انمول تحفہ

0
333

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


زبید خان

روز کی طرح آج آنیہ کو نیند نہیں آرہی تھی ۔سوچ رہی تھی کاش! آج جو ہوا وہ شام کو نہ ہوکر دن میں ہوا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا،کم سے کم اس کے پاس وقت تو ہوتا اپنی گلک کے پیسے گننے کا ۔
پر اب کیا فائدہ !اب تو انتظار تھا تو بس اسکول سے گھر واپس لوٹنے کا۔ یہ بھی ڈر لگا رہا کہ کہیں امی گلک سےپیسے نہ نکال لیں۔پر امی بیچاری کرتی بھی کیا۔بڑی مشکل سے اس نے ٹوٹی ہوئی گلک کے ٹکڑوں کو پیسوں کے ساتھ ہی رومال میں باندھ کر امی کو دیا۔
آنیہ کی عمر کے مطابق اس کی سوچ بھی ایسی ہی تھی۔اب بس یہی سوچ رہی تھی کہ گلک میں کتنے پیسے ہوں گے؟نانی کے گھر گئی تو پچاس روپے بڑے ماما نے،بیس روپے چھوٹے ماما نے، بیس روپے موسی نے اور نانی نے بھی تو دس روپیے دیے تھے۔کل ملا کر سو روپے تو وہیں سے ہو گیےتھےاور جب الور والی موسی آئی تھی وہ بھی تو پچاس روپے دیکر گئی تھیں ۔
ارے ہاں! اس نے دادا ،چاچا اور ابو سے ملے ہوئے پیسے بھی تو اس گلک میں ڈالے تھے، شاید دو سو روپے ہونے والے تھے۔اب تو آنیہ بس اپنے آپ کو ہی ملامت کر رہی تھی کہ اسے کیا ضرورت تھی گلک کو چھیڑنے کی! اس طرح تو وہ اس کے ہاتھ سے نہ گرتی ۔یہ سب نہ ہوتا تو وہ اس سال ، شاید اپنی سالگرہ پر دوسرے دوستوں کی طرح نئے بیگ کے ساتھ اسکول جاتی۔
پر افسوس!بس یہی سب سوچتے ہوئے پتہ نہیں کب اس کی آنکھ لگ گئی۔امی نے صبح اسکول جانے کے لیے اٹھایا تب ہی آنیہ کو پتا چلا کہ صبح ہو گئی ہے ۔ اسے بڑی فکر ہوئی کہ اسکول جانا ہے۔ جیسے ہی اسکول ختم ہوگا گھر لوٹ کر پیسے گننے ہیں۔ یہ سوچ کر اسکول جانے کی تیاری کرنے لگی۔جیسے تیسے اسکول میں اس نے دن گزارا۔ایسا نہیں تھا کہ اس کے امی، ابو کو اس کی ضرورتوں کے بارے میں علم نہیں تھا ،پر وہ بھی گھر کی دوسری ضرورتوں کوپورا کرنے میں لگے رہتے تھے۔امی نے سوچا تھا کہ آنیہ کا بیگ ٹھیک ٹھاک ہے اور وہ اسے کم سے کم چھ مہینے اور چلا لےگی، یہ سوچ کر انھوں نے آنیہ کے بیگ کی چین بھی درست کروادی اور ادھڑی ہوئی سلائی بھی گھر پر ہی ٹھیک کردی۔
آنیہ کو سمجھایا کہ ابھی تمھارے نئے جوتے آئے ہیں تو یہ بیگ تم چھ ماہ تک استعمال کرو ۔۔۔۔ جیسے ہی گھر کے حالات سازگار ہوں گے میں تمھارے ابو سے کہہ کر نیا بیگ منگوا دوں گی۔ نئے بیگوں کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔۔۔ دو یاتین سو سے کم نہیں آتے ۔یہ سن کر بےچاری آنیہ مایوس تو بہت ہوئی پر گھر کے حالت وہ جانتی تھی،اسی لیے اس نے سوچاتھا کہ وہ خود ہی اپنے نئے بیگ کے لیے پیسے جمع کرنے کی کوشش کرے گی۔
پر اب؟۔۔۔۔لگتا نہیں تھا کہ گھر لوٹنے پر امی سے پیسے مانگنے پر وہ دیں گی۔ نہیں۔۔بس آج کل کہہ کر ٹال دیں گی ۔ آنیہ نے گھر پہنچتے ہی امی سے پیسوں کی فرمائش کی اور وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔امی نے کہا کہ پہلے کھانا کھالے پھر آرام سے گن لینا پر آنیہ کو بھوک کہاں تھی ،جلدی جلدی سے کچھ کھالیا اور اٹھ کھڑی ہوئی اور دوبارہ امی کے پاس پہنچ کر پیسے مانگے۔انھوں نے کام کی مصروفیات کا بہانہ کیا اور ٹال گئیں۔
ٹیوشن جانے کا وقت ہو گیا تو وہ اداس من کے ساتھ چلی گئی۔امید پوری طرح سے ٹوٹ چکی تھی گھر لوٹی تو دل کافی اداس تھا۔گھر پہنچنے کے
بعد اس کی نگاہوں نے جو کچھ دیکھا اس کے بعد وہ حیرت اور خوشی کے سمندر میں غوطہ زن ہوئی۔ ابو کےہاتھ میں خوبصورت سا بیگ تھا۔بیگ آنیہ کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ شفقت اور بے پناہ محبت سے مسکرا پڑے۔
یہ لو بیٹی ۔۔۔۔۔تمھارا سکول بیگ !
پسند نہ آئے تو کہہ دینا۔۔۔۔ہم کل ساتھ چل کر تبدیل کرلیں گے۔آنیہ کو تو جیسے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا ۔پھر اندر سے امی آنیہ کی پیسوں کی پوٹلی لیے ہوئے آئیں اور بولیں۔ یہ لو ! آنیہ نے کہا۔ پر امی یہ تو بیگ کے لیے ہی رکھے تھے اور وہ آگیا۔ابواور امی دونوں ایک ساتھ بول پڑے۔ یہ تمھاری سالگرہ کا تحفہ ہے اور جو پیسے تم نے جمع کیے ان سے تم سالگرہ کیک خرید سکتی ہو ۔
آنیہ خوشی کے مارے جھوم اٹھی ۔ اسے تو بس کل کا انتظار تھا جب وہ بھی اپنے دوستوں کو خود کا نیا بیگ دکھائےگی جو اسے سالگرہ کے موقع پر ملا تھا۔
بھرتپور راجستھان
انشا اردو گائیڈ
فون نمبر 8875350095

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here