9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
آفتاب احمد
لاہور پاکستان
ہمارے واسطے ہر آرزو کانٹوں کی مالا ہے
ہمیں تو زندگی دے کر خدا نے مار ڈالا ہے
ادھر قسمت ہے جو ہر دم نیا غم ہم کو دیتی ہے
ادھر ہم ہیں کہ ہر غم کو ہمیشہ دل میں پالا ہے
گیت لکھنے والے کو ہندی، ہندوستانی اور اردو میں گیت کار کہتے ہیں۔ جیسے نغمہ لکھنے والے کو نغمہ نگار کہتے ہیں۔
گیت کا تعلق ہندی شاعری سے ہے بے شک اردوگیت نگاری ہندی گیت سے متاثر رہی ہے لیکن اردو گیت کا خود اپنا وجود اور اپنی خصو صیات ہیں۔بحر کیف جن دنوں شاعر دبے کچلے طبقوں اور سماج کی برائییوں پر اپنی توجہ دے رہے تھے تنویر نقوی نے خود کو اس روایت سے الگ کرتے ہوئے ایسے گیت لکھے جو دل کی گہرائیوں کو چھو جاتے ہیں۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں جنہیں کامیابی پہلے قدم پر ہی مل جاتی ہے تنویر نقوی ان میں سے ایک ہیں۔
کچھ نہ ہوگا اُداس رہنے سے
تو بدل دے ہوا زمانے کی
پھڑ پھڑا خود ہی ٹوٹ جائیں گے
تتلیاں تیرے قید خانے کی
سید خورشید علی نقوی پورا نام، تنویر تخلص کے ساتھ تنویر نقوی کے مختصر سے دو لفظی ادبی نام کے ساتھ ایک طویل مدت تک فلمی اور ادبی دنیا میں اپنے نام اور کام کے سبب نمایاں رہے۔۔۔
تنویر نقوی کے والد کا نام سید سعدعلی نقوی اور والدہ محترمہ سردار بیگم تھا.
سید خورشید علی نقوی صاحب کے والدین ایران کے شہر ابدان سے ہجرت کر کے لاہور تشریف لے آئے اور مستقل سکونت یہیں اختیار کی ۔
والد گرامی اور بڑے بھائی کو بھی شعر و ادب سے بے حد لگاؤ تھا۔ اور دونوں حضرات سخن پرور ہی نہیں سخن گو بھی تھے۔ ان کے ادبی و علمی ذوق کے ساتھ سارا گھرانا ہی علمی و ادبی پس منظر کا حامل تھا۔ اسی پس منظر میں تنویر نقوی کی پرورش و پرداخت ہوئی۔۔۔
تنویر نقوی نے اپنا تعلیمی سفر لاہور کے مکتب و مدرسہ میں مکمل کیا۔ وہ فارسی اور اُردو زبان پر عبور رکھتے تھے، فارسی تو ان کے آباء اجداد کی زبان تھی اور یہ بات طے ہے کہ اُردو میں کماحقۂ دسترس کے لئے فارسی جاننا از حد ضروری ہے۔ تنویر نقوی کو دونوں زبانوں اور شعر و ادب پر لڑکپن ہی سے دسترس تھی، چنانچہ انہوں نے محض پندرہ برس کی عمر سے شاعری شروع کر دی اور شروع شروع میں زیادہ تر نظم گوئی کو اختیار کئے رکھا۔۔۔ اور 1938ء میں پہلی بار فلم شاعر کے لیے گیت لکھے اور بمبئی کی فلموں کے لیے گیت نگاری کرنے لگے۔
برصغیر پاک و ہند کے نامور نغمہ نگار تنویر نقوی نے صرف 19سال کی عمر میں اُنہوں نے فلم ” شاعر”جو 1938 میں بنی اُسکے کے لئے گیت لکھے ۔اُن کے گیت پاک وہند کی تقسیم سے پہلے عوام میں بہت مقبول تھے ۔
وہ فارسی اور اُردو زبان پر عبور رکھتے تھے، فارسی تو ان کے آباء اجداد کی زبان تھی اور یہ بات طے ہے کہ اُردو میں کماحقۂ دسترس کے لئے فارسی جاننا از حد ضروری ہے۔ تنویر نقوی کو دونوں زبانوں اور شعر و ادب پر لڑکپن ہی سے دسترس تھی، چنانچہ انہوں نے محض پندرہ برس کی عمر سے شاعری شروع کر دی اور شروع شروع میں زیادہ تر نظم گوئی کو اختیار کئے رکھا۔
اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’سنہرے سپنے‘‘ کے نام سے چھپا۔ اس مجموعے میں ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ نمایاں تھے۔ اپنے زمانے کے مشہور عہد ساز پروڈیوسر، ڈائریکٹر اے آر کاردار نے یہ مجموعہ کلام پڑھا تو تنویر نقوی کو لاہور سے نقل مکانی کر کے بمبئی آنے کی دعوت دے ڈالی اور انہیں اپنی نئی فلم ’’نئی دنیا‘‘ کے لئے گانے لکھنے کا کام سونپا۔ اس فلم کی موسیقی، موسیقار اعظم نوشاد کی تھی۔
بمئی کے قیام کے دَوران تنویر نقوی نے اداکارہ مایا دیوی سے شادی کی جو ناکام رہی دوسری شادی ملکہ ترنم نور جہاں کی بڑی بہن عیدن سے کی، ان سے ان کی کوئی اولاد نہ ہو سکی۔ یہ شادی بھی بالآخر طلاق پر اختتام پذیر ہوئی۔ یوں انتہائی وجیہہ و شکیل، خوش لباس، خوش اطوار سید زادے، جواں فکر شاعر کی ازدواجی زندگی میں کانٹے بکھرتے رہے۔ ذاتی ازدواجی ناکامیوں کے سبب تنویر نقوی کی شاعری میں درد و غم اتنے جمع ہوئے کہ بقول میر
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
نومبر 1946میں بننے والی ہدایت کار محبوب کی فلم “انمول گھڑی”نے تنویر نقوی کی شہرت میں چار چاند لگا دئیے۔اِس فلم کا گیت ہے “آواز دے کہاں ہے “آجا میری برباد محبت کے سہارے “جواں ہے محبت حسین ہے زمانہ”عوام میں بے انتہا مقبول اور زدِ عام ہوئے ۔نوشاد مذکورہ فلم کے موسیقار تھے۔اِسکے بعد ہدایت کار سید شوکت حسین رضوی کی فلم “جگنو”کے گیت مقبول ہوئے ۔فیروز نظامی کی موسیقی میں نور جہاں اور محمد رفیع کی آواز نے گانوں کو لا جواب کر دیا ۔”یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے “آزادی کے بعد پاکستان تشریف لے آئے ۔اور یہاں اُردو ،پنجابی گیت لکھے جنہوں نے دھوم مچا دی اور آج تک لوگ ان گیتوں کو سنتے ہیں ۔تنویر نقوی صاحب آزادی کے بعد پھر ہندوستان گئے اور بے انتہا پیسہ ،شہرت پائی ان کا لکھا ہوا شیریں فرہاد کا جو “1956”کو بنی اس کا گانا یہ تھا ۔۔”گزرہ ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ”لتا کی مدھر آواز ایس مہندر کی موسیقی پاک وہند میں آج بھی مقبول ہے ۔دُنیائے ادب و فلم میں تنویر نقوی کا نام ایک معتبر، صاحبِ کمال و جمال اور مستند فطری شاعر کے طور پر زندہ و تابندہ و پایندہ ہے۔!
اے آر کاردار کی فلم نئی دنیا کے بعد پروڈیوسر ڈائریکٹر نذیر نے اپنی فلم لیلیٰ مجنوں کے لئے گانے لکھوائے، پھر تو چل سو چل تنویر نقوی نے چھیڑ چھاڑ۔ یاد گار۔ سوامی۔ وامق عذرا، راجہ رانی اور ’’ انمول گھڑی‘‘ کے یادگار گیت لکھے۔
تنویر نقوی کی غزل ہو یا گیت ایک اِیسا لہجہ چھپا ہے جس کی تقلید ہمارے عہد کے شاعروں نے کی ہے ۔گیت میں جو الفاظ تنویر نقوی نے استعمال کئے وہ امر ہوگئے ہیں ۔
آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے
تنویر نقوی نے جو سخن بھی رقم کئے اور اُن کے لئے جن الفا ظ کا استعمال کیا اُن کی معنوی وسعت اور تہہ داری سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔تنویر نقوی نئی تراکیب و تشبہات گڑھنے کے بجائے بالعموم عام روایتی اور مروجہ تراکیب و تشبہات اور علامتوں کو استعمال کرتے ہیں ۔اِن میں بیشتر وہ تراکیب اور تشبہات ہیں جو استعمال کی یکسانیت کی وجہہ سے اپنا کیف،تاثر اور اہمیت کھو چکی تھیں ۔تنویر نقوی نے اِن تمام الفاظ و تراکیب اور تشبہات کا منظر نامہ ہی بد ل دیا ۔یعنی الفاظ تو وہی رہے لیکن تنویر نقوی کے یہاں وہ ایک نئے معنی اور نئی حیت کی نشان دہی کرتے ہیں ۔
اب مجھ کو فکرِتنگیِ داماں نہ رہا
دامن کو شکواہ ہے کہ گلستاں نہیں رہا
لوٹا رہا ں ہوں سانس جو تونے عطا کئے
اب تیرا مجھ پہ احساں نہیں رہا
مطالعہ تنویر نقوی کے سلسلے میں ایک پہلو یہ بھی غور طلب ہے کہ تنویر نقوی نے غزل کی مروجہ شعر یات کو توڑا اوراپنی نرم لے کے باوجود اُسے روایات کی گھٹن سے نکال کر زندگی کی تازگی فرحت اور دل کشی سے آشنا کیا ۔تنویر نقوی کے یہاں ہر جگہ زندگی کی ایک نئی کرن نئی اُمنگ ،نئے جذبے نظر آتے ہیں اُن کی زندگی شامِ غریباں کی سیاہی بنی رہی مگر وہ دوسروں کو زندگی روشنی کا درس دیتے ہیں ۔اُن کا مطالعہ بہت وسیع ہے ۔لفظ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں کہ تنویر نقوی انہے رقم کردے ۔
برصغیر پاک و ہند کی فلمی تاریخ میں ایسے شعراء بہت کم ملتے ہیں جو غزل گوئی میں بھی منفردمقام کے حامل تھے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلمی گیت نگاری میں بھی اپنے نام کا ڈنکا بجایا۔ نغمہ نگاری کے ساتھ ساتھ غزل کا دامن کبھی نہیں چھوڑا اسی وجہہ سے ان کی شاعری منفرد اور خوبصورت ہے ۔اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور نغمہ نگاری میں بھی شہرت حاصل کی۔
جس کو تم انقلاب کہتے ہو
اک ورق ہے میرے فسانے کا
میں تو خود ہی بدل گیا تنویر
رنگ بدلا نہیں زمانے کا
ان کے فلمی گیتوں میں خیالات کی نازکی سے بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیق کار کے قلم سے وجود میں آئے ہیں جوغزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے اور جس نے تمام رموز سامنے رکھ کر اپنے تجربات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔
تقسیم ہند سے قبل فلم انمول گھڑی نے انہیں شہرت دی جس کے گیتوں میں آواز دے کہاں ہے سب سے زیادہ مقبول ہوا، مگر آجا میری برباد محبت کے سہارے اور جوان ہے محبت حسین ہے زمانہ بھی زبان زد عام ہوئے۔
اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’سنہرے سپنے‘‘ کے نام سے چھپا۔ اس مجموعے میں ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ نمایاں تھے۔ اپنے زمانے کے مشہور عہد ساز پروڈیوسر، ڈائریکٹر اے آر کاردار نے یہ مجموعہ کلام پڑھا تو تنویر نقوی کو لاہور سے نقل مکانی کر کے بمبئی آنے کی دعوت دے ڈالی اور انہیں اپنی نئی فلم ’’نئی دنیا‘‘ کے لئے گانے لکھنے کا کام سونپا۔ اس فلم کی موسیقی، موسیقار اعظم نوشاد کی تھی۔
کچھ ایسی ہوا صحن گلستاں میں چلی ہے
گوشے میں نشیمن کے بھی آرام نہیں ہے
ہمرنگِ زمیں دام ہیں کیوں تم نے بچھائے
صیاد! پرندوں کی نظر خام نہیں ہے
اردوادب میں اعلیٰ مقام رکھنے والے شاعر تنویر نقوی کا شمار پاکستان اور ہندوستانی فلمی صنعت کے سینئر نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ جذبات و احساسات کی خوبصورت ترجمانی نے تنویر نقوی کو شہرہ آفاق مقبولیت دی۔
اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ ہندوستان اور پاکستانی فلمی صنعت میں نابغہ روزگار نغمہ نگار پیدا ہوئے جن کے شاندار گیتوں نے ایک عہد کو متاثر کیا اور آج بھی ان کے لکھے ہوئے گیت دل کے تاروں کو چھو لیتے ہیں۔
تنویرنقوی کی گیت نگاری بر صغیر کے بے شمار گیت نگاروں کی موجودگی کے باوجود الگ اور منفرد دکھائی دیتی ہے،ان کا اپنا ایک اسلوب ، ایک انگ، اپنی الگ خوبصورت دلکش اور اثر آفرین ڈکشن ہے اور ان کے گیتوں کے اندر لہریں لیتا اور موجیں مارتا ردھم اور جادو اثر غنایت تنویر صاحب کے حوالے سے ہی خاص ہے ‘‘۔
تنویرنقوی وہ شاعر تھے جنہوں نے پہلے ہندوستانی فلموں کے گیت لکھے اور پھر تقسیم کے بعد جب وہ پاکستان منتقل ہوئے تو یہاں کی فلمی صنعت سے وابستہ ہو گئے۔ وہ ایک انتہائی بلند پایہ نغمہ نگار تھے ، جنہوں نے نہ صرف اردو بلکہ پنجابی فلموں کے لیے بھی ایسے گیت لکھے جو امر ہو گئے۔
تنویر نقوی ہرقسم کے گیت لکھتے تھے لیکن فلموں کے ٹائٹل گیت لکھنے میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ ہندی فلموں کے زریں عہد میں ٹائٹل گیت لکھنا بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔فلم سازوں کو جب بھی ٹائٹل سانگ کی ضرورت ہوتی، تنویر نقوی سے گیت لکھوانے کی گزارش کرتے۔ ان کے تحریر کردہ متعدد ٹائٹل گیتوں نے فلموں کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کیا۔
اگر تنویر نقوی کی فلمی شاعری پر سرسری نظر ڈالی جائے تو بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تنویر نقوی بھی دراصل مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی اور شکیل بدایونی کی طرح فلمی شاعر ہونے کے باوجود زبان و بیان کا صاف ستھرا اور عمدہ ذوق رکھتے تھے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پوری فلمی شاعری کے اندر وہ ان دو چار شعراءمیں ایک تھے جنہوں نے فلمی گیتوں کو بھی کچھ حد تک ہی سہی، تہذیب و وقار سے ہمکنار کیا، تو غلط نہ ہوگا۔
جب کبھی بلند پایہ شاعری، کانوں میں رس گھولتے نغموں اور درد بھرے گیتوں و نغموں کی بات چلے گی تو تنویر نقوی کا نام اور کام سب سے اوپر رہے گا۔
تنویرنقوی پاکستان اور بھارت کی شناخت ہیں اور اُردو ،ہندی ،پنجابی فلم انڈسڑی کی شان ہیں۔۔ وہ ایک ایسا نام ہیں جنہوں نے اپنے لفظوں کے جادو سے کڑوروں انسانوں کو اپنا دیوانہ بنایا
بالی وڈ اور لالی وڈ کے کئی ہیروز اور گلو کاروں کو عالمی شہرت ملی
آج بھی اُن کے پائے تک کوئی شاعر نہیں پہنچ سکا ،ان کے تخیل کی پرواز اتنی بلند تھی کہ وہ موضوع دیکھتے ہی نغمہ لکھ دیتے تھے ۔اسی منفرد ہنر نے انہے بالی وڈ،اور لولی وڈ میں ایک عالمگیر نغمہ نگار کا مقام حاصل ہے ۔
ملکہ ترنم نور جہاں نے ایک زمانے میں جب اداکاری ترک کر کے صرف اور صرف پسِ پردہ گلوکاری پر اپنی توجہ مرکوز کی تو پلے بیک سنگر کے طور پر فلم ’’سلٰمیٰ‘‘ میں رشید عطرے کی موسیقی میں تنویر نقوی کا لکھا ہوا یہ لازوال نغمہ گایا۔ جس کا سُریلا پن آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتا ہے
زندگی ہے یا کسی کا انتظار
ایک اہم بات تنویر نقوی کے حوالے سے یہ ہے کہ انہوں نے پہلی بار سازو آواز کے ساتھ یعنی دف کی دُھن میں فلم ’’نورِ اسلام‘‘ کے لئے ایک نعت لکھی۔۔۔ نعت کے بول تھے
شاہِ مدینہ۔۔۔ شاہِ مدینہ
یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی۔ شاہِ مدینہ
تنویر نقوی نے فلم کوئل۔ چنگاری۔ ایاز گھونگٹ اور جھومر کے لئے بھی لازوال گیت تخلیق کئے۔ ان کی شاعری محض فلمی شاعری نہ تھی بلکہ تخلیقی شاعری تھی کہ اگر اسے فلم سے الگ کرکے دیکھا پڑھا چھاپا جائے تو ادبی رنگ میں بھرپوررنگی ہوئی نظر آتی ہے فلم ’’کوئل‘‘ کا یہ گیت بیّن ثبوت ہے
رِم جھم رِم جھم پڑے پھوار
دُنیائے ادب و فلم میں تنویر نقوی کا نام ایک معتبر، صاحبِ کمال و جمال اور مستند فطری شاعر کے طور پر زندہ و تابندہ و پایندہ ہے۔
اے آر کاردار کی فلم نئی دنیا کے بعد پروڈیوسر ڈائریکٹر نذیر نے اپنی فلم لیلیٰ مجنوں کے لئے گانے لکھوائے، پھر تو چل سو چل تنویر نقوی نے چھیڑ چھاڑ۔ یاد گار۔ سوامی۔ وامق عذرا، راجہ رانی اور ’’ انمول گھڑی‘‘ کے یادگار گیت لکھے۔ ’’ انمول گھڑی‘‘ کے گیت تو بے پناہ مقبول ہوئے مثلاً یہ گیت
آواز دے کہاں ہے، دنیا مری جواں ہے
آباد میرے دل میں اُمید کا جہاں ہے
ایسے میں تو کہاں ہے؟۔۔۔
انتہائی وجیہہ و شکیل، خوش لباس، خوش اطوار سید زادے، جواں فکر شاعر کی ازدواجی زندگی میں کانٹے بکھرتے رہے۔ ذاتی ازدواجی ناکامیوں کے سبب تنویر نقوی کی شاعری میں درد و غم اتنے جمع ہوئے کہ بقول میر
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
تیسری شادی اپنے خاندان میں محترمہ سیدہ تسنیم نقوی صاحبہ سے کی ماشاء ﷲ زوجہ حیات ہیں دو صاحبزادیاں ہیں ۔تنویر نقوی کے صاحبزادے شہباز نقوی جنہے بچپن میں تنویر نقوی پپو بولتے تھے ماشاء ﷲجوان ہیں بچپن سے نوکری کی اُسی میں تعلیم حاصل کی اور آج ایک با عزت نوکری اسلام آباد میں کرتے ہیں وہ خود بھی اپنے بابا تنویر نقوی کے نقشِ قدم پر ہیں نغمہ نگاری بھی کرتے ہیں اور نوحے بھی لکھتے ہیں ۔
دوبارہ پاکستان آمد پر بھی اُن کی پذیرائی ہوئی ۔ 1958 میں بننے والی انور کمال پاشاصاحب کی فلم ’’ انار کلی‘‘ سے انہیں بامِ عروج ملا۔ ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں نورجہاں کی آواز میں تنویر نقوی کا یہ گیت : ’’ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔۔۔‘‘بے انتہا مقبول ہوا ۔اگلے ہی سال نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’’ کوئل‘‘کے گیتوں نے تو دھومیں مچا دیں۔اس کے موسیقار خواجہ خو رشید انور تھے۔ مذکورہ فلم کے تمام ہی گیت مقبول ہوئے جیسے: ’’دل کا دیا جلایامیں نے دل کا دل کا دیا جلایا۔۔۔‘‘، ’’ او بے وفا میں نے تجھ سے پیار کیوں کیا۔۔۔‘‘، ’’رِم جھِم رِم جھِم پڑے پھوار۔۔۔‘‘، ’’ساگر روئے لہریں شور مچائیں۔۔۔‘‘، ’’تیرے بنا سونی سونی لاگے رے چاندنی رات۔۔۔‘‘، ’’مہکی فضائیں گاتی ہوائیں۔۔۔‘‘۔
پاکستان آمد کے بعد انہوں نے پہلی پاکستانی فلم تیری یاد کے گیت لکھے تاہم پاکستان میں انہیں اصل شہرت 1959ء میں فلم کوئل کی گیت نگاری پر ملی، جس کے گیتوں رم جھم رم جھم پڑے پھوار یا مہکی فضائیں گاتی ہوائیں اور دل کا دیا جلایا نے مقبولیت کی تمام حدوں کو توڑ دیا۔ اسی طرح 1960ء میں ریلیز ہونے والی فلم ایاز کا گیت رقص میں ہے سارا جہاں اور 1962ء میں فلم شہید کا گیت میری نظریں ہیں تلوار بھی آج تک لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے۔ اس کے علاوہ فلم انارکلی کے گیت کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں یا جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے سمیت متعدد کامیاب فلموں کے گیت ان کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔ انہوں نے کئی فلموں کے لیے کئی خوبصورت نعتیں بھی تحریر کیں جن میں فلم نور اسلام کی نعت شاہ مدینہ، یثرب کے والی اور فلم ایاز کی نعت بلغ العلیٰ بکمالہ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔
تنویر نقوی کی شاعری کا مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع ہوا۔
اعزازات
تنویر نقوی کو فلم (کوئل)، دوستی’ اور شام ڈھل کے لیے بہترین نغمہ نگار کا نگار ایوارڈ ملا
مشہور نغمات
دل کا دیا جلایا (کوئل)
چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے (دوستی)
آواز دے کہاں ہے (انمول گھڑی)
رم جھم رم جھم پڑے پھوار (کوئل)
مہکی فضائیں گاتی ہوائیں (کوئل)
رقص میں ہے سارا جہاں (ایاز)
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں (انارکلی)
جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے (انارکلی)
شاہ مدینہ، یثرب کے والی (نور اسلام)
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو (ملی نغمہ)
جب بھی فلمی گیتوں کی فہرست مرتب ہوگی، تو تنویر نقوی کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔
بے شمار، ادبی، فلمی، گیتوں کے خالق تنویر نقوی نے یکم نومبر 1972ء کو اس جہانِ فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کیا۔ وہ کچھ عرصہ فالج کے حملے کے سبب بستر پر دراز رہے اور اسی صاحب فراشی میں چل بسے۔ ۔تنویر نقوی صاحب کی نمازِجنازہ مولانا سید حسن ظہیر نقوی صاحب نے پڑھائی تھی ۔ تنویر نقوی مشہور زمانہ قدیم قبرستان میانی صاحب لاہور میں احاطہ سادات فقیر خانہ میں سپردِ خاک کئے گئے
تنویر نقوی دنیائےفانی سے منہ موڑ گئے مگر فضاؤں میں ان کےگیت ہمیشہ رس گھولتے رہیں گے ۔
+923332388298