت، ثقافت اور شعر و سخن کے حوالے سے خاصے معروف ہیں۔ مارہرہ تو ایسا خطہ ہے جہاں کے آفتاب و ماہتاب سے عرفان و تصوف کی کائنات بھی روشن ہے کہ یہ زمین تصوف کے ایک نئے سلسلے ’برکاتیہ‘ کا نقطہ آغاز ہے اور جہاں کی زیارت کی آرزو غالب جیسے عظیم شاعر نے بھی کی تھی۔ کاس گنج بھی افسانے کے حوالے سے ایک روشن نام ہے اور جلیسر شاعری کے باب میں یوں تابندہ ہے کہ وہاں سے کچھ ایسے شعرا کا بھی رشتہ ہے جن کی شہرت ملک سے باہر بھی ہے۔ کچھ اور علاقے بھی ہیں جو ایٹہ کے دامن کو جواہر سے مالامال کیے ہوئے ہیں ،ان ہی میں ایک قصبہ پٹیالی بھی ہے جسے امیر خسرو کا مولد و موطن ہونے کا شرف اور سعادت حاصل ہے۔ یہ شہر بدنصیب ایٹہ کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ خسرو جیسے عظیم صوفی شاعر کے ابتدائی شب و روز اسی شہر کے موسم و ماحول میں گزرے ہیں اور یہیں کی فضا نے ان کے ابتدائی شعور کی تشکیل کی ہے۔
ابوالحسن یمین الدین خسرو (1325-1253) اس ایک شخص میں کتنی جہتیں کتنے زاویے تھے۔ بابائے قوالی، ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے ماہر، موسیقی میں خیال اور ترانے کے موجد، طبلہ کی ایجاد بھی ان ہی سے منسوب ہے، فارسی اور ہندوی دونوں زبانوں میں قادر الکلام، اصناف (غزل، مثنوی، قطعہ، رباعی، دوبیتی) میں طبع آزمائی کی ہے۔ یہ ایک ایسی جامع شخصیت تھی کہ بہت سی زمینیں بھی مل کر ایسے جامع الکمالات ہستی پیدا نہیں کر سکتیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے صحیح لکھا ہے کہ ’’ہندوستان میں 600 برس سے آج تک اس درجہ کا جامع کمالات انسان پیدا نہیں ہوا اورسچ پوچھو تو اس قدر مختلف اور گوناگوں اوصاف کے حامل انسان ایران اور روم کی خاک نے بھی ہزاروں برس کی مدت میں دو ہی چار پیدا کیے ہوں گے۔ صرف ایک شاعری کو لو تو ان کی جامعیت پر حیرت ہوتی ہے۔ فردوسی، سعدی، انوری، عرفی، نظیری، بے شبہ، اقلیم سخن کے بادشاہ ہیں لیکن ان کی حدود حکومت ایک اقلیم سے آگے نہیں بڑھتی۔ فردوسی مثنوی سے آگے نہیں بڑھ سکتا، سعدی قصیدے کو ہاتھ نہیں لگا سکتے، انوری مثنوی اور غزل کو چھو نہیں سکتا، حافظ، عرفی، نظیری غزل کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے لیکن امیر خسرو کی جہان گیری میں غزل، مثنوی، قصیدہ، رباعی سب کچھ داخل ہے اور چھوٹے چھوٹے ہائے سخن یعنی نظم مستزاد، صنائع بدائع کا کوئی شمار نہیں۔ نثر کی کتابیں الگ ہیں ان پر مستزاد یہ کہ اوحدی نے ’تذکرہ عرفات‘ میں لکھا ہے کہ ’امیر خسرو کا کلام جس قدر فارسی میں ہے، اسی قدر برج بھاکا (ہندوی) میں ہے۔‘‘
امیر خسرو کا تعلق ترکی کے ہزارہ لاچین قبیلے سے تھا مگر ان کے والد بلخ افغانستان سے ہندوستان آئے اور یہاں کے شاہی دربار سے وابستہ ہو گئے۔ عماد الملک کی صاحبزادی سے ان کی شادی ہوئی اور انہی سے 651ھ میں امیر خسرو پیدا ہوئے۔ امیرو خسرو کا مولد و موطن ضلع ایٹہ کا پٹیالی ہے، جو کبھی گنگا کنارے آباد تھا۔ جسے مومن آباد یا مومن پورہ بھی کہتے تھے۔ امیر خسرو نے 1260ء میں پٹیالی سے دلی کا رخ کیا اور یہیں کے شاہی دربار سے وابستہ رہے۔ درباری شاعر کی حیثیت سے ان کی پہلی ملازمت بلبن کے بھتیجے ملک چھجو کے یہاں تھی۔ امیر خسرو واحد ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے 11 بادشاہوں (غیاث الدین بلبن، معز الدین کیقباد، کیومرث، جلال الدین فیروز شاہ خلجی، رکن الدین ابراہیم، علائوالدین خلجی، شہاب الدین، قطب الدین مبارک شاہ، ناصر الدین خسرو خاں، غیاث الدین تغلق شاہ، محمد تغلق) کا زمانہ دیکھا اور 7 بادشاہوں (شہزادہ محمد سلطان، معز الدین کیقباد، جلال الدین فیروز شاہ، علائو الدین خلجی، قطب الدین مبارک شاہ، غیاث الدین تغلق، محمد تغلق) کی ملازمت کی۔ امیر خسرو حضرت نظام الدین اولیا کے محرم اسرار تھے اور انہی کی صحبتوں کے فیض میں انہیں طوطی ہندکا خطاب عطا ہوا اور کلام میں قدرت نے اتنی شیرینی اور مٹھاس بھر دی کہ نغمہ خسرو آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ یہی طوطی ہند وہ ہندی نژاد فارسی شاعر ہے جس نے خمسہ نظامی کا سب سے بہتر جواب لکھا اور فارسی شاعری میں وہ مقام حاصل کیا کہ آج بھی بڑے بڑے ایرانی شعرا ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے خیال میں جو ندرت، جدت اور اختراع ہے اس کو سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ امیر خسرو کی طبیعت مجتہدانہ تھی اس لیے انہوں نے نہ کبھی دوسروں کی خاک سے تیمم کیا اور نہ ہی دوسروں کی روٹی سے اپنا دسترخوان سجایا۔ انہوں نے اپنی ایک الگ راہ نکالی ’قلب اللسانین، وصل الحرفین، ردیف المعنتین‘ جیسے تجربے کیے اور فکری سطح پر دیکھا جائے تو امیر خسرو آج بھی اپنے تکثیری تشخص (Pluralistic Identity) کے ساتھ برصغیر کے اجتماعی حافظے میں زندہ و تابندہ ہیں۔ امیر خسرو کشادہ ذہن و فکر کے حامل شخص تھے اسی لیے انہوں نے اس کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی معاشرے میں کسی طرح کی مذہبی سرحدیں قائم نہیں کیں اور نہ ہی کوئی ایسی لکیر کھینچی جو دو قوموں کے درمیان فاصلے یا فرق کا نشان بن سکے۔ امیر خسرو ہی نے کہا تھا
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
(مجھ عشق کے مارے کافر کو مسلمانی کی ضرورت نہیں، میری ہر رگ تار بن گئی ہے اس لیے مجھے ضرورت زنار ہی نہیں۔)
امیر خسرو کو ہندوستان سے بے پناہ محبت، عقیدت اور والہانہ شیفتگی تھی کہ انہوں نے ہندوستان کو جنت قرار دیتے ہوئے اس کی افضلیت کے حق میں 10 دلیلیں پیش کیں۔ انہوں نے ہندوستانی علوم و فنون کی نہ صرف ستائش کی بلکہ یہاں کے علما و فضلا کی نکتہ رسی کو مبارزانہ لہجے میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا:
برہمنی ہست کہ در علم و خرد
دفتر قانون ارسطو بدرد
(یہاں ایسے پنڈت ہیں کہ علم و حکمت میں یونانی فلسفی ارسطو کا دفتر بھی چاک کر دیں) اور یہ بھی فرمایا:
رومی ازاںگونہ کہ افگندہ بروں
برہمناں را ہست ازاں مایہ فزوں
(رومیوں سے زیادہ برہمنوں کے پاس علوم محفوظ ہیں۔)
امیر خسرو نے ہندوئوں کو نہ صرف توحید پرست قرار دیا ہے بلکہ دونوں کے عقیدوں میں مماثلت اور مشترکات کے عناصر بھی دریافت کیے ہیں:
عیسویاں روح ولد بستہ برو
ندو ازیں جنس نہ پیوستہ برو
(عیسائیوں نے اپنے عقیدے میں روح اور فرزند کو بھی شامل کیا مگر ہندوئوں کے یہاں ایسا نہیں ہے۔)
اختریاں ہفت خدا کردہ یقیں
ہندویٔ توحید سرا منکر ازیں
(ستارہ پرست سات خدائوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن اہل توحید ہندو سات خدائوں سے انکار کرتے ہیں۔)
عنصریاں چار خدا بردہ گماں
گفتہ یکی ہندو ثابت بہماں
(عنصری فرقے کے خیال میں خدا چار ہیں مگر ہندو ایک خدا کو مانتے ہیں اور توحید کے قائل ہیں۔)
امیر خسرو کے ذہنی، فکری نظام کے جمال کا آئینہ وہ اشعار بھی ہیں جن میں حکمت و دانش کی ایک دنیا آباد ہے۔ ایسی ذہنی فراخی اور فرخی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ امیر خسرو فرماتے ہیں
نیست آں مردانگی کاندر غزا کافر کشی
در صف عشاق خود را کشتن از مردانگی است
(جہاد میں کافر کو مارنا مردانگی نہیں ہے۔ ہمارے قبیلہ عاشقاں میں مردانگی یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کو مارگرائے۔)
موجودہ عالمی تناظر میں جب کہ جہاد اور دہشت گردی کی حدیں ایک دوسرے سے مل گئی ہیں اور قتل عام کا ایک سلسلہ سا جاری ہے، امیر خسرو کے اس شعر کی معنویت اور بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح امیر خسرو کہتے ہیں
بہ شہر ایں مثل شہرہ عالم است
کہ ہر کس ہنر بیش روزی کم است
(یہ مثل دنیا میں زبان زد ہے کہ جس کے پاس ہنر زیادہ ہے اس کی روزی کم ہوتی ہے۔)
مُرد نامرد برگنج ازپئی قدرت
کشدمرد از میان سنگ یاقوت
(روزی کے لیے نامرد خزانوں پر اپنی جان چھڑکتا ہے جبکہ مرد پتھروں سے یاقوت نکالتا ہے۔)
سگ چوشد آسود نشیند زجوش
مردم آسودہ شد فتنہ کوشی
(آسودہ کتا خاموش اور چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے مگر آسودہ آدمی فتنہ پرور ہو جاتا ہے۔)
دہ پسر از یک پدر آسودہ گشت
یک پدر ازدہ پسر افند بدشت
(ایک باپ کی بدولت دس بیٹے خوش و خرم رہتے ہیں مگر ایک باپ دس بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی کسمپرسی میں رہتا ہے۔)
بہ معشوق یک شب چہ باشیم شادم
کہ مہمان غیرے شود بہ امداد
(ایک رات کے معشوق سے مل کر کیا خوشی ہو کہ وہ اسی طرح کل کسی اور کا پہلو گرم کرے گا۔)
امیر خسرو کی شاعری میں جہاں دانش کا خزانہ ہے وہیں ان کے یہاں رومانی سرشاری بھی ہے اور وہ سوز دل بھی ہے جس سے عاشقوں کو زندگی نصیب ہوتی ہے۔ امیر خسرو فرماتے ہیں:
شب ہائے عاشقاں را شمع مراد نہ بود
از سوز خویش بیند پروانہ روشنائی
(عاشقوں کی راتیں چراغ سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ پروانہ اپنے سوز سے اپنی روشنی پیدا کرتا ہے۔)
اور یہ سچ ہے کہ امیر خسرو ایسے پروانہ تھے جنہوں نے اپنے سوز سے ایسی روشنی پیدا کی کہ اس میں تاریکی کا گزر بھی محال ہے۔ ان کی ہر فکر میں روشنی ہے اور ہر احساس میں نور ہے
نمی دانم چہ منزل بودشب جائے کہ من بودم
بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
آج بھی جب کانوں کو سنائی دیتا ہے تو رات روشنیوں سے معمور نظر آتی ہے۔
امیر خسرو نے ہر صنف میں تجربے کیے اور گراں قدر تصانیف سے اردو دنیا کو احساس دلایا کہ وہ کتنے قادر الکلام ہیں۔ ’تحفۃ الصغر، وسط الحیاۃ، غرۃ الکمال، بقیہ نقیہ، قصہ چہار درویش، قران السعدین، مثنوی دول رانی خضر خاں، مفتاح الفتوح، تغلق نامہ، خمسہ خسرو، خزائن الفتوح، دلائل الاعجاز، افضل الفوائد‘ اس کے علاوہ مثنوی ’نہ سپہر‘ جو کہ 9 ابواب پر محیط ہے اور اسی لیے ’نو سپہر‘ یعنی 9 افلاک کے نام سے مشہور ہے۔ اسی مثنوی میں امیر خسرو نے ہندوستان کی فضیلت کی 10 دلیلیں پیش کی ہیں۔ امیر خسرو ایک شاعر اور صوفی کی حیثیت سے لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں اور حضرت نظام الدین اولیاء کی قبر کی پائتی میں مدفون ہو کر مرجع خلائق ہیں۔ ان کا نغمہ تاقیامت ہمارے معاشرے میں روشنی اور شیرینی بکھیرتا رہے گا۔