ان منصوبوں کی سازش کو سمجھیں ، جو بہت سے لوگ مل کر انجام دے رہے ہیں

0
191

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

مشرف عالم ذوقی

باندرا اسٹیشن۔ پہلا ملزم ، ونئے دوبے ۔ جس نے یہ افواہ پھیلایی کہ ٹرین کا نظام لاک ڈاون کے بعد شروع ہو چکا ہے .ہزاروں مزدوروں باندرا سٹیشن کی طرف دوڑ پڑے ۔ یہ شخص اب مہاراشٹر پولیس کی تحویل میں ہے۔
دوسرا ملزم ، رجت شرما ، جس کے نفرت انگیز ٹویٹ نے گودی میڈیا میں سنسنی پیدا کردی۔ رجت کے بیان کو بعد میں ٹرول بھی کیا گیا . لیکن منصوبوں کے تحت رجت نے اپنا کام کر دیا اور اسکو کسی بات کا خوف نہیں . پروموشن اب طئے ہے .
تیسرا ملزم کپل مشرا ، جس کی تیز تقریر نے فرقہ واریت کو جنم دیا۔جب عام آدمی پارٹی میں تھے ، مودی کے خلاف زہر اگلتے تھے .اب بی جے پی کا حصّہ ہیں تو مسلمانوں کو گولی مارنے کی تعلیم دے رہے ہیں . آج کل فرقہ واریت کا یہ کھیل پھل پھول رہا ہے۔ اگر کوئی وائرس لاک ڈاؤن میں کروونا وائرس سے زیادہ خطرناک کام کر رہا ہے ، تو یہ میڈیا وائرس ہے۔ جب ونے دوبے کی اطلاع وائرل ہوئی تو سیکڑوں تارکین وطن کارکن گھر جانے کے لئے باندرا اسٹیشن پہنچ گئے۔ رجت شرما کے ٹویٹ میں ان تارکین وطن کارکنوں کو مسلمان بتایا گیا.۔ اور باندرا اسٹیشن کے بجائے رجت شرما کی پرتشدد ذہنیت نے اسٹیشن کو مسجد میں تبدیل کردیا۔ کپل مشرا آگ لگانے کے ذمہ دار تھے۔معاملہ کیا ہے ، ان کے لئے یہ جاننے کی ضرورت نہیں تھی . اس سے پہلے کہ الکا لامبا رجت شرما کے ٹویٹ کی مذمت کرتی ، رجت نے الکا کو بلاک کر دیا۔ مراٹھی کے صحافی نکھل واگلے نے فوری جواب دیا۔نخل نے لکھا ،اب تو بے شرمی کی حد ہو گیی .وہ مسلمان نہیں مزدور تھے . مسجد نہیں ، باندرا سٹیشن تھا .
۔ لیکن غلطی کس سے ہوئی ؟ رجت شرما سے؟ ونئےدوبے سے ۔ یا کپل مشرا سے؟ پچھلے چھ سالوں سے ، بہت سے مسلم مخالف منصوبے اسی طرح کام کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہایک اشارے پر تالیاں اور تھالیاں بجوانے والی والی حکومت کیا ان منافقتوں کو نہیں روک سکتی تھی ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ان منافقتوں میں خود حکومت بھی شامل ہے؟ کیا مسلمانوں کے معاشرتی اور معاشی انحراف سے تمام مسائل حل ہوجائیں گے؟کیا نفرت معاشی بحران کا حل ہے ؟ جو لوگ ان منصوبوں کی پیروی کر رہے ہیں ، وہ صرف مہرے ہیں۔ لیکن یہ مہرے ملک کو تقسیم یا فرقہ وارانہ فسادات کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ یہ ملک بھی مسلمانوں کا ہے۔ کیونکہ قیام پاکستان کے باوجود ، ملک کے وفادار مسلمانوں نے پاکستان کو منظور نہیں کیا۔ وہ یہاں رہے .بچوں کو سنبھالا .تجارت کی . سرکاری دفتروں میں کام کیا . اور کبھی ملک سے اپنی وفاداری کا کویی حصّہ سیاست دانوں سے بھی طلب نہیں کیا .۔ لہذا ، مسلمانوں کو کوئی تقسیم قابل قبول نہیں ہوگی۔
یہ سچ ہے کہ ملک کا مسلمان کسی بھی سیاسی جماعت سے نفرت نہیں کرتا ہے۔ تاریخ کو مٹایا جاسکتا ہے ، لیکن اس ملک میں اگلے سو سال تک بھی مسلمانوں کی قربانیوں کی داستانیں زندہ رہیں گی۔ مسلمانوں نے اس سیاسی راز کو سمجھا ہے کہ وہ کیجریوال ہو ، یا مایا ، یا کانگریس ، یہ سب نرم گرم مذہب کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ لہذا وزیر اعظم کو یہ جان لینا چاہئے کہ اس ملک کے مسلمان ان کے دشمن نہیں ہیں۔ جب صرف ہندوستان میں صرف ایک ہی پارٹی ہے ، تو مسلمان اب کسی دوسری پارٹی کے بارے میں نہیں سوچ سکتے ہیں۔
لیکن وزیر اعظم کو یہ بھی سوچنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ آج ملک اس صورتحال پر پہنچ گیا ہے جہاں سبزی فروش تک ہندو اور مسلمان کا بورڈ لگا رہے ہیں۔ میں نے ایک مسلم کالونی میں ایک دلچسپ بورڈ دیکھا۔ بورڈ پر ایک ہندو سبزی فروش نے لکھا – مسلمان یہاں رہتے ہیں۔ مجھے یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں یہاں محفوظ ہوں اور میں سبزیاں آسانی سے بیچتا ہوں۔ احساس کریں کہ یہ ملک کی اصل ذہنیت ہے۔ لہذا ، ملک کبھی نہیں ٹوٹ پائے گا۔ کروڑوں کی تعداد میں ایک وہ ذہنیت بھی ہے جہاں لوگ سوشل ویب سائٹوں پر مسلمانوں کو مارنے اور پاکستان بھیجنے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھی ایک دن امن کی روشن مشعل کو اٹھاے ہوئے نظر آئیں گے۔
احمد آباد میں کرونا کے مریضوں کے لئے دو وارڈز تعمیر کیے گئے تھے۔ ہندو وارڈ ، مسلم وارڈ۔
کل ہندو اسپتال اور مسلم اسپتال ہوگا۔ ہندو ڈاکٹر اور مسلمان ڈاکٹر ہوں گے۔ مسلم۔ ہندو چائے والا ، مسلم ہندو مال ، مسلم ہندو گروسری اسٹور۔ یہ سب کیا ہے؟ اس ملک میں یہی ہو رہا ہے۔ مجھے آج صبح ایک خاتون کا فون آیا۔ پوچھا ، کیا تبلیغی جماعت کے لوگ گندے ہوتے ہیں ؟ شیطان ذہنیت رکھتے ہیں ؟؟ میں نے اسے پہلی بات بتائی ، کہ کورونا کے اعلان کے بعد ملک میں پندرہ لاکھ غیر ملکی آئے تھے۔ تین ہزار جمعیت والےتھے ۔ باقی کہاں گئے؟ چودہ لاکھ سنتانوے ہزار ؟ دوسری بات میں نے بتایی کہ نظام الدین میں ڈاکٹروں کی تیرہ ٹیموں نے مل کر ہر گھر میں تین دن تک تفتیش کی۔ 7 ہزار سے زیادہاسکریننگ کی گیی . ایک بھی مثبت کیس نہیں ملا۔ پھر میں نے پوچھا ، کیا آپ کو 2014 سے پہلے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیاں فرق کا احساس ہوا؟ اس کا سیدھا جواب تھا۔ نہیں
یہ کیسے منصوبے ہیں ؟ ہم جان چکے ہیں کہ ان منصوبوں کے پیچھے کیا ہے۔ ملک بھی آہستہ آہستہ جان جائے گا . کیونکہبہت تیزی سے پھیلتی ہوئی نفرت کے باوجود ابھی بھی کچھ لوگ نکھل واگلے اور سبزی سبزی فروش جیسے ہیں جو ملک تقسیم نہیں ہونے دینگے .
ہم مرتے ہوئے ہندوستان کے گواہ ہیں۔
ہم فرقہ واریت کی چھاؤں میں خوفزدہ اپنی نسلوں کو چپ رہنے کی تعلیم دے رہے ہیں۔
میڈیا کے ایک فیصد سے بھی کم بولنے والے دہشت میں ہیں کہ حکومت کبھی بھی ان پر کوئی بھی الزام لگا سکتی ہے۔ باقی میڈیا آرام سے مسلم دشمنی کو فروغ دے رہا ہے .
سوشل میڈیا پر آپ سچ بولتے ہیں تو آپ کو دھمکی ملتی ہے۔
ہم ایک ایسے پر آشوب وقت کے گواہ ہیں، جہاں ہم سے ہماری وراثت چھین لی گئی ہے۔ میڈیا انکا ہے۔ اخبار کے الفاظ اور سرخیوں پر حکومت کا نام ہے۔ سڑک پر چلتے۔ باتیں کرتے ہوئے لوگ بھی خائف کہ سچ بولنے کا
خمیازہ نہ ادا کرنا پڑ جائے۔
ہم ایک بیمار نظام کا حصہ ہیں۔ ..لیکن یہ بھی حقیقت کہ اگر ضمیر نام کی چڑیا ابھی بھی ہمارے پاس ہے -تو صرف دو باتیں ممکن ہیں .یا تو اس نظام میں گھٹ گھٹ کر مر جایا جائے یا پھر سچ کے اعلان کے ساتھ بہادر کی موت مرنے کے لئے تیار رہا جائے.
اور آخر میں میڈیا —
ہندوستان کی ہربربادی ، ہر قتل و غارت کے پیچھے میڈیا ہے۔ہندوستانی جمہوریت اور آزادی کا خون اسی میڈیا نے کیا۔یہ میڈیا پہلے دن سے مسلم نوجوانوں کے پیچھے پڑا ہے .اس ملک میں دلت ،عیسایوں سے زیادہ بڑا خطرہ مسلمانوں کو ہے ۔آزادی کے بعد سکھ ،جین ،عیسای مذھب کے پیروکار بہت حد تک ہندو مذھب میں ضم ہو چکے ہیں۔آر ایس ایس لابی بار بار مسلمانوں کی دھرم واپسی کا اعلان کر رہی ہے۔میڈیا ایسے نعروں کو فروغ دے رہی ہے۔ آج ہندی اور انگریزی کے نناوے فیصد اخبارات حکومت کی اشتعال انگیزی کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔انڈیا ٹوڈے جیسی نیشنل میگزین نے اپنا وقار کھو دیا .تمام چینلس حکومت کی زبان بولنے لگے۔نیوز اینکر سڑکوں چوراہوں پر انٹرویو لیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اشتہار بازی کی مہم میں جٹ گئے–پرائم ٹائم کے تمام نیوز پروگراموں میں مسلمانوں کے خلاف عام اکثریت کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی میڈیا نے کسی بھی ملک میں غدارانہ اور دہشت گردانہ تیور نہیں اپنایا ۔امر یکہ اور برٹین میں بھی میڈیا کی آزادی فروخت نہیں ہوئی۔ میڈیا کا کام حکومت پر تنقیدکرنا ہے ۔ملک میں توازن پیدا کرنا ہے ۔لیکن ہندوستانی میڈیا کو رویش جیسے ایماندار صحافی اب گودی میڈیا کا نام دیتے ہیں جس کو حکومت نے گود لے لیا ہے۔پچھلے چھ برسوں میں مسلمانوں کی جو بھی ہلاکتیں سامنے آی ہیں ،انکے پیچھے یہی میڈیا ہے -لیکن میڈیا اب بھی اپنی دہشت گردیوں میں مصروف ہے۔اور کویی بلند آواز میڈیا کے خلاف ابھی بھی بلند نہیں ہو رہی۔
اس بات کو یاد رکھئے کہ لاک ڈاؤن کے دنوں میں حکومت کچھ بڑا سوچ رہی ہے . لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد مسلمانوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے .
ضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here