آنے والے ہندوستان کی سنہری تصویر صاف نظر آ رہی ہے

0
96

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

نجم الدین احمد فاروقی

ہندوستان کے موجودہ سیاسی حالات بظاھر تشویشناک ہیں مگر اس حد تک نہیں کہ اُمید کا دامن چھوڑ دیا جائے اور مایوس ھوکر بیٹھ جایا جائے۔ انے والے وقت میں یقیناً اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ اقلیتی فرقے کو ایک قیمت چکانی ہوگی۔ سودا منہگا نہ پڑے، سستے دام چھوٹا جا سکتا ہے بشرطِ قربانی دی جائے: صبر، برداشت، خاموشی، جذبات پر مکمل قابو، رواداری، اخلاق، انصاف، ایمانداری اور سب سے اہم برادرانِ وطن کے ساتھ ہمارے رشتے۔
جس ملک سے ہماری تقدیر جڑی ہو اس کی قدیم روائیتوں اور قدروں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہندوستان میں نیشنلزم کا تصور 19ویں صدی کے نصف ثانی کے درمیان پیدا ہوا۔ نیشنلزم کی دوڑ میں مسلم قوم برادرانِ وطن سے پیچھے رہ گئی۔ صدی کے اختتام پر nationalism نے communalism کی شکل اختیار کر لی۔ اب دو بڑے نظریے، سیکیولر ہندو اور دوسرا “ہندو وادی” دونوں نے اپنی اپنی جگہ بنا لی، تناسب کا اندازہ دشوار ہے۔ تحریک آزادی کی قیادت سیکیولر نظریے کی انڈین نیشنل کانگرس نے کی اور آزادی کے بعد برسرِ اقتدار ہوئی۔ اس درمیان دوسرا نظریہ بظاہر سامنے نہ آکر زمینی سطح پر کام کرتا رہا۔
جہاں تک ہندو معاشرے کے اپنے مسائل ہیں: قدیم ہندوستان میں معاشرتی اقتصادی نظام ذات برادری کے اعتبار سے بٹا ہوا تھا، دھن دولت کا تصور دیوی لکشمی سے ہے جس کی پوجا ہوتی ہے۔ تجارت و معیشت،ویش یا بنیاء برادری سنبھالتی تھی اور کافی حد تک آج بھی اُنہیں کے ہاتھوں میں ہے۔ گزشتہ ہزار گیارہ سو برس میں مغربی اور مرکزی ایشیاء سے مختلف ادوار میں پے در پے حملے ہونا اور بغیر کسی خاص مزاحمت سر زمینِ ہند میں داخل ہوجانا، دوسری وجوہات کے علاوہ انہیں سماجی بکھراؤ کا نتیجہ تھا۔ مسلم سلطنتیں بھارت کی سماجی، ثقافتی، معاشرتی اور مذہبی زندگی پر اثر انداز ہوتی رہی، ہندو سماج پر ہونے والی زیادتیوں، مثلاً ہندو خواتین سے شادیاں، زبان اور کلچر، تبدیلی مذہب وغیرہ نے ہندو وادی نظریے کو پھلنے پھولنے کی ابتدائی غذا فراہم کی۔ بیسوی صدی کے درمیان اس نظریے نے عام ہندو سماج میں بڑی ہوشیاری سے اسلام اور مسلمان کا ڈر بٹھایا۔ وقت اور حادثات نے کا ساتھ دیا۔ اکثریتی فرقہ کی خاصی تعداد حکومت کی پالیسیوں کو ہندو مخالف سمجھتی تھی، 1976 آئین میں 42 ویں تبدیلی میں سیکیولر لفظ کا اضافہ، جزبات مجروہ کرنے کا مذید بائث ہوا۔
ہندوستانی مسلمانوں کا حال کسی قدر اس شعر کے مانند ہے:
شعور عصر ڈھونڈتا رہا ہے مجھ و اور ميں
مگن ہوں عہد رفتگاں عظمتوں کے درمياں
19ویں صدی کے اوائل میں جب برادرانِ وطن کے قدم انگریز تھومس میکالے کے قائم کردہ انگریزی تعلیمی اداروں کی جانب بڑھ رہے تھے اس وقت مسلمانانِ ہند کا کہیں پتہ نہ تھا۔ سر سید احمد خاں کی علیگڑھ تحریک 1875 کے زمانے قریب میں اگر کوئی تحریک ملتی ہے تو دینی اداروں دارالعلوم دیوبند 1875 اور صدی کے تقریباً اختتام پر قیام دارالعلوم ندوۃ العلماء۔ مگر صحیح معنوں میں سر سید کی تحریک کے علاوہ مدارس کی تحریک مسلمانوں کے ارتقاء کے لئے ناکافی تھی۔
اُمت مسلمہ کی اجتماعی طرزِ زندگی جو کھلی کتاب ہے، غیر کی اس کے متعلق کیا رائے ہے؛ مذہبی معلومات، قول و عمل دُرست ہو یا نہیں اپنے عقیدے کے خلاف زیر و زبر برداشت نہیں۔ اہلِ ہند کی قدیم روایتیں، رسم و رواج یا ثقافتی قدریں گرچہ کتاب و سنت سے نہ بھی ٹکراتی ہوں تو بھی اکثر کو برداشت نہیں ہوتیں۔
اس کے علاوہ دوریوں کے مزید اسباب؛ تقسیمِ ہند، بعض معاملات میں پاکستان کی طرفداری، گائے کشی، قانون میں ایک سے زیادہ شادی کی اجازت، غیر متناسب اضافہ آبادی، اکثریتی علاقوں میں برادرانِ وطن کے ساتھ اخلاقی رویہ، پچھلی تین چار دہائیوں میں دہشتگردی میں اضافہ، مسلم اُمہ کا ناکافی ردِ عمل۔
ایک طرف مسلم معاشرہ اندرونی فرقہ بندی سے دل برداشتہ ہے وہیں دوسری طرف ہندو دھرم 36 کرور دیوی دیوتاؤں کو مانتا ہے( ہندوستانی مسلمانوں کی کل آبادی سے بھی زیادہ) ظاہر ہے اسلام یا مسلمان سے خطرہ کیوںکر محسوس نہ ہو۔ اس کے باوجود برادرانِ وطن مشکل حالات میں محنت اور لگن سے ہر شعبہ حیات میں ترقی کرتے گئے۔ وہیں ملت اسلامیہ غیر فطری معجزات کی منتظر رہی تعلیم سے دور ہوتی گئی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی۔
آج بھی ملّت اسلامیہ دوراندیشی اور حوصلے سے کام لے، انگریزی کی اصطلاح میںto seize the opportunity، بچوں کی تعلیم و تربیت، پیشے اور کاروبار میں سارے وسائل کے ساتھ اپنے آپ کو محنت کی بھٹّی میں جھونک دے۔ منظم تعلیمی تحریک وقت کا اہم تقاضا ہے، سائنس ٹیکنولوجی ووکیشنل کورسز، مرکزی و صوبائی سرکاروں، اداروں اور غیر سرکاری اداروں کے competitions کی تیاری پر خاص زور دینے کی ضرورت ہے۔ جنت نشاں مُلک کے مرکزی دھارے میں شامل ہوکر اس عظیم مُلک اور یہاں کے عوام کی خدمت اصل مقصد حیات ہو۔ حصول منزل دل میں ٹھان لیں لگن و محنت میں گنجائش نہ چھوڑیں کیا مجال راہ میں کوئی رکاوٹ بن جائے۔ سیاسی جانبداری سے بدلہ لینے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔
اسی ضمن میں علامہ اقبال کے “شکوہ” پر غور کریں، شکوہ مسلمانانِ ہند سے تو نہیں، خطاب اللہ سے نہ ہوکر قوم سے ہو؛ ائے مسلمانوں یہ حیات، حیاتِ طبعی ہے یہاں کامیابی کڑی محنت اور لگن سے ہی حاصل ہوتی ہے نہ کہ مذہبی بنیاد پر۔میرا عقیدہ، عقیدہ توحید، کتاب و سنت، اہل بیت اتحار سے محبت و عقیدت، خلفائے ثلاثہ سے محبت و احترام اُن کے فیصلوں کو دُرست سمجھنا، صحابہ کرام، صدیقین، صالحین، عارفین، صوفیہ کرام، خانقاہوں کی تعظیم۔
ائمہ، مفسّرین، علمائے کرام کا احترام۔ دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ، دارالعلوم جامیائے نظامیہ، دارالعلوم سلطان اُلمدارس، دارالعلوم فرنگی محل، مدرسہ منظرِ اسلام بریلی، جامیہ اشرفیہ مبارک پور، اشاعت دین کے ساتھ ان محترم اداروں نے جنگِ آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس کے علاوہ میرے نزدیک دوسرے مذاھب ہوں یا ان کے دیوی دیوتا، یا ان کے ماننے والوں کی شردھا ہو ان سبھی کا احترام واجب ہے۔ دوسروں کے عقائد کو ٹھیس پہچانا یا اس کا مذاق اڑانا نہ صرف برا ہے بلکہ گناہ ہے ۔
دست بستہ ادب و احترام سے ہر مکتبہ فکر کے علمائے کرام کی خدمت میں مندرجہ ذیل عرضداشت پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں؛ *”موجودہ حالات سے اس نا اہل کے مقابلے آپ حضرات کہیں زیادہ واقف اور فکر مند ہوں گے۔ آپ نے ہمیشہ قوم و ملت کی رہنمائی فرمائی ہے۔ مگر آج کے پرآشوب دور میں آپ کی مخصوص قیادت کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔ ماضی قریب کی تاریخ کی روشنی میں معاشرتی، تعلیمی، معاشی پسماندگی کی وجوہات تلاش کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں کوئی اہم نقطہ نظروں میں آنے سے رہ گیا ہے اگر نظرثانی فرمالی جائے تو شائد سدِ باب ہو سکے۔ کیا مسلمانوں کے مسائل کو revisit کرنے کی یا social reforms کی ضرورت ہے۔ عاجز دست درازی کے لئے معافی کا طالب ہے۔
آئیے ہم سب سچی دیش بھکتی کے ساتھ مرکزی دھارے میں شامل ہوکر مادر وطن اور انسانیت کی خدمت کی ایسی تحریک چلائیں جو اک جہد مسلسل ثابت ہو۔آخر می کرونا وائرس وبا جس سے وطن عزیز اور سارا عالم لڑ رہا ہے ہر شہری ذمےداری نبھائے حکومت قانون میڈیکل آٹھوریتیز کے بتائے ہوئے مشوروں پے عمل کرے۔ حکومت کے ساتھ تعاون کریں، مکمل احتیاط برتیں، دعا کریں اللہ عالم انسانی پر رحم و کرم فرما دے اور موذی وبا سے نجات دائمی عطا فرما دے۔٭٭٭
۔9956287442
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here