9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
معصوم مرادآبادی
طنز ومزاح کے بے باک شاعر علامہ اسرار جامعی بھی چل بسے۔ وہ پچھلے کافی عرصہ سے صاحب فراش تھے اور ان کا بیشتر وقت اسپتال اور گھر کا فاصلہ طے کرنے میں گذرتا تھا۔ یوں تو اسرار جامعی کے انتقال کی افواہ کئی بار اڑی لیکن وہ بڑے سخت جان تھے کہ ہربار خود ہی اس کی تردید کرنے کے لئے نمودار ہوجاتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ یہ خبر درست ہے اور ان کا جنازہ دہلی کے اوکھلا علاقے میں اس چھوٹے سے کمرے میں رکھا ہوا تھا جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام بڑی بے بسی اور بے کسی میں گزارے۔ اسرار جامعی ہماری سماجی بے حسی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ سچ پوچھئے تو ہم لوگ ان کی موت کی خبر کا ہی انتظار کر رہے تھے اور لوگوں نے ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔جوکوئی بڑی ہمت کرکے ان کی چھوٹی سی کٹیا میں جاتا تو ان کے ساتھ اپنی ایک تصویر فیس بک پر ضرور شئیر کرتا تھا۔ تاکہ ان کی مزاج پرسی کرنے کا ثبوت دے سکے۔
82 سال کےاسرار جامعی دہلی کی ادبی محفلوں کی آ برو تھے۔ ایک ایسے وقت میں جب لوگ ان ہی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں جہاں انھیں اسٹیج کی زینت بنایا جاتا ہے، ایسی بے شمار تقریبات میں علامہ اسرار جامعی کو میں نے صف سامعین میں ہمہ تن گوش دیکھا۔ ان کی ایک خاص ادا یہ تھی کہ وہ ان تقاریب میں لوگوں کو آ ئینہ دکھانے کے لئے اپنے کچھ قطعات فوٹو اسٹیٹ کرکے لے جاتے تھے اور انھیں تعویذ کی شکل میں تقسیم کرتے تھے۔ اسرار جا معی طنز و مزاح کے شاعر اور صحافی تھے۔ انھوں نے “پوسٹ مارٹم “اور “چٹنی” کے نام سے اپنے مختصر اخبارات شائع کئے اور علم و ادب کی ترسیل میں مصروف رہے۔ ” شاعر اعظم” کے عنوان سے ان کے مزاحیہ کلام کا مجموعہ بھی شائع ہوکر مقبول خاص و عام ہوا۔ انھوں نے شادی نہیں کی تھی ۔ گاؤں میں ان کی ڈھیروں زمین دوسروں نے ہتھیالی تھی۔ زمانے سے ان کو ڈھیروں شکایات تھیں۔ ظاہری ٹیپ ٹاپ اور بناوٹ کے اس شہر میں کم ہی لوگ انھیں “لفٹ” دیتے تھے۔ وہ ایک سادہ مگر پرکار انسان تھے اور بہترین شاعرانہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔
ادھر کافی دنوں سے مجھے ان سے نیاز حاصل نہیں ہوا تھا مگر فون پر اکثر باتیں ہوتی تھیں۔ لیکن ادھر کچھ عرصہ سے ان کا فون سوئچ آ ف آ رہا تھا اور میری تشویش بڑھ رہی تھی۔اسی اثناء میں ان کے انتقال کی خبر آ ئی ہے تو قلق اس بات کا ہے کہ میں ان کے جنازے میں کیسے شریک ہوں گا۔ پورے ملک کی طرح دہلی میں بھی لاک ڈاؤن ہے۔ وہ نہ جانے کیوں مجھے بہت عزیز رکھتے تھے اور اکثر خود میرے غریب خانے کی زینت بڑھاتے تھے۔میری ان سے شناسائی کوئی ایک چوتھائی صدی پر محیط ہے۔ انھوں نے میرے اخبار کے لئے یومیہ قطعات بھی لکھے۔ میں آ پ سے مؤدبانہ گذارش کرتا ہوں کہ برائے کرم علامہ اسرار جامعی کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے ضرور دعا فرمائیں۔ دنیا میں اب ان جیسے لوگ خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اس شہر میں اب کوئی ہم سا بھی کہاں ہے