Saturday, April 20, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldبدمعاشوں کے پیچھے؟

بدمعاشوں کے پیچھے؟

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

احمد رضا

وہ گروہ تھا ہی بدمعاش ۔وہ پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ ایسا لگتا تھا کہ کوئی پچھلے جنم کا بدلہ لینے آیا ہو جس سے دیکھو جب دیکھو لڑ پڑتا تھا پورا کالج ان گروہوں کی بدمعاشیوں سے ڈرتا تھا یہاں تک کہ ٹیچر بھی خائف رہتے تھے اگر یہ گروہ اپنے خلاف کچھ بھی سنتے تو کالج میں توڑ پھوڑ مچا دیتے اور ڈر کے مارے کوئی کچھ نہیں بولتا صرف ایک پرنسپل صاحب ہی تھے جوآے دن ان گروہوں کو ڈانٹ پھٹکار لگایا کرتے تھے آج وہ گروہ پھر پرنسپل صاحب کی طنز و تشنیع سن رہا تھا ۔
کیوں مارا اسے؟
کسے سر؟
انجان بننے کی کوشش مت کرو پرنسپل دھاڑا ۔
انجان کون بن رہا ہے سر۔میں تو جواب دے رہا ہوں ۔
اچھا ۔
یس سر ۔
بہت بد تمیز ہو گئے ہو تم سب
وہ کیسے سر ۔
آخر کیوں مارا محسن کو ؟
محسن! کون محسن سر ہم میں سے کوئی بھی شخص اس نام سے واقف نہیں ہے ان میں ایک نے کہا۔
پرنسپل نے قہر آلود نظروں سے گھورا پر کسی کے تیور میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں آیا ۔
جانتے ہو اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے ؟
کس کا انجام سر؟
تم لوگوں کو مذاق سوجھ رہا ہے پرنسپل پھر زور سے چیخا۔
تم لوگوں کو کالج سے باہر پھینکوا دونگا ۔
کس بنا پر سر ؟
جوابا پرنسپل گھور کر رہ گیا ۔ ان میں سے ایک بولا، سر ! اگر ہمارے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو بتائیں ہمیں اپنی غلطی تسلیم کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔
تسلیم۔۔ اور غلطی ۔۔ پرنسپل غصے سے اپنے سر کو جنبش دیتے ہوئے کہا اور بولا جلد تم لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ تم لوگوں کی غلطی کیا ہے؟ اور کس بنا پر یہاں سے نکالے جاوگے۔
یہ بدمعاشوں کا گرہ اتنا شاطر اور چالاک تھا کہ کیسا ہی سنگین جرم کیوں نہ ہو اس کو انجام دینے کے بعد کوئی ثبوت نہیں چھوڑتا تھا پچھلے ہئ ہفتے کی بات ہے کہ ان گروہوں میں سےایک نے کلاس روم میں ایک لیڈی ٹیچر پر کسی بات کو لیکرتیز دھار چاقو سے حملہ کیا تھا اس ٹیچر کی قسمت اچھی تھی کہ وہ اس حملہ سے بال بال بچ گئی مگراس دن سے وہ لیڈی ٹیچردوبارہ اس کلاس روم کا رخ نہیں کی۔ اور خوف کے مارے پرنسپل کو اور نا ہی تھانے میں کوئی رپورٹ درج کروائی۔اب تو ان گروہوں کی طاقت اتنی بڑھ چکی تھی کہ اس کو کوئی روکنے والا نہیں تھا اب تو چاقو کی نوک پر وہ ہرکام کو انجام دیا کرتے تھے ۔ اس واقعے کے بعد اب تو پرنسپل بھی ڈرے ڈرے سےرہنے لگے تھے ۔کئی بچوں نے تو اب اس گرہ کو اپنے ساتھ پستول وغیرہ بھی رکھتے ہوئےدیکھا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرنسپل کو اپنی جان کے لالے پڑنے لگے اور ایک دن پرنسپل اپنے اس عہدے کو چھوڑ کر یہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اب کالج کا ہر کام ان لوگوں کے منشاء سے چلنے لگا اگر کالج کے کاموں میں ذرا بھی ان کی مرضی کی مخالفت ہوتی تو گویا کالج میں قیامت آجاتی ۔۔ کس ٹیچر کو کب رسوا کرنا ہے؟ کس طلبہ کو کتنا نمبر دینا ہے؟ یہ سب کچھ یہ گروہ طے کرتے تھے اب کالج کے پورے کاموں پر ان گروہوں کا کنٹرول ہو چکاتھا اس کالج کی بد نصیبی کہیے یا کچھ اور ایسا ماحول آج سے نہیں بلکہ کالج کےدورقیام سے ہی چلا آرہا ہے پرنسپل کے عہدے پر کوئی بھی شخص فائزہوپرحکومت چلتی تھی ان گروہوں کی کچھ لڑکوں کا یہ بھی ماننا تھا کے یہ لوگ صرف مہرے ہیں اس کے پس پشت یہاں کے ٹیچر نزہت کاہاتھ ہے جو لڑکوں کو نمبروں کا لالچ دے کراہنے مقصد یعنی پرنسپل کے عہدے کو پانے کے لیے اس طرح کا کھیل رچواتی ہے کیونکہ ٹیچر نزہت کی یہ دلی تمنا ہے کہ وہ اس کالج کی پرنسپل بنے چونکہ وہ اپنی زندگی کا آدھا حصہ وہ اسی کالج میں گزار چکی ہے اس وجہ سے وہ اس عہدے کی دعویدار ہے لیکن کچھ کارنوں کی وجہ سے وہ ابھی تک پرنسپل نہ بن سکی اسی وجہ سے وہ ایسے حالات برپا کرواتی ہے جس کے لیے وہ کمزور اور بدمعاش بچوں کا نمبرات دینے کے عوض میں استعمال کرتی ہے کچھ بچوں کا کہنا تھا کہ یہ دو ٹیچروں کے درمیان کی لڑائی ہے یعنی نزہت اور رفیقہ بیگم کے درمیان کی جو دونوں ایک دوسرے کی جانی حریف ہے اور اس کے لئے دونوں طلبہ کا استعمال کرتی ہے۔ جتنے منھ اتنی باتیں ہو رہی تھی سبھوں کے پاس محض ایک تھیوری ہی تھی کوئی پختہ ثبوت نہیں تھاابھی تک یہ بات مکمل طور سے صاف نہیں ہونے پائی تھی کہ ان بدمعاش گروہوں کی پشت پناہی اور اب تک گروہ بندی کے کاموں کو کون انجام دیتا ہوا آرہا ہے البتہ اتنی بات تو ہر کوئی جانتا تھا کہ کالج میں ٹیچر نزہت کی من مرضی چلتی ہے وہ جو چاہے اور جب چاہے کچھ بھی کر لے اس کے خلاف کوئی ٹیچر کو جانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی جس کے بنا پر بچے طرح طرح کے قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ٹیچر نزہت کی بات کالج کے اکثر بچے بھی مانتے تھے لیکن جب بھی ان سے کالج کے اساتذہ ان بدمعاش گروہوں کو سمجھانے کی بات کرتے تو نہ جانے وہ کیوں یہ بات کہ کراپنا پلو جھاڑ لیتی کہ کس کو نہیں اپنی جان پیاری ہے۔۔
کالج میں ایگزیکٹیو ممبر کا الیکشن ہونا تھا ان گیروہوں میں سے ایک بطورامیدوار کھڑا تھا یہ بات تو طے تھی کہ جیت ان گروہوں کی پکی ہے کیونکہ کسی میں بھی ان کے مد مقابل کھڑےہونے کی ہمت نہیں تھی لیکن سب students کی یہ منشاء بھی تھی کہ الیکشن نہ ہو اور اگر ہو بھی تو کوئی دوسرا امید وار بھی ہو جو طلبہ کی طرف سے لڑ سکیں پر مد مقابل کھڑا ہو کون؟ سب کی حالت بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے مترادف تھی ۔ آخر کار سبھوں نے مل کر ایک خفیہ میٹنگ کرنے کی بات کہی میٹینگ کے دن اور وقت طے ہوئے اوردن سب مقررہ جگہ پر پہنچ گئے۔
سب لوگ خاموشی اختیار کئے بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں فرہاد نامی ایک لمبا ترنگا لڑکا کھڑا ہوا اور جذبات سے پر تقریر کرنے لگا “دوستوں جیسکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ کہ ہمارے سامنے کیسے حالات ہیں اورہم سب کن مصیبتوں سے گزر رہیں ہیں پر کیا ہم سب یوں ہی مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرتے رہیں گے؟ یوں ہی ظلم سہتے رہیں گے ۔ نہیں بالکل نہیں۔اگر کہیں ظلم دیکھ کرظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا ظلم ہے تو اس سے کئی گونا بڑھ کر چپ چاپ ظلم سہنا بھی ظلم ہے ۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ اس الیکشن میں ہمارے کالج میں سے کون کون سے اساتذہ ان گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں پر اتنا جانتے ہیں کہ ان گروہوں کی پشت پناہی کی جا رہی ہے پر ہمیں ہمت نہیں ہارنا ہے اور نا ہی خوف کھانا ہے باطل چاہیے جتنا زور لگا لے وہ کبھی بھی حق کے سامنے ٹکا نہیں ہے اور نا ہی اس کو کبھی کسی منزل کی راہ ملی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمیں ڈرایا اور طرح طرح سے دھمکایا بھی جائے گا حالات بد سے بدتر ہوں گے لیکن ہمیں ایسے حالات میں بھی ہمت وحوصلہ اور صبر و استقلال کا دامن اپنے ہاتھوں سے نہیں چھوڑنا ہوگا بلکہ ثابت قدمی سے ڈٹے رہنا ہوگا ۔ اور جب ہمیں کامیابی مل جائے گی تو ہم ایسے منفی سر گرم عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کریں گے ۔ خواہ وہ کوئی گروہ ہوں یا پھر ان گروہوں کی پشت پناہی کرنے والے کوئی اور۔ تب کہیں جا کر کالج کا ماحول سازگار ہوگا ہم سب چین کی سانس لیں سکیں گے۔ بس ہمیں اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کیا سب اس بات سے متفق ہیں ۔
ہاں بالکل کیوں نہیں
بہ یک آواز ہو کر سبھوں نے جواب دیا۔۔ فرہاد اپنی پر جوش تقریر ختم کر کے بیٹھ گیا اور ان کا بطور امیدوار الیکشن کے لئے منتخب کر لیا گیا۔۔ جب کانوں کان ان بدمعاش گروہوں تک یہ بات پہنچی کہ اپوزیشن گروہ سے بھی الیکشن کے لئے امید وار کا نام منتخب کر لیا گیا ہے تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی بچوں کو وہ ڈرانے اور دھمکانے لگے مگر سارے students کو ایک ساتھ دیکھکر اسے پیچھے ہٹنا ہی پڑا۔
اب اک نئی جنگ چھیڑ چکی تھی بدمعاش گروہوں کی جانب سے طرح طرح کے دھمکیاں بھی آنے لگی تھیں ۔ ایسے میں مد مقابل گروہوں میں طرح طرح افواہوں کا رائج ہونا عام بات تھی کسی کے ہونٹوں پر یہ بات تھی کہ اگر الیکشن ہار گیےتو خیر نہیں ۔۔ کوئی کہ رہا تھا اگر جیت بھی گئے پھر بھی خطرہ سر سے ٹلے گا نہیں ۔۔
چناوی پرچار زورو شور سے ہونے لگا آخر کار بدمعاش گروہ لڑکوں کو ڈرا دھمکا کر ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف لانے میں کامیاب ہوگئے لیکن مقدر کے لکھے کو وہ ٹال نہ سکیں اور چناوی نتیجہ کا فیصلہ چار ووٹوں سے فرہاد کے حق میں سنا دیا گیا ۔ خوشیوں اور مسرتوں کی لہریں سبھی طلبہ میں دوڑ گئیں
اور یہ خوشیوں کی جھلک باقی ٹیچر میں بھی دکھائی دی جیسے کہ وہ اسی دن کا انتظار کر رہے ہوں۔ سوائے ٹیچرنزہت کے جس کے چہرے پر غم، تکلیف، کرب و الم میں ملا جلا شدید غصہ صاف نظر آ رہا تھا ۔
��

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular