9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ایم ۔ محمدر ضاایلیاؔ
’’ادبی نشیمن ‘‘ سہ ما ہی جریدہ نے اردو ادب و ثقافت کی دنیا میں اپنی مقبولیت ذاتی محنت کی بنیاد قائم کی۔ ’ادبی نشیمن ‘ کی ادبی ،علمی بے لوث ، والہانہ خدمات تقریباً گزشتہ پانچ برسوںمیں چلی آرہی ہے ۔دو برس آمادگی میں گزرا پھر با قاعدہ طورسے تین برسوں میں مسلسل اردو ادب و ثقافت اور محقق و نقاد کے دل میں حقیقی طوراتر تا چلا گیا ۔بات قابل ذکر و غور ہے کہ اگر چہ زمانی طور پر اس رسالہ کی ادبی توسیع باضابطہ طورتین برسوںپر مشتمل ہے لیکن علمی مواد اور تحقیقی مطالب کے پیش نظریہ بات پورے وثوق و ایقان سے کہی جا سکتی ہے کہ اس کے فکر انگیز ، تحقیقی دستاویزی شما رے کئی صدیوں پر محیط اور اثرا نداز ہوں گے ۔ ’’ادبی نشیمن ‘‘کے لیے یہ فخر کا مقام ہے معزز و محترم ڈاکٹر سلیم احمد نے گزشتہ تین برسوں میں 09شمارے کے ساتھ ساتھ تین خصوصی شما رے شایع کیےہیں جس سے یہ رسالہ ہر شیدائی، علم کے متلا شی ، لائق و فائق اورمحقق و مدبراور مفکرو محررکی آنکھوں کا بھی سر مہ بنا ہوا ہے ۔ خصوصی طورپر ہر جرید ے کے آخری صفحہ پر ’’ دستاویز‘‘ کے عنوان سے شایع مواد ہر قارئین کو تحقیق کی طرف دعوت دیتاہے جس کی وجہ سے ہر قارئین کی دلچسپی برقرار رہتی ہے ۔
ڈاکٹر سلیم احمد ایڈیٹر سہ ماہی ’’ادبی نشیمن ‘‘ کی شروعات ہی سے ریسرچ اسکالروں کے مضامین کی طرف نگاہ کرم رہی ۔ان کی اسی مثبت فکری نے تمام ریسرچ اسکالروں کے دل میں جگہ بنا لی۔آغاز ہی سےایڈیٹر ’’ادبی نشیمن‘‘ نے گاہ بہ گاہ متعددقابل تقلید اورخوشگوار تبدیلیاںکرتے رہے جس سے اس رسالے کا ادبی و تہذیبی دائرہ واسطہ اور بلا واسطہ وسیع سےوسیع تر ہوتا چلاگیا۔مدیردسمبر 2019تامئی 2020کے شمارہ کے اداریہ میں حوصلہ افزا ، روشن مستقبل فکری کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :
’’ بے حد خوشی کی بات ہے کہ ’’ ادبی نشیمن ‘‘ دو برس کی مدت پورا کرچکا ہے اب تیسرے سال میں پیش رفت کر رہا ہے ۔ اس دورانیہ میں ’’ انور جلالپوری ، ’’پروفیسر محمود الٰہی ‘‘پر خصو صی شمارے ساتھ عام شمارے جو منظر عام پر آئے اس کی توقع سے کہیں زیادہ پذیرائی ہوئی جبکہ ’’ ادبی نشیمن ‘‘ کے قارئین کی وابستگی میں بھی اطمینان بخش اضا فہ ہوا ہے۔ یہاں ہم اپنے قارئین کو اس بات کا یقین دلانا چاہئے ہیں کہ جس طرح سے شعرا اور تخلیق کاروں کا قلمی تعاون ہمیں حاصل ہو رہا ہے آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا تو ان شاء اللہ اس کی اشاعت کو مزید معیاری بنانے کی کوشش جا ری رہے گی ۔
’’ادبی نشیمن ‘‘کا شما رہ اردو ادب و ثقافت و تہذیب کے شیدائیوں کی نگاہیں نئے شمارے کی منتظر رہتی ہیں۔اس لیے ڈاکٹر سلیم احمد ان تمام ریسرچ اسکالر س اور یونیو رسٹیوں کے اردو شعبوں سے تعلق رکھنے والے اسا تذہ ، قلمکاروں کے مضامین شائع کرتے ہیںجو وقتاًفوقتاًاپنی نگارشات، اپنی تحقیقی، مدلل مضمون لکھتے رہتے ہیں۔ مدیراپنے جریدہ میں ہر بار اپنی مدیرانہ صلاحیت سے ایک خاص موضوع کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کر اتے رہتے ہیںجس کی وجہ سے قارئین کی علمی اور ادبی تشنگی برقرار رہتی ہے ۔ یہ ادبی حکمت علمی اور تحقیقی دستاویز کا کام آسان نہیں ہے جس میںمدیر و ادبی مشیرکی جد و جہد اور انتھک کوششیںشامل ہیں ۔
ڈاکٹر سلیم احمد مدیر ’’ ادبی نشیمن ‘‘ کی دو اندیش فکری جہات نے اردو دوست و اردو بستیوں کے اولوالعزم نباض ادب ،مشاہیرعلم و دانش ، فراخ حوصلہ شخصیت اوربا ذوق نوجوانوں کو اپنی طرف ملتفت کرلیاہے ۔ اداریہ کے ثانی خط عمود میںمدیر کامقصدماہر لسانیت ’’رشید حسن خاں‘‘ کی شخصیت کا تعارف محرر؍ نو جوان قلمکا ر وںکی سمت ترغیب دلانے کا انداز انو کھا اور دلچسپ بھی ہے ۔ مدیر کے اداریہ میں نپے تلے الفاظ میں پوری سوانح کا خاکہ دریا کو کو زے میں سمو دینے کا ہنر، مدیرانہ صلاحیت کی بھر پور عکا سی کرتا ہے۔اداریہ میں کچھ اس طرح سے تحریر کرتے ہیں ملاحظہ ہو :
’’ اردو ادب میں ماہر لسانیات ’’رشید حسن خاں‘‘ ایک محقق ، نا قد اور مدون کے علا وہ اردو املا اور زبان و قواعد کی نئی نئی اصلاحات و اصطلاحات کے طور پر اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں ۔ تلفظ ، املا اور قواعد پر ان کی بے حد عمیق و غائر نظر تھی ۔ انہوں نے تحقیق کے میدان میں جو بھی کام انجام دیا وہ پوری ایمانداری اور دیا نت داری کے ساتھ کیا جبکہ تحقیق کے ساتھ تدوین اور تجزیہ نگاری میں بھی انہیں مہارت حاصل تھی ۔ اردو املا اور انشاء اور تلفظ ، تدوین ، تحقیق روایت ، زبان اور قواعد ، اردو کیسے لکھیں ان کی وہ شاہکار کتابیں ہیں جس سے وہ دوسرے محققین و مدونین سے الگ نظر آتے ہیں ۔‘‘
زیر نظر ’’گوشہ رشید حسن خاں ‘‘ خصوصی شما رہ میںایڈیٹر نےاس توجہ اس بات کی طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں کہ گوشہ’ ’رشید حسن خان‘‘ جیسے عنوان پربلا اجرت رسالہ تیار کرنا آسان نہیں ہے مگرایڈیٹر مو صوف جس طرح سے گوشہ شایع کیا۔ اس سے مدیر کی علمی لیاقت ،محنت شاقہ کابخوبی اندازہ ہو جاتاہے ۔مو جو دہ وقت میں ادبی نشیمن کے مدیرکا قلمکاروں کواس گوشہ کی طرف توجہ ملتفت کرکے مضامین یکجا کرنا ہیرے تراشنے کے مترادف ہے ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ گزشتہ شما روں کی بہ نسبت گوشہ ’’رشید حسن خاں‘‘ خصوصی شما رے میں علمی موادجا نفشانی کی ترجمانی کر رہا ہے۔دسمبر 2019تا مئی 2020کے شما رہ میں گزشتہ اورمعاصر شعراء کے بارے میں کا فی اہم اطلا عات و معلومات کے مخازن ہیں۔ادبی نشیمن میں اردو ادب کے ایسے افسانے ، انشائیہ ، حمد ، نعت ، قطعات ، غزلیں ،تبصرے ، خطوط وغیرہ موجود ہیںجو توجہ کا مر کز ہیں خاص طور پر ’مہاتماگاندھی کی شخصیت اور افکار و نظریات ‘، ’شام اودھ کی تو بنارس کی سحر رکھتے ہیں ‘،’اردو املا اور زبان و قواعد کی اصلاح میںرشید حسن خاں کا کردا ر ‘ کے علا وہ رشید حسن خاں سے متعلق جتنے بھی مضامین ہیں سب قابل تعریف ہیں یا یوں کہا جائے تو کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ ادبی مگس کے لیے’ادبی نشیمن‘ ایسا گلستان ہے جہاں مختلف اقسام کے گل مشمو م و خالص عسل النحل کی وافر مقدار میںدستیابی ہے ۔
حمد ، نعت ، قطعات ، غزلوں کا انتخاب ڈاکٹر سلیم احمد کی مدیرانہ صلاحیت کو بخوبی اجاگر کرتا ہے ۔جس میں شاعرنے غزل میں کلا سیکی انداز اپنا کر حقیقت کی طرف متوجہ کیا ۔خاص طور پر یہ شعر قابل توجہ ہے ۔
مٹا کر خود کو قوموں کی جو کرتا ہے نگہبانی
اسی کو قافلے والے اکیلا چھوڑ دیتے ہیں
اسی طرح جوادحیدر جوادؔ مبارکپور، اعظم گڑھ کی غزل رومانی خیالات کی ترجما نی کررہی ہے ۔ اس میں انہوں نے حقیقت بیانی اور تاریخی پس منظر کی حقانیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔غزل کے مقطع میں غزل کی جان بسی ہوئی نظر آتی ہے ۔
پڑھ کے تاریخ قتل کی دیکھو
پہلا قاتل جہاں میں بھائی ہے
مضمون کے حوالے سے’’ تحقیق کا در شہوار : رشید حسن خا ں‘‘ ڈاکٹر مجاہد الاسلام کامضمون بہت جا مع اور معنی ہے۔ انہوں نے اس مضمون میں کافی محنت کی ہے اس طرح کے بہت کم دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں ایسے تحقیقی مضامین کی موجودہ وقت میں ضرورت ہے۔اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ جناب عبد الحیٔ نے کا مضمون ’’شام اودھ کی تو بنا رس کی سحر رکھتے ہیں ‘‘ مضمون کی اعتبا ریت وانفرادیت کو ظاہر کر رہا ہے ۔مضمون کے اندر مدلل اور تقابلی جائزہ لیا گیا ہے ۔ مضمون کے مطالعہ سے مضمون نگار کی بالغ النظری کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ اسسٹنٹ پروفیسر عبد الحی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں :
’’اودھ کی شام اور بنا رس کی صبح صدیوں سے مشہور رہی ہے ۔ جہاں اودھ کی شام کا تصور اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ وہیں بنارس کی صبح آج ہزاروں برسوں کے بعد بھی ویسی ہی ہے اور آج بھی اس کی صبح کی خوبصورتی میں کمی نہیں آئی ہے ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ بنارس صدیوں سے ایسا ہی ہے اور مختلف سائنسی ترقی اور مال کلچر کے آنے کے بعد بھی یہ نہیں بدلااور شاید آنے والے برسوں میں بھی بنارس کی صبح کا حسین منظر اور یہاں کی تہذیبی و ثقافتی تنو ع قائم رہے گا۔ ‘‘
اس شمارے میں کا فی تبدیلیاں نظر آئیں ۔ان تغیرات و تبدیلیوں کا آغاز پہلے صفحے سے ہو تا ہے سر ورق پر سلام لکھنؤ کی جانب سے مصنفین اودھ ایوارڈ کی تصویر ، معروف شاعر انسؔ مسرور کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کی تصویر ،’’ نذر شارب‘‘ ، ’’ رشید حسن خاں تحریروں کے آئینے میں ‘‘ تبصرے ،کے علا وہ سب سے اہم ’’ دستاویز ‘‘ میں’’ اختری بائی‘‘ کے حوالے جو معلوما ت فراہم کرائی گئی وہ عاشقین ادب، محققین و دانشوران او ریسرچ اسکالروں کے لیے کا فی سود مندہیں ۔
نوٹ:اس رسالہ میں پروف کی کمی نظر ضرور آئی پہلے صفحہ پر دسمبر 2019تا مئی 2020ہے مگر وہیں بیک کور پر دسمبر 2019تا مارچ 2020تحریر ہے ۔ اسی طرح جواد حیدر جوادؔ کی غزل میں ایک شعر میں ’’تم نے کانٹوں سے زخم کھائے ہیں ۔ تم نے پھولوں سے چوٹ کھائی ہے‘‘ ۔تم کی جگہ ’’ہم ‘‘ہونا چاہئے تھا ۔ امید ہے کہ آئندہ شما رے میں جس طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہےاس پر ایڈیٹرموصوف ضرور خیال رکھیں گے ۔ویسے ادبیمعیار کو بر قرار رکھتے ہوئے ایڈیٹرڈاکٹر سلیم احمد نے اپنی ذاتی دلچسپی اور صلا حیت کو بروئے کارلاکر’’ادبی نشیمن‘‘کو جدید ٹکنالوجی کے مطابق شائع کراتے ہوئے قارئین تک پہنچانے کا مستحسن کام انجام دیا ہے۔ جس کے لیے ادبی نشیمن کے اراکین خصو صاً ڈاکٹر سلیم احمداور حقیقتاً مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
9369521135